سانحہ اور مصالحت

کلدیپ نیر
پشاور اسکول کے بچوں کے قتل پر ہندوستان اور پاکستان نے یکساں طور پر درد وغم اور افسوس کااظہار کیا ۔ وزیراعظم ہند نریندر مودی نے ہندوستان کے تمام اسکولوں کے بچوں کو پشاور اسکول کے بچوں کے مارے جانے پر دو منٹ کی خاموشی منانے کے احکامات صادر کئے ۔ انھوں نے نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا اور ان معصوم بچوں کے مارے جانے پر اظہار تعزیت کیا ۔ اس طرح کی ہمدردی اور یگانگت ، سرحد کے تعلق سے بھی ہونی چاہئے ۔ یہ واقعی حقیقت ہے کہ انسانی دکھ درد سرحدوں کو نہیں مانتے ۔ چاہے انسان کہیں کا ہو جب اس پر ظلم ہوتاہے تو پوری دنیا بے چین ہوجاتی ہے ۔ اسے اپنا درد معلوم ہوتا ہے ۔ میں اس بات کی توقع کرتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان اسی طرح کے ماحول بنے رہیں اور دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہوتے رہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی سول سوسائٹی دونوں ممالک کے نوجوانوں میں جو آپسی رقابت کی فضا پیدا ہوگئی ہے ، اس کے بارے میں کوئی خاص توجہ نہیں دیتی ہے ۔ اس میں بنگلہ دیش کے نوجوان بھی شامل ہیں ۔ واضح ہو کہ برصغیر میں اس ملک کے دوسرے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات ہیں ۔ لیکن یہ اپنے ملک میں ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑے رہتے ہیں اور ان میں آپسی رقابت پائی جاتی ہے ۔

پاکستان اکثر و بیشتر یہ کہتا ہے کہ ایک بار اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو دونوں ممالک نہایت دوستانہ انداز میں رہنے لگیں گے ۔ یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ ثقافتی پروگرامس بھی اسی طرح کی فکر اور نظریات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ پاکستان کے قوال دہلی کے پریس کلب میں اپنا پروگرام پیش نہیں کرسکے ۔ حالانکہ اس معاملے پر تو کم از کم ہمیں لبرل ہونا چاہئے ۔ دوسری جانب ہاکی میچ میں ہندوستان کی شکست پر پاکستانی ہاکی کھلاڑیوں نے جس طرح کی شرمناک حرکتیں کیں ، وہ بھی قابل مذمت ہیں ۔ کیا یہ دونوں جانب ایک ہی طرح کے نظریات نہیں پائے جاتے ہیں ، جس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ کا لوک سبھا اسپیکر سے ملاقات کا موقع فراہم نہیں کیا جانا بھی افسوس کی بات ہے ۔ دوسری طرف ہندوستانی ارکان پارلیمنٹ کی بھی یہ غلطی کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اسپیکر کے پاس ملنے کا وقت ہے کہ نہیں ۔ یا اگر وہ ملنا چاہیں تو کب ملاقات ممکن ہوسکتی ہے ۔ ہندوستانی ارکان پارلیمنٹ کو کسی دوسرے طریقے سے بھی ان کی دلجوئی کرنی چاہئے تھی ، ان کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ، لیکن وہ یہ بھی نہ کرسکے ، یعنی وہ اس بات کی بھی کوشش نہ کرسکے کہ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ کی عزت افزائی کے لئے کوئی متبادل تدبیر سوچ سکیں اور اس طرح پاکستانی ارکان پارلیمنٹ ہندوستان سے تلخ یادیں لے کر گئے ۔ اس طرح کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تقسیم کے 70 برسوں کے بعد بھی دونوں ممالک ابھی تک خیر سگالی کے جذبہ کا اظہار نہیں کرتے جو دوستی سے کہیں کم درجے کی چیز ہے ۔ دونوں ممالک میں اس طرح کی ذہنیت ایک دوسرے کے تئیں آج بھی پائی جاتی ہے ۔ ایسے واقعات اور موجودہ حالات دونوں ممالک کی دوستی کے لئے سازگار کبھی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کے دور کا خواب دیکھا جاسکتا ہے ۔ اب جبکہ ہندوستان میں ہندو شناخت کی بات کی جانے لگی ہے اور اسے ایک ہندو ملک بنانے کی وکالت ہونے لگی ہے ، تو ایسے ماحول میں دونوں ممالک کے قریب آنے کے امکانات مزید موہوم ہوتے جارہے ہیں ۔

کل تک سنسکرت ہندو اسکرپچر (شاسترا) کی زبان تھی ، آج تبدیلیٔ مذہب کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ چند مسلمانوں کی جبری تبدیلیٔ مذہب نے دنیا کی نظروں میں ہندوستان کی شبیہ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ خاص طور پر پاکستان کی نظر میں ہندوستان کی امیج مزید خراب ہوئی ہے ۔ جب ان غریب مسلمانوں کے مذہب کو جبری تبدیل کیا گیا تو انھیں اس بات کی لالچ دی گئی کہ انھیں راشن کارڈ فراہم کیا جائے گا یا بی پی ایل کارڈ دیا جائے گا جس کی بنا پر غریبوں کو کم سے کم قیمت پر اشیائے ضروریہ حاصل ہوں گی ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوتوا سے تعلق رکھنے والوں کی ذہنیت کس قدر پراگندہ ہوچکی ہے ۔ کوئی بھی شخص بآسانی اس حقیقت کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ کس قدر گھٹیا مذاق ہے ۔
پاکستان میں جو شدت پسندی پھیلتی جارہی ہے اس پر مجھے کوئی خاص تعجب نہیں ہوتا ہے ، جہاں پر لبرل پنجاب کے گورنر کوقتل کردیا جاتا ہے اور قاتلوں کے حلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجاتا ۔ جہاں اس طرح کے مضحکہ حیز قوانین موجود ہوں ،تو اس طرح کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ نہایت افسوسناک ہے ، لیکن وہاں جب لبرل آوازیں بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں تو ایسے حالات میں انتہا پسندوں کی ہمت بڑھنے کی توقع تو کی ہی جاسکتی ہے ۔ وہاں کے حالات ہی اس قدر بگڑچکے ہیں کہ انتہا پسندی کو فروغ پانے کا موقع مل رہا ہے ۔
لیکن جو سب سے زیادہ تشویش اور افسوس کی بات ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں کیا ہورہا ہے ؟ یہ ملک جو جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے ، جہاں کثرت میں وحدت کی بات کی جاتی ہے ۔ سیکولرازم کا نعرہ لگایا جاتا ہے ، اور جس کے باعث اس ملک کو پوری دنیا میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ نئی دہلی ہندوتوا کو بڑھاوا دینے کا مرکز بن چکا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا کو مایوسی ہورہی ہے ۔ حکومت ہند جو ترقی اور مساوات کی بات کرتی ہے ، اب وہی فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے لگی ہے ،تو ایسے حالات میں اس سیکولر ملک کی شبیہ پر سوالیہ نشان قائم ہونے لگے ہیں ۔ پوری دنیا میں اس کی تصویر خراب طور پر پیش کی جارہی ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری نہیں کی جارہی ہے ۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھنے لگا ہے ۔راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ نے کسی بھی گمبھیر چیلنج کے بغیر یہ بات کہہ ڈالی کہ ہندوستان میں 800 برسوں کے بعد ہندو راج لوٹ کر آیا ہے ۔ ان کی اس بات سے ہمارے سیکولر ملک پر سوالیہ نشان قائم ہوچکا ہے ۔مجھے اس بات پر قطعی تعجب نہیں ہے کہ بی جے پی نے صرف دہلی میں ہی چارلاکھ افراد کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کا سرٹیفیکٹ فراہم کیا ہے ۔ کانگریس کے رویے پر بھی مجھے افسوس ہے کہ وہ اپنا سیکولر کردار پوری طرح سے پیش نہیں کرپارہی ہے ۔

ہندوستانی سیاست شخصیات پر مرکوز ہوکر رہی ہے ۔ آج نریندر مودی کی شخصیت پر بی جے پی کی سیاست کا دار و مدار ہے ۔ لیکن وہ جس مقصد کے تحت ہندوستان کے وزیراعظم بنائے گئے وہ اس کی تکمیل میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں ۔ ڈیولپمنٹ تو دور کی بات ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس کا ڈائرکشن غلط سمت اختیار کرچکا ہے ۔ ہندوستان کو اس وقت صرف ترقی کی ضرورت ہے لیکن یہاں کی سیاست نے جو رخ اختیار کرلیا ہے ، اس سے صرف فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہورہا ہے ، ترقی کا پروگرام کافی پیچھے چھوٹ چکا ہے ۔ برسراقتدار پارٹی چاہے مرکز میں تبدیلی لاسکتی ہے لیکن ہمارے سیاسی کلچر کو وہ نہیں بدل سکتی ہے ۔ ہمارا سیاسی کلچر کافی وسعت پذیر ہے اور وہ سیکولر کردار کا حامل ہے ۔