ساہتیہ اکیڈیمی کا راجندر سنگھ بیدی سمینار… (رپور تاژ)

ڈاکٹر رؤف خیر
تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی حیدرآباد کے اشتراک و تعاون سے ساہتیہ اکیڈیمی دہلی کے زیر اہتمام دو روزہ سمینار 7 اور آٹھ 8 مئی 2016 ء کو ہوٹل گرانڈ پلازا نزد حج ہاؤس ، نامپلی حیدرآباد کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔
افتتاحی اجلاس 7 مئی شام 4.30 بجے مشہور و معروف ناول نگار و افسانہ نویس پروفیسر عبدالصمد کی صدارت میں ہوا۔ سکریٹری ساہتیہ اکیڈیمی ڈاکٹر کے سرینواس راؤ نے سمینار میں قلم کاروں اور شرکاء کا خیرمقدم کیا ۔ ڈاکٹر مشتاق صدر نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ ممتاز کہانی کار رتن سنگھ نے اپنے افتتاحی کلمات میں افسانوی ادب کی تیری مورتی کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اورمنٹو کو قرار دیا جو ایک ہی مٹی کے بنے تھے ۔ تینوں ایک جان تین قالب تھے ۔ پطرس بخاری نے منٹو سے جب کہا تھا کہ میں تمہیں اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتا ہوں تو منٹو نے جواب دیا کہ آپ میرے باپ بننے کی کوشش نہ کریں ۔

پروفیسر بیگ احساس آج کل اکثر سمیناروں اورجلسوں میں کلیدی خطبے دے رہے ہیں اور اپنے دلچسپ ریمارک کیلئے مشہور ہیں۔ رتن سنگھ کے افتتاحی کلمات قدرے طویل ہوگئے تھے ۔ بیگ صاحب نے اس پر کمنٹ کیا کہ رتن سنگھ عموماً کہانیاں مختصر لکھتے ہیں مگر بیدی کے معاملے میں انہوں نے اپنی اس روایت کو توڑا۔ پروفیسر بیگ احساس نے فرمایا کہ اردو افسانے کے تین بڑے نام جب کبھی لئے جائیں تو ہمیشہ بیدی ان میں شامل رہیں گے ۔ بیدی نے پہلے مجید لاہوری کے نام سے شاعری بھی کی تھی ۔ مگر ہمارا خیال ہے بیدی تو افسانہ نگاری کی طرف لوٹ گئے اور ایک دوسرا شخص مجید لاہوری کے نام سے مستقلاً لکھتا رہا اورطنز و مزاح کا معروف نام ثابت ہوا ۔ دانہ و دام ، اپنے دکھ مجھے دے دو ، گرہن ، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے وغیرہ بیدی کے افسانوں کے مجموعے ہیں ۔ بیدی کسی تحریک یا رجحان کے نمائندہ نہیں رہے ۔ ان کی کہانی مروجہ سانچوں کو نہیں توڑتی بلکہ اپنا سانچہ آپ بناتی ہے ۔ بیدی نے سوچ سوچ کر لکھا ہے ۔ بیدی کی کہانی گہرے دھیان سے شروع ہوتی ہے ۔ کوئی اذیت جھیل جھیل کر لکھتا ہے یا کوئی قلم برداشتہ لکھتا ہے تو اس سے قاری کو کیا فرق پڑتا ہے ۔اصل تو متن ہے ۔ بیدی کی ذاتی زندگی پر نقادوں نے زیادہ زور دیا ہے ۔ بیدی کے استعاراتی و اساطیری اسلوب پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بہت خوب لکھا ہے۔ بعض نے بیدی کی زبان کو نشانہ بنایا ہے ۔بیدی نے کہا تھا کہ افسانہ و شعر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ شعر چھوٹی بحر میں اور افسانہ لمبی بحر میں ہوتا ہے ۔ بیدی ایسا فنکار ہے جس کے متن کی تعبیر ہر نسل اپنے طور پر کرتی رہے گی۔
اسی اجلاس میں مشہور افسانہ نگار جیلانی بانو نے بھی اپنے تاثرات بیان کئے کہ بیدی کا افسانہ ایک شعر کی طرح مربوط لگتا ہے ۔ بیدی مالی پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے اس لئے وہ کہانیاں لکھنے کے بجائے مختلف کام کرنے لگے تھے ۔ جیلانی بانو نے کہا کہ 1964 ء میں ہم بمبئی گئے تھے ۔ عصمت آپا کے ہاں ٹھہرے تھے۔ قرۃ العین حیدر سے ملنے کا اشتیاق تھا ۔ راجندر سنگھ بیدی عصمت آپ کے ہاں آگئے ۔ عصمت سورہی تھیں۔ بیدی نے کہا چلو کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔ گھر پر اس لئے نہیں کہ بیوی گھر پر نہیں ہے ۔ بیدی پر 1979 ء میں فالج کا حملہ ہوا اور انہوں نے اپنا ہاتھ بتایا کہ یہ میرا ہاتھ بے کار ہوگیا ہے اور میں کچھ لکھ نہیں سکتا۔
تلنگانہ اردو اکیڈیمی کے ڈاکٹر سکریٹری پروفیسر ایس اے شکور نے اپنی اکیڈیمیوں کی کارکردگی کی تفصیلی روداد بیان کی اور ساہتیہ اکیڈیمی کا شکریہ ادا کیا۔
صدارتی خطاب سے پہلے رتن سنگھ نے مزید کہا کہ کاش یہ سمینار بیدی کی حیات میں ہوتا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ جیلانی بانو اور مجتبیٰ حسین جیسے قلم کاروں کا جشن ان کی زندگی میں منایا جائے ۔ ساہتیہ اکیڈیمی کے انعام یافتہ پروفیسر عبدالصمد نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ اس سمینار میں تین بڑی شخصیتیں جمع ہیں۔ جیلانی بانو ، مجتبیٰ حسین اور رتن سنگھ جنہیں یکجا دیکھنا اصحاب ذوق کیلئے اعزاز کی بات ہے ۔ (ہمارا خیال ہے کہ چوتھی بڑی شخصیت خود عبدالصمد کی ہے جنہیں دیکھنے اور سننے کی سعادت ارباب ذوق کو نصیب ہورہی تھی) بیدی نے کم لکھا اور شہرت زیادہ پائی ۔ بیدی نے تقریباً پچاس برس تک اپنا معیار برقرار رکھا ۔ حالانکہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ غیر ادبی گزرا۔ بیدی بھلے ہی سوچ سوچ کر لکھتے تھے کہ نہ لکھتے تھے مگر قاری کو سوچنے پر آمادہ کرتے تھے ۔ وہ شہرت کیلئے نہیں بلکہ افسانے کی حرمت برقرار رکھنے کیلئے لکھتے تھے ۔ بیدی کے فن کا بڑا حصہ عورت کی نفسیات پر مشتمل ہے ۔ لاجونتی جیسا افسانہ دنیا کی کسی زبان میں نہیں لکھا گیا ۔ لکھنا بیدی کیلئے عبادت کا درجہ رکھتا تھا ۔ تخلیق کار مرجاتا مگر اس کی تخلیق نہیں مرتی۔ بیدی ہمارے رول ماڈل ہیں۔

دوسرے دن 8 مئی 2016 ء کا پہلا اجلاس پروفیسر شافع قدوائی کی صدارت میں ہوا۔ ڈاکٹر مشتاق صدف نے پہلے دن ہی کی طرح کامیاب نظامت کرتے ہوئے تمام شرکائے سمینار کا تعارف کرایا ۔ مانو کہ ڈاکٹر فیروز عالم نے بیدی کے خطوط کے حوالے سے اپنا جامع مقالہ پیش کیا ۔ بیدی کے افسانوں اور ناولٹ پر تو عموماً گفتگو ہوتی ہی رہتی ہے ، مگر ان کے خطوط کی بنیاد پر انہیں سمجھنے اور سمجھانے میں فیروز عالم نے مدد کی ۔ ہمارا خیال ہے بعض مکتوب نگاروں نے اپنے قلم سے اپنی قبریں کھودی ہیں۔
ڈاکٹر مولا بخش نے بتیس (32) صفحات پر مشتمل کافی طویل مقالہ بیدی کے افسانے ’’لاجونتی‘‘ کی تعریف ، تفہیم ، تشریح و توضیح میں پیش کیا ۔ مقالہ اچھا تھا مگر طوالت کی وجہ سے اس کا تاثر متاثر ہوا۔
ڈاکٹر طارق چھتاری نے بھی لاجونتی ہی کو اپنا موضوع بنایا ۔ اس طرح ان کا مضمون مولا بخش کے طو یل مقالے کا ضمیمہ ہوکر رہ گیا۔
مشہور و معروف ناول نگار و افسانہ نویس رحمن عباس نے بڑی بیباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح شمس الرحمن فاروقی میرؔ کے اشعار میں وہ معنے بھی تلاش کرتے ہیں جو وہ ہو تے نہیں اسی طرح وارث علوی اور شمس ا لحق عثمانی بیدی کی ناولٹ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں بھی ایسی ہی کوششیں کرتے ہیں۔ اس ناولٹ پر بنی فلم دیکھنے سے پہلے ہی اچھا ہوا بیدی گزر گئے ورنہ انہیں دکھ ہوتا۔ رحمن عباس نے بیدی کے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ناولٹ ان کے اسلوب کا کمال ہی ہے ۔ بیدی نے کہا تھا کہ اس ناولٹ کے بیشتر کردار حقیقی ہیں۔

ساہتیہ اکیڈیمی کے ایک اور انعام یافتہ قلم کار شمیم طارق نے بیدی اور ترقی پسندی کے موضوع پر روشنی ڈالی ۔ بیدی نے ترقی پسندوں کے ہر فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا ۔ بیدی نے کہا کہ ہم تو بہتر سماج کیلئے ہی لکھتے ہیں ، اس طرح ہم شروع سے ترقی پسند ہیں۔ ہمیں اس تحریک نے نہیں بلکہ ہم نے اس تحریک کو فائدہ پہنچایا ۔ بیدی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ قلمکار افادیت اور مقصدیت کا اسی حد تک قائل رہے کہ وہ لوگوں کو مبلغ نہ دکھائی دے۔ بیدی نے کہا کہ پارٹی سے باہر رہ کر ہی ہم کھل کر لکھ سکتے ہیں۔ اس طرح ہم زیادہ ترقی پسند ہیں۔ شمیم طارق نے کہا کہ بیدی اور ترقی پسندی نے ایک دوسرے کے ادھورے پن کو دور کیا ۔ بیدی کے ڈرامے خواجہ سرا کا بھی شمیم طارق نے ذکر کیا کہ ایثار و وفا کا جذبہ دو طرفہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نظام صدیقی نے بھی بیدی کے فکر و فن پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ان کے مقالے کے ایک نکتے کی وضاحت میں رتن سنگھ نے تیسری بار مائک سنبھالتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں زمین کی بڑی اہمیت ہے اس لئے بیوہ پر دیور سے چادر ڈلوائی جاتی ہے تاکہ زمین باہر جانے نہ پائے۔
اس ا جلاس کے صدر ڈاکٹر خالد قادری نے فرمایا کہ منٹو نے بیدی کا خاکہ کیری کیچر پوسٹ ماسٹر کے عنوان سے لکھا تھا ۔ منٹو اور بیدی کو بھی کسی لیبل کی ضرورت نہیں۔ چٹخارے والی تنقید پرانی ہوگئی ۔ انہوں نے رحمن عباس کو مشورہ دیا کہ وہ سخت لہجے سے اجتناب کریں۔ حیدرآبادی بریانی سے تواضع کے بعد ساہتیہ اکیڈیمی کے زیر اہتمام منعقدہ اس سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر اشرف رفیع کے حصے میں آئی ۔ وسیم بیگم نے بیدی کی شخصیت اور ادبی خدمات پر بھرپور روشنی ڈالی ۔ اسی طرح ڈاکٹر حبیب نثار نے بیدی کی کہانی ’’رحمن کے جو تے‘‘ کا جائزہ پیش کیا۔
میڈیا سے وابستہ رہنے والے جناب فیاض رفعت نے بیدی کی ادبی و فلمی زندگی کا اجمالی جائزہ پیش کیا ۔ بیدی کی نظر پرانوں ، بائبل کے ساتھ ساتھ الف لیلیٰ کی داستانوں پر بھی تھی ۔ فالج کے حم لے کے بعد بیدی نے کہا تھا کہ ذہن میں کئی خیال آتے ہیں مگر میں انہیں قلم بند کر نے سے معذور ہوں ۔ بیدی کے اچھے دور کا ایک واقعہ بھی فیاض صاحب نے سنایا کہ ایک غریب آدمی بیدی کے پاس آیا ، اس نے کہا مجھے پیسے نہیں چاہئیں بس اسے وہ دوائیں دلادی جائیں جو ڈاکٹر نے اس نسخے میں تجویز کی ہیں۔ بیدی اسے اپنی کار میں بٹھاکر لے گئے اور اس کی مطلوبہ دوائیں دلادیں۔ اس کے جانے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ بیدی کے باپ کی اسی مرض سے وفات ہوئی تھی جس مرض کی دوائیں اس غریب آدمی کو بیدی نے دلائیں۔ انہوں نے کہا کہ ریحانہ سلطان ایک شائستہ اور بردبار ایکٹریس تھیں ۔ بیدی اس کی قدر کرتے تھے ۔
صدارتی کلمات میں اشرف رفیع صاحبہ نے بیدی کے اسلوب کی داد دی کہ وہ سوچنے والا ذہن رکھتے تھے۔ بیدی کے افسانوں کی عورت وفا کی پتلی ہے ، وہ ایک چیچک رو کالے مرد کو برداشت کرلیتی ہے مگر مرد کبھی عورت کی لمبی ناک برداشت نہیں کرپاتا ۔ اس اجلاس میں چندر بھان خیال نے بھی ساہتیہ اکیڈیمی کی ادبی خدمات اور وہاں کام کرنے والوں کی لگن کا ذکر کیا ۔ حیدرآباد کی شعر و ادب سے گہری وابستگی کے پیش نظر یہ سمینار یہاں منعقد کیا گیا جس کے تمام اجلاس میں ارباب ذوق کی کثیر تعداد نے حصہ لیا ۔ سامعین میں حیدرآباد کے ادیبوں ، شاعروں کی قابل لحاظ تعداد شریک تھی۔