سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے

محمد مصطفی علی سروری
شہر حیدرآباد کس تیزی کیساتھ ترقی کررہا ہے اس کا اندازہ بہت سارے اہلیان تلنگانہ کو بھی نہیں ہے۔ تبھی تو تلنگانہ کے لوگ شہر کے اس بے مثال ترقی کے ثمرات سے بھی محروم ہیں۔
یہ ڈسمبر 2014ء کی بات ہے جب اسمارٹ فون کی خریداری کیلئے ہماری تلاش شروع ہوئی۔ دوست احباب نے اپنے اپنے مشوروں سے نوازا اور خود انٹرنیٹ پر طویل تلاش ختم ہوئی تو ایک ایسے فون پر جاکر نظریں ٹکی جس کے متعلق بتلایا گیا یہ فون کہیں اور نہیں بلکہ خود ہمارے شہر حیدرآباد میں ہی ایک مقامی کمپنی تیار کرتی ہے۔ Samsung اور Nokia جیسے بڑے بڑے ملٹی نیشنل برانڈس کے اشتہارات تو دیکھے تھے اور یہ بھی دیکھا تھا کہ جو لوگ ان بڑے بڑے برانڈس کے فون اپنے ہاں رکھتے تھے وہ اپنے فونس کی فخریہ نمائش بھی کرتے تھے اور میرا خود جو پچھلا فون تھا وہ ایک بڑے بڑے برانڈ کا ہی چھوٹا فون تھا جو دو سال بھی صحیح سے نہیں چل پایا تھا۔ اس تجربے کے سبب ہی دوسرا فون خریدنے میں بڑی احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ ایک تو دیر تک چلنے والی بیاٹری ٹچ اسکرین اور Andriod کے ساتھ بہت ساری سہولیات تو اس میں موجود تھی ہاں "Celkon” کا نام ہم پہلی مرتبہ سن رہے تھے۔ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے ہم نے طئے کرلیا تھا کہ اس مرتبہ ایک ہندوستانی فون کو ہی آزمائیں گے ساتھ ہی خوشی اس بات کی تھی کہ فون تو ہندوستانی تھا ہی ساتھ ہی شہر حیدرآباد میں واقع کمپنی کا تیار کردہ تھا۔

تھوڑے خدشات اور تھوڑی خوشی کے ملے جلے جذبات لئے ہم نے آن لائن شاپنگ کے لئے مشہور E-Bay ویب سائیٹ سے Celkon کے اسمارٹ فون کا آرڈر دے دیا لیکن ہمیں تعجب ہوا جو فون ایک حیدرآباد کی کمپنی تیار کررہی اس کی مارکٹنگ مدھیہ پردیش کے شہر اندور کی دوسری کمپنی کررہی ہے۔ اب فون کی خریداری کا آرڈر ملنے پر مدھیہ پردیش سے اس فون کو بذریعہ کوریئر روانہ کیا گیا چونکہ اندور سے حیدرآباد تک راست کوریئر کی ڈیلیوری ممکن نہیں تھی تو یہ فون کا پارسل اندور سے ممبئی تک سفر کرتا ہے اور پھر ممبئی سے حیدرآباد پہنچتا ہے۔ اس فون کی قیمت 8 ہزار سے بھی کم تھی اور کمپنی نے کوریئر کی کوئی اضافی رقم بھی چارج نہیں کی۔
یعنی اس 8 ہزار سے بھی کم مالیت کے فون کو حیدرآباد کی ایک کمپنی تیار کرتی ہے۔ مدھیہ پردیش کی ایک کمپنی اس کی مارکٹنگ کرتی ہے اور پھر کوریئر والے اس کو حیدرآباد کے پتے پر پہنچاتے ہیں اور اس سارے کام کے دوران فون بنانے والی کمپنی منافع کماتی ہے۔ مارکٹنگ والوں کو منافع ہوتا ہے اور کوریئر والے کی آمدنی ہوتی ہے۔ فون کی خریداری کے متعلق اتنی ساری تفصیلات لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے شہر حیدرآباد میں خود اب دنیا بھر کے لوگ کاروبار کررہے ہیں اور ہر طرح کی ترقیاتی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

مجھے تعجب ہوتا ہے جب فیس بک اور واٹس اپ پر سعودی عرب اور دبئی میں پھنسے ہوئے نوجوانوں کی اپیلیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کوئی ہمیں بچا لے اور واپس وطن آنے میں مدد کرے کیونکہ بغیر تنخواہ پاسپورٹ اور طبی سہولیات کے وہ لوگ پریشان حال ہیں۔ ارے کس نے کہا کہ بیرون ملک جاکر پریشانی اٹھاؤ ڈھونڈگے تو اندرون ملک بلکہ خود اپنے شہر میں ہی بے شمار مواقع ہیں۔ حکومت تلنگانہ کے آئی ٹی، الیکٹرانکس اور کمیونکیشن کے سکریٹری ہر پریت سنگھ کے حوالے سے اخبار بزنس اسٹانڈرڈ نے لکھا ہے کہ مالیاتی سال 2013-14ء کے دوران حیدرآباد سے آئی ٹی کی برآمدات (ایکسپورٹس) 10 بلین ڈالر کی مالیتی ریکارڈ کی گئی جی ہاں 10 بلین ڈالرس کو ہم ہندوستانی روپیوں میں تبدیل کریں تو یہ تقریباً 57,000.00 (ستاون ہزار کروڑ) ہوتے ہیں۔ حکومت کے سکریٹری نے مزید کہا کہ جاریہ مالیاتی سال 2014-15ء کے دوران آئی ٹی کی یہ برآمدات 63000 تا 64000 کروڑ تک جا پہنچ سکتی ہے۔ حیدرآباد میں واقع آئی ٹی کی اس صنعت میں 3 لاکھ 20 ہزار لوگ ملازم ہیں اور جاریہ برس کے دوران اس انڈسٹری میں مزید 20 ہزار لوگوں کو ملازمت ملنے کی توقع ہے۔ ہمارا نوجوان کیا سوچ رہا ہے اور کدھر کو جارہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ساری صورتحال مایوس کن ہے لیکن افسوس اس لئے ہوتا ہیکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد آسان راستے پر چل کر بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کی متمنی ہے۔
26 جنوری 2015ء کو پرانے شہر کے علاقے کے ایک مکین نے شکایت کی کہ ان کے گھر چوری ہوئی جس میں 10 لاکھ نقد رقم اور 22 تولے سونے کو سارقوں نے چرا لیا۔ مالک مکان کی شکایت پر رین بازار پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا اور فبروری کے پہلے ہفتے میں پولیس نے ایک پریس کانفرنس میں چوری کی اس واردات سے پردہ اٹھایا اور ملزمین کو گرفتار کرکے میڈیا کے روبرو پیش کیا۔ اس سارے واقعہ میں عبرت کا پہلو تو یہ تھا کہ پولیس نے جن لوگوں کو 10 لاکھ نقد اور 22 تولے سونا چرانے کے الزام میں گرفتار کیا وہ کوئی اور نہیں اسی مالک مکان کا بھتیجہ ہے اور اس سے بھی بڑی عبرت کی بات یہ ہیکہ ابھی وہ لڑکا نابالغ ہے۔ یہ ہم اپنے بچوں کی پرورش کیسے کررہے ہیں کہ ہمارے بچے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے ہاں مال و دولت آجائے تو سمجھ لیجئے کہ ان کی زندگی (SET) ہوگئی۔ یہ جو نابالغ لڑکا پولیس نے پکڑا ہے اس نے ایس ایس سی میں ناکامی کے بعد تعلیم ترک کردی ہے اور اس کم عمر نابالغ نے اپنے جن دو دوستوں کے ساتھ مل کر چوری کی واردات انجام دی ہے ان میں ایک نوجوان انجینئرنگ کے فرسٹ ایئر کا طالب علم ہے۔

یہ وہ امور ہیں جن پر ہماری توجہ نہیں ہے۔ اپنی اس غفلت کی ہم بہت بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔ اعتدال ہماری صفوں سے دور ہوچکا ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جو دین سے واقف ہے۔ دین کی تعلیم سے بہراور ہے دوسرا وہ ہے جو دینی تعلیم کے معنی اتنا ہی سمجھ پایا کہ جمعہ کی نماز پڑھنی ہے اور رمضان میں روزہ رکھ کر قرآن کی تلاوت کرنی ہے۔ پہلے طبقہ میں بھی دو طرح کی شدت پسندی درآئی ہے۔ ایک طبقہ دین کے معنی و مفہوم کو اس قدر اچھی طرح سے سمجھ چکا ہے کہ وہ اب اپنے بھائی کو بھی صرف اس لئے اچھا نہیں سمجھ پاتا ہے کیونکہ اس کا بھائی اپنے آپ کو مسلمان تو کہتا ہے مگر اس کا مسلک کچھ اور ہے۔ دین کی تعلیم سے آراستہ ایک دوسرا طبقہ ایسا ابھر کر سامنے آیا ہے کہ بس بے چین ہے کسی طرح اس کا جنت میں جلد سے جلد داخلہ ہوجائے اور وہ جنت میں اپنے جلد داخلہ کو یقینی بنانے کیلئے بندوق اور بم بھی اٹھانے آمادہ ہے۔ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر عراق اور شام جانے کے بارے میں سونچتا رہتا ہے۔

اب یہ کس کی ذمہ داری ہے۔ وہ مسلمانوں کے سلگتے ہوئے سماجی مسائل پر توجہ مرکوز کرے۔ میرے تو ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ اصلاحی جلسہ اور پروگرام میں دینی اجتماعات میں جس بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی تعداد آتی ہے اس سے یہی فائدہ اٹھاؤں کہ مسلم علماء اور مولانا حضرات سے درخواست کروں۔ آپ کسی جلسے جلوس یا پروگرام میں آئیں یا نہ آئیں اس سے اہم بات تو یہ ہیکہ آپ اپنے ہی علاقے اور محلے کی مسجدوں کو آباد کریں۔ مجھے امید ہیکہ جو نوجوان اپنے پسندید اور چہیتے مولانا لوگوں کو سننے کیلئے جلسوں اور جلوسوں کو جاتا ہے وہ ان کے پیچھے اپنے محلہ کی مسجد کو جانا بھی پسند کرے گا۔
نوجوان محلے کی مسجدوں کو جانے لگیں گے تو اس سے کیا ہوگا؟ جب نوجوان محلے کی مسجدوں کو اپنے محبوب مولانا حضرات کے ساتھ جانے لگیں گے تو ان کو دین کا اصل مفہوم سمجھ میں آئے گا اور وہ لوگ قرآن پاک کو بھی سمجھنے کی جانب متوجہ ہوں گے۔ یوں ایک صالح معاشرے کے حصول کی سمت مثبت قدم ہوگا۔ نوجوانوں کی بہترین تربیت ان کو خدا کی پہچان کروانے کی ہے اور یہ کام والدین کی ہی ذمہ داری ہے۔ ہم میں سے کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کی ہمہ جہت تربیت کیلئے فکرمند ہیں؟ کتنے والدین ایسے ہیں جو دن کے کسی بھی وقت ہو یا راست کے وقت یہ بتا سکتے ہیں کہ اس وقت ان کے بچے کہاں ہیں۔ اس کے دوست کون کون ہیں اور تفریح کیلئے وہ کہاں جاتے ہیں اور ان کے بچوں کے ہاں وہ ’’کونسے‘‘ تحفے ہیں جو انہوں نے نہیں دیئے مگر وہ ان کے بچوں کے پاس موجود ہے۔
بزنس اسٹانڈرڈ اخبار نے 14 فبروری 2015ء کو What Billionoures Teach Their Childern کے عنوان سے ایک خصوصی فیچر شائع تھا کیا۔ اس میں ملک کے دولتمند ترین افراد کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ لوگ اپنے بچوں کی تربیت کیلئے کتنے فکرمند ہیں۔ Fortis Healt کیئر ہندوستان کی ایک بڑی کمپنی ہے اس کے مالک ماتویندر سنگھ کا شمار امیر ترین ہندوستانیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی تین لڑکیاں ہیں جو ابھی اسکول میں جاتی ہیں۔ اپنی بچیوں کی تربیت کیلئے فکرمند مالویندر سنگھ نے 13 سال کی عمر میں اپنی لڑکیوں کو موبائیل فون استعمال کرنے کی اجازت دی اور اس وقت بھی کوئی نیا فون نہیں بلکہ استعمال شدہ (Used) موبائیل دیا گیا۔ ساتھ میں یہ پابندی کہ رات 10 بجے کے بعد کوئی موبائیل فون استعمال نہیں کریں گے۔

ڈی سی ایم سرینواس رام کمپنی کے ارب پتی مالک اشیش بھارترام کے مطابق ان کے گھر میں ان کے بچے ٹیلی ویژن کے روبرو کھانا نہیں کھائیں گے اور کھانا کھانے کے دوران کوئی بھی موبائیل فون استعمال نہیں کرسکتا ہے اس طرح کا اصول ہے۔ یہ تو ان امیر زادوں کی تربیت کے متعلق ان کے ارب پتی والدین کی فکر ہے اور ہم مسلمانوں کو اپنے بچوں کی تربیت کے متعلق کتنی فکر ہے۔ یہ کسی سے چھپی نہیں ہے۔ بچوں کو اسکول کالج کی تعلیم دلوانا، اگر ان کی فکر کرنا ہے تو ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ جیل میں رہنے والے قیدی بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

17 فبروری 2015ء کو ٹائمز آف انڈیا اخبار نے الہ آباد سے خبر دی کہ اترپردیش میں دسویں اور بارہویں کے بورڈ امتحانات 19 فبروری سے شروع ہونے جارہے ہیں۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس مرتبہ ان امتحانات میں 300 ایسے امیدوار بھی شریک ہیں جو مختلف مقدمات اور الزامات کے تحت جیل میں قید کی سزاء کاٹ رہے ہیں اتنا ہی نہیں اخبار ٹائمز آف انڈیا کی 6 مئی 2014ء کی ایک خبر کے مطابق کہ دہلی کی تہاڑ جیل میں 66 قیدیوں کو مختلف کمپنیوں نے ملازمت کا پیشکش کیا ہے۔ یہ قیدی اپنی رہائی کے بعد ان کمپنیوں کی ملازمت کو اختیار کرسکیں گے یعنیٰ تعلیم حاصل کرنا اور ملازمت کرنا بھی کامیابی کا پیمانہ نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ جیل میں مختلف الزامات اور مقدمات میں سزاء کاٹنے والے کئی قیدی نہ صرف تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ اپنی سزاء کی تکمیل سے پہلے ہی انہیں کمپنیوں میں ملازمت کے آفر لیٹر بھی مل رہے ہیں۔ مسلمانوں کی کامیابی کا پیمانہ کچھ اور ہے اور یہ پیمانہ خود خدائے ذوالجلال والکرام نے بتایا دیا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان تسلیم کرتے ہیں تو ہماری یہ ذمہ داری ہیکہ اپنی زندگی کا جائزہ لیکر ہم غور کرلیں کہ ہم اپنی زندگی واقعی مسلمانوں کی طرح گذارنے میں یا پھر ہماری زندگیوں میں ہمارے نام کے علاوہ دوسری کوئی چیز ایسی نہیں جس سے پتہ چل سکے گا مسلمان ہیں۔
بقول علامہ اقبال
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زاری سے نہیں
sarwari829@yahoo.com