سعید حسین
پیغام ربانی : ’’ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگ تو اس قابل ہیں کہ ان میں قدم ہی نہ رکھیں اور ان میں داخل بھی ہوں تو ڈرتے ہوئے، ان کے لئے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذابِ عظیم۔ ‘‘ (سورۃ البقرہ : 114) ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔‘‘ (سورۃ الحج :78)
مسلمانان ہند کو تقسیم ہند 1947ء کے بعد جس بڑے سانحہ سے گذرنا پڑا وہ سانحہ شہید بابری مسجد ہے۔ جس کی شہادت فرقہ پرستوںکے ہاتھوں 6؍دسمبر 1992ء کو ہوئی۔’’بابری مسجد کی شہادت سے ہندتوا کا کریہہ اور شرمناک چہرہ ظاہر ہوتا ہے۔ جو انسانیت کی تذلیل کو بھی اپنے دھرم کا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔‘‘
’’رام کے بارے میں ہم نے اپنے اجداد سے سنا ہے پڑھا نہیں ہے۔ میرے پاس جو کچھ رام کے بارے میں ہے وہ سب سنا ہوا ہے۔‘‘ مہنت بھاسکر داس (نرموہی اکھاڑہ)
بابری مسجد کا انہدام نرسمہا راؤ کی مہلک سیاسی غلطی:
کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے کہا کہ بابری مسجد کے وجود کو لاحق سنگین خطرات میں اضافہ کا ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود اس (بابری مسجد) کو مرکز کے کنٹرول میں نہ لینا نرسمہا راؤ حکومت کی ایک مہلک سیاسی غلطی تھی۔ سابق وزیر فینانس نے کہا کہ وہ اس کو محض غلطی سمجھ کر نظر انداز نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ (بابری مسجد کی انہدامی) کے بعد وزیراعظم نرسمہا راؤ پارٹی میں اپنے رفقاء اور قائدین کے اعتماد سے محروم ہوگئے تھے۔ ’’ٹاٹا اد بی فیسٹیول‘‘ میں ’’نرسمہا راؤ: ایک فراموش کردہ ہیرو‘‘ کے زیر عنوان پیانل مذاکرہ میں حصہ لیتے ہوئے چدمبرم نے مزید کہا کہ ’’متعدد افراد نے نرسمہا راؤ کو خبردار کیا تھا کہ یہ مسجد خطرہ میں ہے۔ (اس وقت) ہماری حکومت نے یہ بیان بھی جاری کیا تھاکہ کسی بھی حالت میں مسجد کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر ضروری ہو تو ہم وہاں نیم فوجی دستے اور فوج تعینات کریں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کو خطرہ محض اچانک پیدا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی یہ کار سیوکوں کے وقتیہ اقدام سے تھا۔ چدمبرم نے کہا کہ ’’رامیشورم جیسے دور دراز کے علاقوں سے پتھر لائے جارہے تھے اور وہ (کارسیوک) ٹرینوں میں سفر کررہے تھے۔ پوری ایک ٹرین بک کروائی جارہی تھی۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ (ایودھیاء میں) لاکھوں افراد جمع ہوں گے۔ تو بابری مسجد کو خطرہ لاحق ہوگا۔ یہ خطرہ 1987-88ء سے ہی پیدا ہوگیا تھا‘‘۔ چدمبرم نے کہا کہ نرسمہا راؤ کو چاہئے تھا کہ وہ فوج اور نیم فوجی دستوں کو متحرک کرتے اور انہیں یہ پوری طرح واضح کردینا چاہئے تھا کہ بابری مسجد دراصل مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔‘‘ چدمبرم نے کہا کہ ’’(ایودھیاء میں) نیم فوجی دستوں کو تعینات کرنے میں ناکامی اور اس علاقہ کو مرکز کے کنٹرول میں نہ لینا ایک ہلاکت خیز سیاسی غلطی تھی جس کے ملک پر بدترین و تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔‘‘ چدمبرم نے کہا کہ ’’(بابری مسجد کو لاحق سنگین خطرہ کے) ثبوت میں روز بہ روز اضافہ ہورہا تھا۔ ہم سب جانتے تھے کہ کارسیوکوں کو وداع کرنے کے لئے پروگرام منعقد ہورہے ہیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ کہہ سکتا تھا کہ اس مسجد کو سنگین خطرہ ہے۔ اس کے پاس کلہاڑیوں اور ہتھوڑے کہا ںسے آئے تھے؟‘‘ ممبئی 21؍نومبر 2016(سیاست ڈاٹ کام) 21-11-16 سیاست (روزنامہ)
ہمارے ملک کے دستور میں ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا گیا ہے اور سیکولرزم کی تعریف میں ہمارے قانون داں اور دانشور جس مفہوم کو بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے، اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ملک میں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور مذہب کی تبلیغ و اشاعت کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک میں سینکڑوں مساجد ایسی ہیں جن میں مکمل طور پر مسلمانوں کو عبادت کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے جواز میں یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ مساجد تاریخی ہیں، لہٰذا ان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چونکہ یہاں موضوع بحث سیکولرزم نہیں ہے، لہٰذا فی الحال اس سے گریز کرتے ہوئے اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں تاریخ کے نام پر جن مساجد کو حکومت اپنی تحویل میں رکھتی ہے، اسی ملک میں تاریخ کا یہ افسوسناک اور المناک سانحہ بھی وقوع پذیر ہوا کہ ایودھیاء میں 6؍دسمبر1992ء کو 1528ء کی تعمیر شدہ بابری مسجد کو ہندو احیاء پرست دہشت پسندوں کے ہاتھوں سیکوریٹی فورسیز اور انتظامیہ کی نگرانی میں اس طرح شہید کردیا گیا کہ اب وہاں مسجد کی زمین کے علاوہ مسجد کی عمارت کا نشان تک نہیں پایا جاتا اور بڑی دیدہ دلیری سے اس جگہ پر رام کے بت کو نصب کردیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت بابری مسجد کو شہید کیا جارہا تھا اس وقت کیا کچھ دیر کے لئے دستور سے سیکولرزم کی شق کو خارج کردیا گیا تھا۔ یقینی طور پر ایسا نہیں تھا بلکہ ملک میں ہندوتوا کی دہشت گردی کی آگ کو ہوا دینے والی تحریک اور تنظیموں نے اس جرم کا ارتکاب کیا۔ جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا، اترپردیش میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور وہاں کے وزیراعلیٰ آر ایس ایس کی اہم شخصیت کلیان سنگھ تھے۔ البتہ مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اور اس وقت وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ تھے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ساری دنیا میں شدید احتجاج کیا گیا اور ہمارے ملک پر ہر طرف سے تھو تھو کی بوچھار کی گئی۔ کچھ دیر کے لئے پارلیمنٹ میں مسلم ممبران کے احتجاج پر ہنگامہ ضرور ہوا لیکن رفتہ رفتہ بابری مسجد کی شہادت کو فراموش کردیا گیا۔ مسلم ممبران پارلیمنٹ کا احتجاج برائے نام تھا حتیٰ کہ کسی نے یہ بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ احتجاج میں اپنا استعفیٰ ہی پیش کردیں۔ دوسری طرف زمینی سطح پر ہندوتوا وادی تنظیموں نے ’’رام مندر‘‘ کی تعمیر کی تحریک شروع کردی۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ اب تک ہزاروں مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور اربوں کھربوں کی املاک تباہ ہوچکی ہے۔ گجرات فساد نے تو مسلمانوں کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ فی الوقت ملک میں مسلمان جن نازک حالات سے گزررہے ہیں اس کا اندازہ کم و بیش سبھی کو ہے۔ لیکن اس المیہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ملک میں ’’قیادت‘‘ کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے اور مسلمانوں کی صورتحال بھیڑ بکری اور بھیڑ کے اس ریوڑ کی طرح ہے کہ جب چاہے بھیڑ یا اس کا شکار کرلے۔
رام مندر کی تحریک اپنے شباب پر پہنچ چکی ہے اور منافقین کا اس تحریک کو بھرپور تعاون حاصل ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ مسجد کی کمیٹیاں مسلم مجلس مشاورت کے رہنما اپنی حد تک احتجاجی داؤ پیچ سے کام لے رہے ہیں۔لیکن دوسری طرف مرلی منوہر جوشی اور ایل کے اڈوانی جیسے بی جے پی کے لیڈروں نے کارسیوکوں کو ورغلانے میں زور و شور سے حمایت کی۔
ان لیڈروں کے دورخے پن سے اندازہ ہوچلا تھا کہ ایودھیاء میں کیا ہوگا؟ یعنی کارسیوا کی آڑ میں رام مندر کی تعمیر نہیں بلکہ غنڈہ گردی ہوگی اور وہ بھی انتہائی بدترین قسم کی۔ یوپی کی حکومت نے ایودھیاء جانے والے کانگریسیوں کو روکنے کے لئے تو دفعہ 144 لگا دی تھی مگر اپنی پارٹی کے کارکنوں کے لئے جو کارسیوا کرنے جارہے تھے۔ کوئی مزاحمت نہیں پیدا کی تھی۔ حالاں کہ وہ لوگ ایک جم غفیر کی شکل میں اور مہلک ہتھیاروں سے لیس وہاں جمع ہورہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت کا کارسیوکوں اور دوسرے شہریوں کے لئے کیا الگ الگ قانون تھا؟ اس کے بعد کلیان سنگھ کی گورنمنٹ کو برطرف کرکے بہت صحیح کام کیا گیا اور جو کوئی یہ کہتا ہے کہ بابری مسجد میں تو 1949ء سے نماز نہیں ہورہی تھی اور وہاں مورتیاں رکھی ہوئی تھیں تو اسے یہ جان لینا چاہئے کہ اگر وہ مندر تھا تو مندر ہی کو توڑنا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کیا کم گناہ ہے؟ غرض یہ کہ جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے یہ واقعہ غنڈہ گردی کی مثال تھا۔(بلٹز، دسمبر 1992، ممبئی)
کوئی پارٹی سربراہ، اڈوانی کو بری کئے جانے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے بھی روادار نہیں تھے کیونکہ وہ بی جے پی کی خاموش حمایت سے برسر اقتدار آئے ہیں اور ان کو صرف اپنا اقتدار عزیز ہے۔ 13دنوں کی حکومت کے بعد اٹل بہاری واجپائی مستعفی ہوئے تھے تو صرف ملائم سنگھ کی وجہ سے متبادل حکومت نہ بن سکی تھی۔ اس طرح ملائم سنگھ یادو نے اپنی نادانی کی وجہ سے بی جے پی کی دانستہ یا نادانستہ مدد کی۔ عبوری انتخابات ہوئے تو بی جے پی جے پی کو پہلے سے زیادہ نشستیں ملیں اور واجپائی نے 24 پارٹیوں کے اشتراک سے مخلوط حکومت بنالی۔
ملائم سنگھ یادو سیکو لرزم کے نادان دوست ہیں اور نادان دوست، دانا دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ملائم سنگھ یادو کے مشیر امرسنگھ تھے،جن کو اپنے پیسے کا بہت گھمنڈ تھااور وہ سمجھتے تھے کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جاسکتی ہے۔ اترپردیش میں ممبران اسمبلی کو بھیڑ بکریوں کی مانند جس طرح خریدا گیا، اس میں امرسنگھ کی دولت کا ہاتھ تھا۔ امر سنگھ چاہتے ہیں کہ وہ ملائم سنگھ کو استعمال کرکے پورے ملک کو یرغمال بنالیں تاکہ یہ وسیع و عریض ملک ان کی زرخیز منڈی بن جائے۔
بابری مسجد انہدام مقدمے سے لال کرشن اڈوانی کے باعزت بری ہونے پر سب سے زیادہ غم و غصہ کا اظہار مغربی بنگال کے سب سے بڑے رہنما جیوتی باسو نے کیا تھا، جیوتی باسو نے کہا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ فساد کی جڑ لال کرشن اڈوانی ہیں۔ انہوں نے ہی رتھ یاترا نکالی تھی اور اس یاترا کے دوران پورے ملک میں خون کی ندی بہی تھی۔ مغربی بنگال کے ضلع پرولیا کے چاکدا میں بھی اڈوانی کی رتھ یاترا آئی تھی اور وہاں کے مسلمانوں کو خون میں نہلا گئی تھی۔ اس وقت جیوتی باسو مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ تھے۔ جیوتی باسو، لال کرشن اڈوانی کا نام سنتے ہی اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ ’’سے تو کریمنل‘‘ (وہ تو جرائم پیشہ ہے)۔ جیوتی باسو بہت پرانے کمیونسٹ ہیں۔ ان کو فرقہ پرستی سے سخت نفرت ہے۔( وزیراعظم کی حیثیت سے نرسمہا راؤ مغربی بنگال کے دورے پر آئے تو پروٹوکول کی مجبوری سے وزیراعلیٰ جیوبی باسو ان کا خیرمقدم کرنے کے لئے دمدم ہوائی اڈے گئے۔ ان سے ہاتھ ملایا مگر موذی نرسمہا راؤ نے جیوتی باسو سے معانقہ کرنا چاہا تو جیوتی باسو تیزی سے پیچھے ہٹ گئے اور نرسمہا راؤ سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کردیا۔) اس منظر کو ہزاروں لوگوں نے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ جیوتی باسو نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ بابری مسجد انہدام سازش کا سرغنہ لال کرشن اڈوانی ہے اور سرغنہ ہی عدالت سے بری ہوگیا۔ ہم جیوتی باسو کی اس 100%صداقت کی تائید کرتے ہیں (مگر اس میں اتنا اضافہ اور ترمیم کرتے ہیں کہ بابری مسجد انہدام کا اصل مجرم موذی نرسمہا راؤ ہے) اسی نے سب کچھ کیا اور کرایا۔ دن کو 1 بجے چندر شیکھر نے بنارس سے نرسمہا راؤ کو ٹیلی فون کیا تھا کہ بابری مسجد کا ایک گنبد گرگیا ہے، باقی دو گنبد تو بچالیں مگر نرسمہا راؤ ٹس سے مس نہیں ہوا اور اپنے ساتھ کانگریس کو بھی لے ڈوبا اور اس کا نتیجہ ہے کہ کانگریس کی کشتی ابھی تک ہچکولے کھارہی ہے۔
عدالت کے فیصلے مثل کی روئیداد پر کئے جاتے ہیں نہ کہ حقائق پر۔ عدالتیں ، فیصلہ تفتیشی ایجنسیوں کی داخل کردہ رپورٹوں کی بنیاد پر کرتی ہیں، اس لئے موجودہ ہندوستان میں عدالتیں انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔ شرد پوار نے ہی 18؍نومبر1992ء کو مسلم دشمن فرقہ پرستوں کی میٹنگ میں وزیردفاع کی حیثیت سے نرسمہا راؤ کی سرپرستی میں بابری مسجد کے انہدام کا ناپاک منصوبہ بنایا تھا۔ اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی وغیرہ تو دوسرے درجے کے مجرم ہیں، اصل اور اول مجرم نرسمہا راؤ، شردپوار اور ایس بی چوہان ہیں۔ (ہفت روزہ نئی صدی، کولکاتہ، شمارہ 2؍اکتوبر 2003)