سبری مالا مندر اور خواتین کا داخلہ

رام پنیانی
ہم جمہوری سماج میں رہتے ہیں جہاں ہم تمام مساوی سمجھے جاتے ہیں۔ ماقبل صنعتی سماج دور میں عدم مساوات بہت زیادہ تھی اور یہ پیدائش پر مبنی تھی۔ ہندوستانی سماج میں یہ عدم مساوات جو پیدائش پر مبنی ہے، اس کا تعلق ذات پات اور جنس سے ہے۔ اس عدم مساوات کے باقی ماندہ عناصر کا آج کی سوسائٹی میں تک وجود ہے۔ اس کا ایک پہلو عبادت گاہوں میں خواتین کے داخلے سے متعلق ہے۔ زیادہ تر مساجد میں غالب طور پر مرد لوگ ہی اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ مندروں میں امتیاز کی اساس ذات پات اور جنس دونوں کی بنیاد پر رہی ہے۔ وہ جدوجہد یاد کیجئے جو بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر نے دلتوں کیلئے کالارام مندر میں داخلے کے معاملے میں کی تھی۔ حالیہ مہمات بھی یاد کیجئے جن کی قیادت تروپتی دیسائی نے کی کہ ہندو مندروں (بالخصوص مہاراشٹرا کی شانی شگناپور) کی مقدس جگہوں پر خواتین کو داخلہ دیا جائے۔ حال میں ہم نے مسلم خواتین کے ایجی ٹیشن کو بھی دیکھا کہ ممبئی کی حاجی علی درگاہ کے داخلی گوشے میں خواتین کو داخلے کی اجازت دی جائے۔ یہ حالیہ ایجی ٹیشن کے نتیجے میں خواتین کو کامیابی ملی اور انھیں ان مقدس مقامات پر داخلہ حاصل ہوا۔
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا ہے۔ متعدد مشہور اور غیرمعروف منادر ہیں جو ہنوز بعض ذاتوں اور خواتین کے داخلے کو روکتے ہیں، ان مشہور ترین میں لارڈ ایپا کی سبری مالا مندر ہے، جہاں حیض کی عمر والے گروپ کی خواتین کو پہنچنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ لارڈ ایپا نے مستقل کنوارگی کا عہد کرلیا تھا۔ حالیہ (28 سپٹمبر 2018ئ) سپریم کورٹ اکثریتی فیصلہ (1 کے مقابل 4) میں عدالت نے رولنگ دی کہ سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر امتناع امتیازی ہے اور ہندو خواتین کے حقوق کے مغائر ہے۔ اس فیصلہ کا اکثر ویمنس رائٹس گروپس اور کئی دیگر گوشوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ کویتا کرشنن کا ٹوئٹ اکثریتی ویمنس رائٹس گروپس کی رائے کا خلاصہ ہے۔ ’’تین طلاق، حاجی علی درگاہ، اور سبری مالا کیسوں میں عدالتوں نے درست طور پر فیصلہ سنایا کہ خواتین کی مساوات کو مذہبی رواجوں کا یرغمال نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مندروں میں داخلہ ذات پات کی اساس پر روکنا غیردستوری اور امتیازی ہے، اسی طرح جنس کی اساس پر داخلے سے منع کرنا بھی ہے۔ نیز، ہم اپنے اقدار کو ہمارے بھگوانوں پر مسلط کررہے ہیں … سماجی اقدار جو مردوں کی کنوارگی یا خواتین کے بارے میں جنسی پسند و اختیار کا بوجھ ڈالتے ہیں جو حقیقی زندگی میں خواتین کو گہرا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس نے متنبہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ عوام کے احساسات کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ کانگریس نے اس مندر کو کنٹرول کرنے والے ٹرسٹ سے عدالتی فیصلہ پر نظرثانی کیلئے رجوع ہونے کی اپیل کی جبکہ بی جے پی نے ریاستی حکومت سے اس امتناع کو ختم کردینے کیلئے آرڈیننس لانے کی اپیل کی۔ کئی دیگر تنظیمیں منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کے ذریعے اسے کالعدم کرایا جائے۔
مساوات کی طرف خواتین کی پیش رفت کا سفر آسان راہ نہیں ہے۔ ستی کی نہایت تکلیف دہ رسم اول رہی، جس کی مخالفت راجہ رام موہن رائے نے شروع کی۔ انھیں اپنی راہ میں بڑی رکاوٹیں جھلینی پڑیں حالانکہ تائیدی قوانین موجود تھے جنھوں نے آخرکار بیوہ کو زندہ جلا دینے کی ہولناک رسم کو ختم کیا۔ کئی قانون سازیوں کے باوجود ستی کو آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکا۔ چند دہے قبل کی بات ہے ہم نے روپ کنور کی ستی دیکھی، اور جب سیول سوسائٹی کے زیادہ تر اشخاص نے سخت سزا پر زور دیا تب بی جے پی کی نائب صدر مسز وجئے راجے سندھیا نے ستی کی رسم کی تائید میں ریلیاں نکالیں۔
ہندو خواتین میں دیگر بڑی اصلاح کا تعلق مرضی معلوم کرنے کی عمر سے ہے۔ مباحث ہوئے کہ مرضی معلوم کرنے کی عمر کو ابتدائی طور پر 10 سال سے 12 سال تک بڑھا دیا جائے، تب لوک مانیا گنگادھر تلک جیسے قائدین نے اس اقدام کی مخالفت اس بنیاد پر کی کہ یہ ہندو روایات کے خلاف ہے، عمومی طور رائج خیال یہی ہے کہ لڑکیوں کی پہلی حیض کی مدت سے قبل شادی کردینا چاہئے۔ اس طرح کی اصلاحات کیلئے جدوجہد کی کئی مثالیں ہیں جو یاد کرنے کے قابل ہیں، اس طرح کی ایک جدوجہد تانیکا سرکار کی کتاب ’ہندو وائف ہندو نیشن‘ ہے۔ چند سال قبل کی بات ہے کئی علماء لڑکی کی مرضی معلوم کرنے کی عمر کو 18 سال تک بڑھانے کے خلاف احتجاج کئے۔ اُن کے نقطہ نظر سے مسلم لڑکیوں کی جلد شادی کیلئے خصوصی گنجائشیں لازمی ہیں۔
ہماری سوسائٹی بہت ناہموار ہے۔ جلد شادی کیلئے دلائل کا تعلق زیادہ تر غریبوں میں تعلیم کے فقدان سے ہے، جہاں لڑکیوں کی حفاظت بڑا مسئلہ ہے۔ آج سبری مالا فیصلہ ان لوگوں کے درمیان بحث کا معاملہ ہے جو مساوات کے خواہشمند ہیں اور وہ جو پرانی روایات پر قائم رہنا چاہتے ہیں، جن میں خواتین کی عدم مساوات مضمر ہے۔ حتیٰ کہ آج بھی اس موضوع پر سماجی فکر کا وسیع دائرہ ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے گروپ نے عزم کیا ہے کہ وہ یقینی بنائیں گی کہ حیض والی خواتین مندر میں داخل نہیں ہوں گی؛ دوسری طرف ہم ایکلویا آشرم جیسے مقامات دیکھتے ہیں جہاں حیض کوئی ممنوع بات نہیں ہے، حیض والی بھکتیں بھی پوجا کرتی ہیں۔ اس طرح کے حالات میں توازن قائم کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسے رسی پر چلنا۔
کئی ویمنس گروپ نے خواتین کیلئے مندر میں داخلے کیلئے جاری جدوجہد سے خود کو اس بنیاد پر الگ تھلگ رکھا کہ تمام مذاہب پوشیدہ طور پر سماجی نظام ہوتے ہیں، لہٰذا کیوں جال میں پھنسیں! کسی کے بہترین علم کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں کہ سماجی نظام زیادہ تر ادارہ جاتی مذاہب کی اصل بنیاد ہوتا ہے۔ مندر میں داخلے کا یہ مطالبہ اس سماجی نظام کے ڈھانچہ کو ڈھا دینے کی سمت قدم ہے، جو آنے والے وقتوں میں سماجی نظام کو مکمل ختم کردینے کا موجب ہوگا۔ قانون سازیاں مسائل کو پوری طرح حل نہیں کرتے ہیں؛ پھر بھی وہ مساوات کیلئے مستقبل کی راہ کیلئے سمت کے تعین میں ایک بڑا قدم ہوتے ہیں۔ اس ڈھانچہ میں غربت اور خواتین کیلئے سلامتی کے فقدان کے دیگر سماجی حالات بڑے تشویشناک عوامل ہیں جو سماجی نظام کو بدلنے کا چارہ ثابت ہورہے ہیں۔ ہمیں ایسی سماجی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو قانون سازیوں کے من و عن اطلاق کو اُبھاریں اور اس کیلئے بنیاد فراہم کریں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ آگے بڑھا ہے، اب ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں مساوات کی راہ ہموار کریں۔ ضرورت ہے کہ اس طرح کے فیصلوں کیلئے سازگار حالات پیدا کئے جائیں۔
ram.puniyani@gmail.com