سانحہء کربلا اور یزید کا کردار

حضرت مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ ابتدائے آفزینش ہی سے حق اور باطل ہمیشہ برسرپیکار رہے ہیں۔ یہ دراصل نور و ظلمت اور ایمان و کفر کی قوتوں کے درمیان ایسا تصادم اور ٹکرائو ہے جو ازل سے شروع ہو ا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابد تک کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان دونوں مخالف طاقتوں کے مابین نہ کبھی صلح ہوگی اور نہ کبھی اس جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ ہاں البتہ حق و باطل کی اس جنگ کے فوجوں‘ کمانڈروں اور میدانوں میں وقتاً فوقتاً تبدیلی ہوتی رہیگی لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ایسے ہر محاذ پر ہر بار حق کو فتحِ مبین اور باطل کو شکستِ مہین ہوئی اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی جس کی شہادت اس قرآنی اعلان سے ہوتی ہے ’’جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا(بنی اسرائیل۔۸۱)‘‘۔
حضرت آدم علیہ السلام کے عالم وجود میں آتے ہی حق و باطل کی یہ جنگ چھڑ گئی جس میں حضرت آدم علیہ السلام حق کے علم بردار تھے اور آپ کے مقابل باطل کی قوت کا سرغنہ ابلیس لعین تھا۔ نور و ظلمت کے درمیان اس محاذ جنگ پر حضرت آدم علیہ السلام منصور و کامیاب ثابت ہوے اور باطل کی ابلیسی طاقت شکست فاش کی ذلت سے دوچار مردود و مقہور ہوگئی۔ آگے زمانہ بدلا تو اسی جنگ کا میدان بدلتا گیا اور دونوں طرف کے کمانڈر بھی بدلتے گئے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مد مقابل نمرود نے ‘ پھر حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے سامنے فرعون نے اور حجاز میں سرور عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ ابولہب نے نبرد آزمائی کی جبکہ خلیل اللہ‘ کلیم اللہ اور رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ والسلام میں سے ہر ایک صداقت کا پرچم لئے حقانیت رحمانی کی طاقت کے سپہ سالار تھے تو اُن کے خلاف علی الترتیب نمرود‘ فرعون اور ابولہب میں سے ہر ایک باطل کے شیطانی لشکر کے کمانڈر کی حیثیت زورآزمائی پراُترآئے تھے۔ شاعر مشرق نے اسی طرف اشارہ کیا ہے ؎
ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
لیکن ان میں سے ہر معرکہ کا کیا انجام ہوا۔ قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کے اوراق گواہ ہیں کہ حق و باطل کی اس جنگ میں نور و ظلمت کے اس تصادم میں اور کفر و ایمان کی اس لڑائی میں حق کا بول بالااور باطل کا منہ کالا ہوا۔ ظلمانی طاقتوں نے لاکھ کوشش کی نورِ خدا کو بجھادیں لیکن ؎
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
کچھ عرصہ بعد حق و باطل کی جنگ کا محاذ کربلا کی سرزمین پر منتقل ہوا جہاں پرچم حقانیت کے علمدار اور بہتر(۷۲) نفوس قدسیہ پر مشتمل مختصر حقانی فوج کے سپہ سالار حضرت امام عالیمقام حسین نامدار ہیں اور باطل پرست بیس ہزار اشقیاء کے لشکر جرار کی کمان یزید پلید کے ہاتھوں میں ہے۔ سرزمین کربلا کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ اس معرکہ حق و باطل میں امام برحق نے اپنے اہلبیت کے ساتھ خود اپنا سرکٹا کر اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعہ دین اسلام کو نئی زندگی عطا فرمادی بقول شاعر ؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یزید کی باطل پرستیاں مٹ گئیں اور وہ چراغ ہدایت کو بجھانے میں ناکام رہا۔ اس کے برخلاف فتح مبین کا سہرا امام حسین رضی اللہ عنہ ہی کے سر رہا اور ان شاء اللہ آپ کا یہ کارنامہ قیامت تک ناقابل فراموش رہے گا۔
چنانچہ دین حق کی خاطر آپ کی قربانیوں اور آپ کے امت پر عظیم احسانات کا تذکرہ اور چرچا آج بھی چہار دان عالم کے کونے کونے میں جاری ہے۔ لیکن چند گوشوں سے آجکل یہ فتنہ پھیلا جارہا ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے نعوذباللہ یزید پلید کے خلاف بغاوت کی تھی اور کربلا میں فساد و خونریزی کے آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پروپگنڈہ بھی کیا جارہا ہے کہ یزید دراصل ایک صالح اور متقی ‘ خلیفہ برحق تھا بلکہ اس کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کا لقب اور رضی اللہ عنہ کے الفاظ تک بولے اور لکھے جارہے ہیں۔
اہل علم و تحقیق ہی نہیں بلکہ عقل سلیم رکھنے والا ایک عام شخص بھی اس پر یقین رکھتا ہے کہ کسی واقعہ کے بعد زمانہ قریب میں دستیاب شواہد و حقائق پر مشتمل معتبر مورخین وسیرت نگاروں کی تصانیف ہی مستند اور مسلمہ ہوتی ہیں۔ لیکن ان سب کو بالکلیہ بالائے طاق رکھتے ہوے آج معرکۂ کربلا سے تقریباً چودہ صدیوں بعد اصل واقعات کے عین بر عکس‘ مفروضہ قصوں اور کہانیوں کے ذریعہ حقائق کو توڑ موڑ کر اس طرح پیش کرنا علانیہ کذب بیانی ‘ اقترا پردازی اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا مفسدین و دشمنانِ اہلبیت کے اس مکر و فریب اور کذب و افزا کو بے نقاب کرنا وقت کا تقاضا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی خود بخود نظر آجائے اور سادہ لوح عوام گمراہ ہونے نہ پائیں۔
آج سے کئی صدی قبل تحریر و مرتب کی ہوئی احادیث و آثار اور تاریخ و سیرت کی ثقہ و مسلمہ کتب یعنی بخاری شریف۔ ہدایہ نہایہ۔ صواعق محرقہ۔ دلائل النبوۃ۔ حاکم۔ شرح عینی۔ کنز العمال‘طبقات ابن سعد کامل بن اثیر‘ اسد الغابہ ‘ تاریخ الخلفاء‘ اصابہ اور شرح عقائد نسفی سے ماخوذ مضامین کا خلاصہ درجِ ذیل کیا جارہا ہے تاکہ حقائق کا پتہ چل جائے۔ حضو ررسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے واضح طور پر پیشین گوئی فرمادی تھی کہ میری امت کی ہلاکت چند بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔ نیز فرمایا کہ پہلا وہ شخص جو میری سنت کو بدلے گاہ وہ بنی امیہ سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا۔ یہ بھی ارشاد نبوی ہے کہ میری امت کا معاملہ عدل کے ساتھ قائم رہے گا حتیٰ کہ پہلا شخص جو اس کو تباہ کردیگا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جو یزید کہلائے گا۔ مخبر صادق صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشاد کی لفظ بہ لفظ تصدیق ہوگئی جبکہ مذکورہ بالا کتب کے بموجب سبط رسول‘ جگر گوشہ علی و بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کہ جن کی طہارت ‘ شرافت اور نجابت کااعلان قرآن پاک قیامت تک کرتا رہے گا اور جن کے فضائل احادیث شریفہ میں ہمیشہ جگمگاتے رہینگے۔ جو نہ صرف جنت کے سردار ہیں بلکہ جن سے محبت دراصل خدا و رسول کو محبوب اور شفاعت و مغفرت کی ضامن ہے۔ مذکورہ کتب سے ثابت ہے کہ یزید شقی و بدبخت ‘ ظالم و جابر‘ فاسق و فاجر‘ شرابی و بدکار‘ بے ادب و بداخلاق‘ بدعتی و فتنہ پرداز‘ سنتوں کو بدلنے والا‘ دین میں رخنہ ڈالنے والا‘ حرمین شریفین کے تقدس کو پامال کرنے والا‘ اہلبیت رسول کی بے حرمتی کرنے والاتھا۔ اس کے علاوہ آلات لہو و لعب کے ساتھ گانا بجانا‘ شکار کھیلنا‘ بے ریش لڑکوں کو رکھنا‘ کتوں کو پالنا‘ سینگوں والے دنبوں‘ ریچھوں اور بندروں کو آپس میں لڑاتے رہنا یزید کے محبوب مشاغل تھے۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا جبکہ وہ شراب سے مخمور نہ رہتا ہو۔
چنانچہ واقدی نے حضرت عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے یزید پر اس وقت خروج کیا جبکہ ہم کو یہ ڈر ہوگیا کہ کہیں یزید کی بداعمالیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر پتھروں کا عذاب نہ برسنے لگے کیوں کہ یہ شخص مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قراردیتا‘ شراب نوشی کرتا اور نمازیں ترک کردیتا تھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تو یزید اس قدر بے لگام ہوگیا کہ زنا‘ لواطت‘ حرام کاری‘ بھائی بہن کے درمیان نکاح‘ سود کا لین دین اور شراب نوشی وغیرہ عوام میں تک علانیہ رائج ہوگئے لوگوں میں نمازوں کی پابندی اُٹھ گئی۔