ر فیعہ نوشین
دستگیر صاحب کسی مسجد میں امامت پر مامور تھے اور محلے کے بچوں کو قرآن پڑھناسکھایا کرتے تھے ۔ بس یہی ان کا ذریعہ معاش تھاجس میں انہیں ایک بیوی 6 بیٹے اور 5 بیٹیوں کی کفالت کرنی تھی۔ کویلو کی چھت سے بنا ایک چھوٹا سا ذاتی گھر تھا جو ایک دیوان خانہ، ایک بیڈروم چھوٹا سا دالان اور باورچی خانہ پر مشتمل تھا۔ دستگیر صاحب عالم دین تھے۔ علم کی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف تھے اس لئے باوجود تنگدستی کے اپنے تمام بچوں کو اچھی تعلیم فراہم کی جس کے نتیجہ میں جیسے جیسے بچوں نے اپنے تعلیمی مرحلے تکمیل کئے انہیں ملازمتیں ملنے میں دشواری کا سامنا نہیں ہوا اور وہ روزگار سے جڑنے لگے اور پھر سلسلہ شروع ہوا ان کی ازدواجی زندگیوں کا۔
سب سے بڑے بیٹے سبحان کی شادی ہوئی تو والدین نے اپنا بیڈروم اس کے حوالے کر کے خود دالان میں رہنے لگے ۔ سرما کا موسم ہو۔ موسلادھار بارش یا پھر چلچلاتی دھوپ ان کا بسیرا دالان میں ہی ہوتا کیونکہ وہ بیٹے کی ضرورت سے واقف تھے۔
دو سال بعد دوسرے بیٹے لقمان کی شادی طئے ہوگئی تو مسئلہ یہ در پیش ہوا کہ وہ کہاں رہے گا؟ دیوان خانہ تو مہمانوں کیلئے کم مگر بچوں کو پڑھانے کیلئے مختص تھا۔ ایک بیڈروم تھا تو اس میں سبحان اور اس کی بیوی رہتے تھے ۔ والدین کی اتنی استطاعت نہ تھی کہ نیا کمرہ بنواتے ،لہذا انہوں نے بڑے بیٹے سے کہا کہ وہ صحن میں اپنے لئے ایک نیا کمرہ تعمیر کرلے ۔ سبحان والد کی بات سے متفق نہیں تھا۔ وہ سوچتا کہ 200 گز زمین پر جو موجودہ مکان ہے وہ والد صاحب کی ملکیت ہے۔ اس زمین پر وہ کمرہ بنائے گا تو وہ بھی انہیں کی ملکیت میں شامل ہوجائے گا اور پھر شرعی لحاظ سے اس کے 11 حصے بھی تو ہونے ہیں۔ پتہ نہیں کس کے حصے میں زمین کا کونسا ٹکڑا آئے گا؟ ایسی زمین پر کمرہ بنانا ہی بیکار ہے جس کی ملکیت ہی صاجھی ہو ۔ لہذا سبحان نے کسی دوسرے محلے میں کرایہ کا گھر لے لیا اور اپنی بیوی کے ساتھ وہاں منتقل ہوگیا۔ اسی دوران قلب پر حملے کے باعث دستگیر صاحب اس دنیا سے چل بسے اور ان کی بیوی جیلانی بیگم تنہا رہ گئیں ۔ ان کے خرچے کیلئے جو آمدنی کا ذریعہ تھا وہ بھی اب بند ہوچکا تھا اور اب وہ ہر چیز کیلئے اپنے بیٹوں پر ہی منحصر تھیں۔ ایک ایک کر کے جیلانی بیگم کے تمام بچوں کی شادیاں ہوتی گئیں ۔ بیٹیاں تو خیر بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ بیٹوں کو وہ بارہا کہتی رہیں کہ موجودہ صحن میں کمرے تعمیر کریں اور سب ایک ہی جگہ مل جل کر رہیں ۔ مگر کوئی بھی ان کے اس مشورے پر عمل کیلئے تیار ہی نہیں تھا اور شادی کے کچھ دنوں بعد بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ نیا ٹھکانہ تلاش کرچلا جاتا کہ اس گھر میں ان کے رہنے کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ جیلانی بیگم دل مسوس کر رہ جاتیں اور کر بھی کیا سکتی تھیں ۔ ان کا بس چلتا تو ہر بیٹے کیلئے ایک بہترین کمرہ بنوادیتیں مگر بے بس تھیں۔
جیلانی بیگم کے آخری سپوت عرفان کی شادی ہوئی تو وہ بہت خوشی تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اب عرفان تو گھر چھوڑ کر نہیں جائے گا کیونکہ اس کے بعد کسی کو کمرے کی ضرورت نہیں تھی۔ اور ویسے بھی وہ اب اتنی ضعیف ہوگئی تھیں کہ گھر بار کی ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر خدا کی عبادت میں اپنی آخری زندگی گذارنا چاہتی تھیں۔
عرفان تو بخوشی گھر میں رہ رہا تھا ۔ مگر اس کی بیوی کوثر کو اس گھر میں رہنا، گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا اور ساس کی خدمت کرنا بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ عرفان کو کہتی کہ جب دوسرے تمام بھائیوں کو ماں کی فکر نہیں ۔ کوئی بیٹا یہاں نہیں رہتا ۔ کوئی بہو خدمت نہیںکرتی تو ہم کیوں یہاں رہیں؟
عرفان نے کوثر کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تمام بھائی یہاں سے گئے ہیں تو جگہ کی قلت کی وجہ سے اب ہمارے لئے کمرہ موجود ہے تو ہم امی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاسکتے ہیں؟
عرفان کی اس بات پر کوثر مذہب کی دہائی دینے لگتی کہ اسلام میں تو اجازت ہیکہ اگر بیوی ساس کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اسے الگ رکھیں تو پھر آپ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
اس گھر میں میرا دم گھٹتا ہے میں یہاں نہیں رہ سکتی ۔ مجھے الگ گھر میں رہنا ہے۔ کوثر نے عرفان کو دن رات اتنا تنگ کرنا شروع کیا کہ اس نے بھی اپنا الگ ٹھکانہ ڈھونڈہی لیا ۔
جب جیلانی بیگم کو پتہ چلا تو وہ صدمہ سے بُت بن گئیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہیں اور کس سے کہیں؟ بڑی مشکل سے ہمت جٹا کر عمر خان سے مخاطب ہوئیں’’بیٹا تم گھر چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ یہاں کیا تکلیف ہے تمہیں؟ تم نے سوچا بھی ہیکہ اس عمر میں میں تنہا اس گھر میں کیسے رہوں گی؟ تم تو جانتے ہی ہو مجھے ذیابیطس ہے۔ بی پی ہے، رگوں کی تکلیف ہے،کبھی چکر آجاتی ہے تو کبھی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ تمہارے بابا تو زندہ نہیںہیں۔ میری بھی عمر اب زندہ رہنے کی نہیں ہے بس زندگی کے بقایا دن گذار رہی ہوں ۔ ایسے میںمجھے تم کس کے سہارے چھوڑ کر جارہے ہو؟ وہ روتی بلکتی ہیں ۔ مگر اس کے آنسو بیٹے اور بہو کو جانے سے نہیں روک سکے ۔
اسے جاتا دیکھ کر جیلانی بیگم کو عرفان کے بچپن کا زمانہ یاد آیا جب عرفان 3 سال کا تھا اور ہمیشہ ان کی گود میں ہی رہتا۔ ایک پل کیلئے بھی اسے ماں کی گود سے اترنا گوارا نہیں ہوتا۔ جب کوئی رشتہ دار یا پڑوسی پیار سے اسے اٹھالیتے تووہ اتنا روتا کہ ماں بے چین ہوکر فوراً ان سے عرفان کو واپس لے لیتی اور اپنے سینے سے لگا کر خوب پیار کرتی اور آج جب اسی بیٹے کی ماں کو بیٹے کو سہارے کی ضرورت تھی تو وہ اسے بے یار و مددگار چھوڑ کر نکل گیا تھا۔
اس بات کی اطلاع کہ عرفان بھی گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے دوسرے پانچ بیٹوں کو بھی مل چکی تھی۔ مگر اس بد نصیب ماں کا المیہ یہ تھا کہ کوئی بھی بیٹا انہیں اپنے ساتھ رکھنے کیلئے تیار نہ تھا۔ ہر ایک کی بیوی کو ساس سے بیر تھا جہاں ماں کو گھر میں لانے کی بات ہوتی تو وہاں یہ سوال رکھ دیا جاتا کہ تم زندگی کس کے ساتھ گذارنا چاہتے ہو؟ اگر ماں اتنی ہی عزیز ہے تو انہی کو گھر میں رکھو ہم گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور شوہروں کا عالم یہ تھا کہ ان کیلئے تو بیوی ہی ان کی زندگی تھی اور وہ زندگی سے منہ کیسے موڑیں گے؟ نیک اور صحیح بات کیلئے بیویوں کے خلاف جانا تو درکنار انہیں ناراض تک کرنا نہیں چاہتے تھے جبکہ ہر مرد جانتا ہیکہ اس کی بیوی اگر نیک اور سمجھ دار نہیںہے تو وہ دوسرا نکاح کر کے دوسری بیوی لاسکتا ہے مگر دوسری ماں نہیں۔ اس کے باوجود بیویوں کی تو ان کے پورے حقوق مل رہے تھے مگر ماں کی حق تلفیوں کا ازالہ کون کرے ؟
جیلانی بیگم کے بارہا اسرار پر سب بیٹوں کی بیٹھک ہوئی تو سب نے ملکر یہ طے کیا کہ ماں تو سب کی ماں ہے اس لئے وہ ہر بیٹے کے پاس 5-5 دن رہے گی ۔ اس طرح سے ایک ماہ گذر جائے گا جب اس فیصلے پر عمل آوری شروع ہوئی اور ہر بیٹے کے پاس ماں پانچ دن رہنے لگی تو ماں کو پانچ دن رکھنا بھی ان کیلئے دوبھر ہوگیا ۔ کسی بہو کو ان کے بیت الخلاء کے استعمال کرنے پر اعتراض تھا تو کسی کو نوکرانی سے کام لینے پر ،کوئی کہتی کہ چار دن میں دادی نے پوتے کو ایک نوالہ کھانا تک نہ کھلایا ۔ شاید وہ بھول گئے کہ اس عمر میں دادی اور پوتوں کے مزاج میں یکسانیت آجاتی ہے۔ اس مقولہ کے مترادف کہ عمر پچپن کی دل بچپن کا تو بھلا دادی پوتوں کو کیا کھلائیں گے؟ وہ تو خود اس امید میں ہیں کہ کوئی ان کے بازو بیٹھ کرا نہیں بہت پیار سے کھانا کھلائے اور اس دوران کھانے کے دانے گر جائیں تو انہیں اپنے ہاتھوں سے سمیٹ لیں۔ اس کے لئے انہیں جھڑکیاں نہ دیں ۔کسی کو ان کے چندن ہار پہننے پر اعتراض تھا کہ اس عمر میں انہیں یہ ہار پہننے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن جیلانی بیگم کے پاس اپنی تدفین کیلئے کچھ تھا تو وہی چندن ہار۔ نہ ان کے پاس جمع پونجی تھی ۔ نہ ہی لاکر جہاں وہ ہار حفاظت سے رکھ سکتیں اس لئے وہ ہمیشہ چندن ہار پہنے رہتیں اور کہتیں کہ جب بھی میری موت واقع ہوجائے اس ہار کو بیچ کر میری تدفین کا انتظام کرنا اس لئے وہ ہار ہمیشہ ان کے گلے میں پڑا رہتا ۔بہر کیف طعنے تشنے گلے شکوے اور انتہائی ناگواری کے تاثرات کے ساتھ ایک مہینہ گذر گیا ۔ اس ایک ماہ میں جیلانی بیگم نے محسوس کیا کہ انہیں کسی بھی بیٹے کے پاس چین وسکون نہ ملا ۔ نہ ہی وہ خوشی اور مسرت جس کی تمنا لیکر وہ بیٹوں کے پاس گئی تھیں۔ انہوں نے صاف محسوس کیا کہ ان کو رکھ کر بیٹے اُداس ، ناراض اور شرمندہ ہی ہیں۔ نہ تو انہوں نے ان کی پیرانہ سالی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ ہی مدد کی ۔ لہذا وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئیں۔ واپس آئیں تو گھر کا برا حال تھا ۔ کافی عرصہ سے نہ داغ دوزی ہوئی تھی نہ مرمت، دیواریں گرد سے اٹی پڑی تھیں۔ سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ۔ صرف دالان میں ایک مدھم سا بلب ٹمٹماتا رہتا ۔ کیونکہ اس گھر کے برقی کا بل ادا کرنے کیلئے بھی کوئی راضی نہیں تھا۔ سب یہی کہتے کہ عرفان رہ رہا تھا تو عرفان کو ادا کرنا چاہئے اور عرفان کی بیوی کہتی کہ ہم جب رہتے تھے تب دیتے تھے اب تو ماں اس میںرہ رہی ہیں اور وہ سب کی ماں ہیں تو سب کو مل کر بل ادا کرنا چاہئے اسی بحث میں برقی کا بل بڑھتا جارہا تھا۔
جیلانی بیگم کے گذر بسر کیلئے کوئی آمدنی کا ذریعہ نہ تھا ۔ اس لئے پیٹ بھر کھانا بھی ان کیلئے مشکل تھا۔ تیسرا بیٹا سلمان کبھی کبھار ماں کیلئے روٹی لاتا تو وہ بھی بیوی کی چوری سے ہیلمٹ میں چھپا کر لے آتا ۔ جس سے روٹی میں پسینے کی بو بس جاتی ۔ یہ روٹی وہ اس ماں کیلئے لاتا تھا جو بچپن میں اس کیلئے اصلی گھی کے گرما گرم پراٹھے کھلاتی تھی۔
جو بے اولاد ہوتے ہیںوہ اس بات سے پریشان رہتے ہیں کہ ضعیفی میں ہمارا سہارا کون بنے گا۔ زندگی کا آخری پڑاو ہم کیسے گذاریں گے ؟لیکن جس ماں کے 11 بچے تھے اس کا حال ان والدین سے بھی بدتر تھا۔ کیونکہ انہیں تو صرف بے اولاد ہونے کا غم تھا لیکن جیلانی بیگم کو اولاد ہوتے ہوئے بھی بے اولاد جیسا درد و کرب سہنا پڑا تھا وہ سوچتیں اس سے تو اچھا ہوتا کہ میں بے اولاد ہی رہتی۔
بچوں کے سلوک سے وہ دل شکستہ و مایوس ہوگئی تھیں۔ تنہائی، کمزوری، لاچاری، بیماری ، میموری اور گھر میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے ان کے ضعیفی کے اس سفر کو اور بھی دشوار گذار بنایا تھا۔
بیٹوں اور بیٹیوں کو کبھی فرصت ملتی تو ماں کے خبر لینے آجاتے ورنہ تو وہ تنہا ہی عبادت میں مصروف رہتیں۔
پھر اچانک ایک رات بارہ بجے عرفان کو محلے کے کسی فرد نے فون پر اطلاع دی کہ جلدی آئیے آپ کے گھر سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں اور آپ کی والدہ اندر ہیں۔
جب تک عرفان اپنے بھائیوں کے ساتھ گھر پہنچتا۔ سب کچھ جل کر خاکستر ہوگیا تھا ۔ ماں کا وجود بھی۔ پولیس اور فائر انجن موجود تھے اور اپنا کام کررہے تھے۔ کوئی نہیں جان سکا کہ آگ کیسے لگی؟ رات کا وقت تھا۔ سب سو رہے تھے کسی راہ گذرنے گھر سے نکلتے شعلوں کو دیکھا تو پولیس کو اطلاع دی اور پھر پڑوسی نے عرفان کو۔ دوسرے دن جب آگ ٹھنڈی ہوئی تو گھر کے اندر ماں کے جسم کی تلاش شروع ہوئی ۔ مگر اسے پانا انتہائی مشکل امر تھا کیونکہ گھر کی ہر چیز جل کر راکھ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ انہی کالی راکھوں میں عرفان کی نظر ایک چمکتی ہوئی چیزپر پڑی ۔ ماں کا چندن ہار۔ اور پھر اسی مقام سے کھوج کھوج کر ماں کی ہڈیاں اکٹھا کی گئیں۔ جو کہ (11) گیارہ تھیں۔ ان ہڈیوں کو ایک سفید کپڑے میں باندھا جارہا تھا ۔ تبھی ان ہڈیوں سے ایک آہ سی نکلی ’’مجھے اکٹھا کیوں رکھ رہے ہو۔ میں تو سب کی ماں ہوں تو میری ایک ایک ہڈی ایک ایک بچے کے حوالے کردو۔ جو جہاں چاہے گا دفنا لے گا۔ آخر کو میں سب کی ماں ہوں۔
اور عرفان اپنے دل میںکہہ رہا تھا
بس ایک تجھی کو بھول کے سب کے پیچھے بھاگتا رہا
تیری تنہا ئیوں میں ایک پل بھی تیرے ساتھ نہ رہا
میں بد نصیب تیری معافی کے قابل بھی نہ رہا
اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے
پچھتاوے کے آنسو۔ جو شاید زندگی بھر اس کی آنکھوں سے بہتے رہیں گے ۔