ساکشی مہاراج اور یوگی آدتیہ ناتھ کا زہر بے اثر

غضنفر علی خان
ہندوتوا کے پرجوش حامی اور اس نظریہ کو ہندوستان میں عملاً نافذ کرنے کی کوشش کرنے والے دونوں بی جے پی لیڈروں نے ملک کے مسلمانوں کے تعلق سے زہر افشانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کسی سکیولر پارٹی یا خود مسلم تنظیموں نے ان کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے کے جرم میں کوئی قانونی کارروائی کی اور نہ حکومت نے کوئی قدم اٹھایا۔ ان میں سے ایک یوگی آدتیہ ناتھ ہیں اور دوسرے ساکشی مہاراج ہیں۔ یہی بات اگر کسی اور نے خاص طور پر مسلم لیڈر یا مسلم جماعت نے کہی ہوتی تو سارے میڈیا نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہوتا، ٹی وی چیانلس پر متعدد مباحث ہوتے، وزارت داخلہ نے سخت قدم اٹھائے ہوتے۔ لیکن بات کیوں کہ مسلمانوں سے متعلق تھی اس لئے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسی سمت سے صدائے احتجاج بھی نہیں اٹھی اگر کچھ ہوا تو بعض سکیولر پارٹی کے لیڈروں نے ان دونوں پر تنقیدیں کیں۔ برا بھلا بھی کہا۔ خاص طور پر کانگریس پارٹی کے ترجمانوں نے اس سلسلہ میں تھوڑا بہت کہا، لیکن ان دونوں کی جانب سے لگائے ہوئے سنگین الزامات کی پرزور تردید کہیں سے نہیں ہوئی۔ ساکشی مہاراج نے کہا کہ ’’دینی مدارس میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے‘‘ اگر جھوٹ بولنے اور غلط بیانی کا کوئی عالمی انعام ہوتا تو ان ہی ساکشی مہاراج کو ملنا چاہئے۔

انہیں نہ تو دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ ان مدرسوں میں تربیت پانے والے افراد کے بارے میں کوئی علم ہے۔ ان دینی مدارس کے معزز اساتذہ نے ملک کی تحریک آزادی میں کیا مثبت رول ادا کیا تھا مہاراج کو نہیں معلوم اور نہ کبھی انہوں نے معلوم کرنے کی کوئی کوشش کی۔ دینی مدرسے اسلام کے قلعے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان قلعوں سے کسی اور عقیدہ یا مذہب کے خلاف فن حرب کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان معنوں میں کہ ان مدارس میں اسلامی فکر کے ان گوشوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے جو دین کی فکر کے حصاروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ فکری تعلیم ہے۔ یہاں نفرت نہیں بلکہ نوع انسانیت سے محبت کرنا اور ’’احترام آدم‘‘ کا درس دیا جاتا ہے۔ حضور والامرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ’’عالم کے قلم کی سیاہی کسی شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔ دین پر مختلف سمتوں سے جو حملے کئے جاتے ہیں اس کی اصل شکل کو مسخ کرنے کی جو مساعی کی جاتی ہیں ان کے خلاف فکر کی جنگ کرنے کے لئے یہ ہمارے قلعے ہیں۔ تحریک آزادی کے دور میں دینی مدرسوں کے اساتذہ نے تختۂ دار پر چڑھ جانا گوارا کیا لیکن وطن عزیز کو برطانوی راج سے آزاد کراکر اپنے خون سے آزادی کی تحریک کی ایک ایسی داستان لکھی، جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے لئے ساکشی مہاراج جیسے شخص کو پہلے تحریک آزادی کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے اور تاریخ پڑھنے سے پہلے تعصب و تنگ نظری کی عینک نکال پھینکنے کی بھی ضرورت ہے۔

تحریک آزادی اور دینی مدارس کے رول پر لٹریچر موجود ہے۔ لیکن شاید آج اس بات کی ضرورت زیادہ ہے کہ اس تاریخ کو ازسرنو مرتب کیا جائے تاکہ ساکشی مہاراج جیسے بیمار ذہنوں کو فکر صحیح مل سکے اس کام کو دینی مدارس بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ البتہ اس نوعیت کے تاریخی دستاویز اگرہندی زبان میں ہوں تو زیادہ بہتر ہے کیوں ’’مہاراج‘‘ جیسے لوگ زبان اردو سے بھی اتنے ہی متنفر ہیں جتنے مسلمانوں اور دینی مدارس کے تعلق سے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ زبان اردو میں تو تاریخ آزادی کا لٹریچر پہلے ہی سے موجود ہے۔ آمدم برسر مطلب یہ کہ ایسی زبان میں تحریک آزادی اور ہمارے دینی مدارس کے بارے میں ساکشی مہاراج جیسے ذہنی مریضوں کو کچھ پڑھنے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع مل سکے۔ برادران وطن کے عام افراد کے لئے ایسی تاریخ انگریزی میں مرتب کی جاسکتی ہے۔ اردو تو مالا مال ہے ہی جس پر ہم یقینا فخر کرسکتے ہیں۔ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو بیمار اور بدعلم گمراہ ذہنوں کا علاج ہوسکتا ہے۔ ایسے عناصر کو یہ بتانا ضروری ہے کہ تحریک آزادی میں مولانا عبید اللہ سندھی نے کیا رول ادا کیا تھا۔ ریشمی رومال کی تحریک کیا تھی۔ کیسے مجاہدین آزادی مونگیر کی مشہور دینی درسگاہ میں رہتے ہوئے انگریزوں کے خلاف کام کیا کرتے تھے۔ ان درسگاہوں میں شہرہ آفاق دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، سہارن پور کے مدارس سبھی شامل ہیں۔ یہاں کے اساتذہ اور طلباء نے کس جانبازی سے ملک کو آزاد کرانے جانیں قربان کی تھیں۔ ساکشی مہاراج خدارا کچھ تو تاریخ پڑھئے۔ کبھی توحقیقت پسندی اور علم دوستی کا ثبوت دیجئے۔

ان مدارس نے کبھی ملک سے بغاوت نہیں کی کبھی کوئی سازش نہیں رچی، بلکہ مجاہدین آزادی یہیں سے جوق در جوق اٹھے اور انگریزی راج کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ایک ساکشی مہاراج ہی کی کیا بات ہے ہندوتوا کا تو سارا نظام ہی نرالا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے ہم خیالوں نے ایک اتنا بڑا جھوٹ کہا کہ خود بی جے پی کے دیگر لیڈروں نے ان کے بارے میں چپ سادھ لی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ ’’مسلم نوجوان جہاد کے جذبہ سے ہندو لڑکیوں کو ورغلاکر مسلمان کرتے ہیں اور اس کے بعد شادی کرلیتے ہیں۔ اس بے ہودہ خیال کو انہوں نے محبت کی خاطر ’’Love-Jihad ‘‘ کا نام بھی دے دیا۔ کچھ دن تک تو میڈیا نے اس قسم کے لغو خیال کی خوب تشہیر کی لیکن بہت جلد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ’’لوجہاد‘‘ کا خود ہی بھانڈا پھوڑ دیا کہ یہ ایک پر فریب خیال ہے، ایک تصوراتی بات ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ الکٹرانک میڈیا میں بعض چینلس نے تو اس کو محض طلسم یا Myth قرار دیا اور یوگی آدتیہ ناتھ کو غلط قرار دیا۔ یوگی نے اس غلط پروپگنڈہ میں انتہائی اشتعال انگیز اور دل آزار باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم (یعنی ہندو) ایک ہندو لڑکی کے بدلے 100 مسلم لڑکیوں کو ہندو بنائیں گے۔ ’’یہ بات انہوں نے صرف ایک مرتبہ نہیں کہی بلکہ بار بار دہراتے رہے۔ سچائی کچھ نہ تھی کیوں کہ مغربی اترپردیش کے مسلم نوجوانوں کے تعلق سے یوگی آدتیہ ناتھ جو کچھ کہہ رہے تھے وہاں مسلمانوں کی حالت اتنی خستہ ہے کہ وہ اپنی روٹی روزگار کے لئے ہی پریشان ہیں۔ محبت، عشق جیسے لطیف جذبات تو خوشحالی، تونگری کے دور میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ایک ہندو لڑکی کے بدلے ہم کئی مسلم لڑکیوں کو ہندو بنائیں گے یا ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں سے کرائیں گے انتہائی لغو بکواس ہے۔ انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ یہ لڑکیاں اس ملک کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی عزت و ناموس کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے۔ انہیں ’’جنس ارزاں‘‘ سمجھ کر کسی نیلام گھر تک پہنچادینا کسی غیرت مند ہندوستانی باشندے کو زیب نہیں دیتا۔ ہندو ہو یا مسلمان ہیں تو اس دیش کی بیٹیاں ہی۔ ان کی انا، ان کی عزت کے بارے میں سوچے بغیر انہیں زبردستی ہندو یا مسلمان بنانے کی بات آخر آدتیہ ناتھ کو کیسے سوجھی۔ کیا ایک لمحہ کے لئے انہوں نے نہیں سوچا کہ وہ ایسی بات کہہ کر ملک و قوم کی کتنی دل آزاری کررہے ہیں۔ لوجہاد جیسے واہیات خیال یوگیوں کے ذہن میں تو آنے ہی نہیں چاہئے۔ ان دونوں کے علاوہ موجودہ مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے بھی ایک نیا راگ چھیڑدیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑے گوشت (گائے کا گوشت) کی تجارت سے کروڑہا روپئے کا فائدہ ہورہا ہے اور ساری رقم دہشت پسندانہ سرگرمیوں پر خرچ کی جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کیسے ان خاتون کو اب ہی اس تجارت کا علم ہوا اور کیسے پتہ چلا کہ تجارت سے ہونے والے فائدے کو دہشت گردانہ سرگرمیوں پر خرچ کیا جارہا ہے۔ یہ تجارت آج سے نہیں برسوں سے کی جارہی ہے۔ لیکن دہشت گردی تو موجودہ دور کی پیداوار ہے۔ تو کیا مینکا گاندھی یہ بتاسکتی ہیں کہ آج سے پہلے تجارت کا یہ فائدہ کس کام پر خرچ کیا جاتا تھا۔ ایک ذمہ دار وزیر اور خاندانی سیاسی پس منظر رکھنے والی خاتون وزیر کے منہ سے ایسی بات نکلی کیسے۔ خود انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ گوشت فروخت کرنے والے اور خریدنے والے دونوں گروہ اس میں ملوث ہیں۔ کم از کم دونوں گروہوں کی وہ نشاندہی کردیتیں تو اچھا ہوتا۔ بات کو مبہم رکھ کر تو انہوں نے اپنے غلط بیان کے بارے میں اور بھی تجسس کو بڑھادیا۔ یہ تجارت دونوں فریقوں میں ہوتی ہے تو پھر دونوں کی جانب سے اس سے ہونے والے فائدے کو ہر فریق دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتا ہوگا۔ کیا مینکا گاندھی یہ تسلیم کریں گی کہ زعفرانی دہشت گردی بھی اسی گوشت کی تجارت کے منافع سے ہورہی ہے؟ اور ایسا وہ مانتی ہیں تو ان کے سیاسی کیریئر پر اثر پڑسکتا ہے۔ یہ تمام باتیں دراصل اکثریتی طبقہ کے ووٹوں کو ایک طرف کرنے کے لئے کی جارہی ہیں اور وزیراعظم مودی ان تمام باتوں کو دوسروں کے منہ سے سن کر ’’من ہی من‘‘ میں خوش ہورہے ہیں اگر انہیں خوشی نہیں ہوتی ہے اور وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کے ایسے بیانات سے اتفاق نہیں ہوتا تو وہ ان سے اختلاف کرتے۔ لیکن کسی بھی موقع پر وزیراعظم نے ساکشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ، یا اس سے پہلے وشواہندوپریشد کے لیڈر اشوک سنگھل، توگاڑیہ کے بیانات کی تردید کیوں نہیں کی؟ یہ مخالف مسلم ذہن بنانے اور دونوں کو اپنی طرف کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ ابھی جو 32 سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ان کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ اترپردیش، راجستھان کی ریاستوں کے ووٹر جنہوںنے 4ماہ پہلے ٹوٹ کر بی جے پی کو ووٹ دیا تھا وہ صرف چار ماہ کے اندر بی جے پی سے اتنے بیزار ہوگئے کہ چنائو میں نہ تو بی جے پی کامیاب ہوسکی اور نہ وزیراعظم مودی کا جادو ہی کام آیا۔ نفرت کا زہر ساکشی مہاراج، یوگی ادتیہ ناتھ نے اُگلا ضرور تھا لیکن عوام نے اس زہر کو پینے سے انکار کردیا۔