سامعین کا ردعمل

غلام احمد نورانی
نمائش سوسائٹی کی پلاٹینیم جوبلی (75 ویں سال) کے سلسلہ میں زندہ دلان حیدرآباد کا خصوی مشاعرہ 19 فبروری کو رات 8 بجے توسیع شدہ نمائش کلب میں منعقد ہوا ۔ طنز و مزاح کے شائقین کی کثیر تعداد میں شرکت کلب کی تنگ دامنی کا شکوہ کررہی تھی جس میں امریکہ ، کینڈا ، سعودی عرب اور امارات کے مداح شامل تھے ۔ حیدرآباد کی تہذیبی قدروں کے سفیر غیاث الدین بابو خان مہمان خصوصی تھے ۔ ان کے علاوہ جلال الدین اکبر (آئی ایف ایس) ڈائرکٹر اقلیتی امور اور ایس اے شکور ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی مہمانان اعزازی تھے ۔ محمد علی رفعت صاحب آئی اے ایس نے مشاعرہ کی صدارت فرمائی ۔ غیاث الدین بابو خان نے طنز و مزاح کو حیدرآبادی تہذیب کا جزو لائینفک قرار دیتے ہوئے اسے اسکی شناخت قرار دیا اور اسے آج کے دور میں بیش بہا قیمتی سرمایہ اور اثاثہ قرار دیتے ہوئے ایسی منفرد تقاریب کے لئے مستقبل میں تعاون کا پیشکش بھی کیا ۔ غلام احمد نورانی معتمد عمومی نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین صحت کے مطابق قہقہے لگانے سے انسانی جسم میں خون کے دباؤ اور گردش کا نظام بہتر ہوتا ہے اور اس طرح دل کی بیماریوں کے خطرات کم ہوجاتے ہیں ۔ ڈاکٹرس کہتے ہیں کہ انسان اگر روزانہ 15 منٹ تک ہنستا رہے تو دل کی بیماریوں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ اور دور رہ سکتے ہیں ۔ اب کوئی 15 منٹ بلاوجہ تو ہنس نہیں سکتا ، ہنسی کا سبب ہونا چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم میں عظیم مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین صاحب ہیں ، ہم ان کی تحریر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں پڑھیں اور ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں ۔ مائک کا رخ نظامت کیلئے مشہور مزاحیہ شاعر سردار اثر کی طرف موڑا گیا ۔ انہوں نے دلچسپ انداز میں کارروائی چلائی ۔ سب سے پہلے فرید سحر کو آواز دی گئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ

ہم بھی غزل گائیں گے یارو نئے برس
رنگ اپنا ہم جمائیں گے یارو نئے برس
مانگے جو گھوڑے جوڑے میں لاکھوں روپے اگر
مرغا اسے بنائیں گے یارو نئے برس
پھر وحید پاشاہ قادری نے جو اپنی پیروڈیوں کیلئے منفرد سمجھے جاتے ہیں کہا کہ
تم تو چائے والے ہو ساتھ کیا نبھاؤگے
گھر چلا نہیں سکتے دیش کیا چلاؤگے
نریندر رائے ہندی اردو مشاعروں میں ہمیشہ طنز و مزاح کا رنگ جمانے کیلئے مشہور ہیں ۔ اپنا رنگ جمایا اور مشاعرہ کو نئے سمت عطا کی اور کہا ۔
پڑھے لکھے ہیں جو مجبور وہ فن بیچتے ہیں
کچھ تو ان پڑھ ہیں جو لاشوں کا کفن بیچتے ہیں
پیٹ بھرنے کیلئے یہ تو بُرا کچھ بھی نہیں
اپنے نیتا ہیں یہ جو اپنا ہی وطن بیچتے ہیں
سیاسی قائدین کو اداکار قرار دیتے ہوئے نریندر رائے صاحب نے نفیس طریقے سے چوٹ لگائی اور کہا کہ
نامور ہیرو ہے یہ اس میں اداکاری نہ دیکھ
ماڈرن ہے یہ کلا اس میں کلاکاری نہ دیکھ
ڈھونڈتا رہ جائے گا کچھ ہاتھ آئے گا نہیں
دیش کا نیتا ہے یہ اس میں وفاداری نہ دیکھ
محبوب نگر سے تشریف لائے چچا پالموری نے بھی اپنا منفرد رنگ دکھایا۔
سامنے ہے شامیانہ سونچ روں
کیسے گھس کے کھاؤں کھانا سونچ روں
روٹھ کر بیگم پلٹ کو سوگئیں
خواب میں شاپنگ کرانا سونچ روں
اردو ہندی کے ایک اور مشہور شاعر وینو گوپال بھٹڈ نے اپنے انوکھے لہجہ میں کہا ۔
بھیک میں دیا ہوا ایک روپے کا سکہ
بھکاری نے مجھے واپس لوٹادیا
تو میں نے کہا جناب میرا ایک اصول ہے
میں کسی بھکاری کوایک روپے سے زیادہ بھیک نہیں دیتا
بھکاری بولا حضور میرا بھی ایک اصول ہے
کہ میں بھی کسی بھکاری سے بھیک نہیں لیتا
ناندیڑ سے تشریف لائے مہمان شاعر تمیز احمد پرواز کہتے ہیں ۔

اب کہیں دل لگانا نہیں چاہتا
اپنا بی پی بڑھانا نہیں چاہتا
بے سبب مجھ سے شرما کے کیا فائدہ
تم کو اپنا بنانا نہیں چاہتا
ٹھوکریں کھا چکا رہبری میں تیری
اب تجھے آزمانا نہیں چاہتا
اس مشاعرہ میں زندہ دلان حیدرآباد کے مشہور مزاح نگار حمایت اللہ صاحب ، مصطفی علی بیگ ، محمد سلیمان (استاد) علی صاحب میاں مرحوم ، طاہرہ بیگم ، حفیظ خان سپاٹ ، صبغتہ اللہ بمباٹ مرحوم کو خاص طور پر یاد کیا گیا ۔ چار دہوں تک نشرگاہ نمائش سے یہ لوگ مزاحیہ تشہیری مشاعرے اور لطیفہ گوئی کے منفرد پروگرامس سے تفریح طبع و قہقہوں کا جادو بکھیرتے تھے ۔ ایک دور تھا جب نمائش میدان میں نشر گاہ سے پیش ہونے والے ان مشاعروں کو سننے کیلئے لوگ کافی دیر تک اسپیکرس کے نیچے ٹھہرے رہتے تھے ۔ بقید حیات فنکار مصطفی علی بیگ اور حمایت اللہ صاحب کو مشہور مزاحیہ شاعر غوث خواہ مخواہ کے ساتھ تہنیت پیش کی گئی ۔ حمایت اللہ صاحب خرابی صحت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے ، انکے بھتیجے محمد سلیم نے ان کی نمائندگی کی ۔ اس موقع پر مصطفی علی بیگ صاحب کو مہمان خصوصی نے خاص طور پر اپنی موجودگی میں سننا چاہا جو اپنی منفرد اینگلو اردو شاعری میں ساری طنز و مزاح کی اردو دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ انھیں تہنیت پیش کرتے ہوئے خاص طور پر کنوینر نمائش سوسائٹی (کلچرل کمیٹی) مخیر حیدر نے کہا کہ یہ خوش مزاجی اور خوش مزاجی کی آمیزش میں ان کی بذلہ سنجی کی تعریف کرتے ہوئے دیگر اراکین نمائش اشفاق حیدر اور نواب اقبال علی خاں صاحب نے کہا کہ مصطفی علی بیگ جب سامنے آتے ہیں تو ہر چھوٹا بڑا آدمی ان کی شخصیت دیکھتے ہی قہقہہ لگاتا ہے اور یہ خود بھی جب ہنسنے لگتے ہیں تو آبشار گونگے معلوم ہوتے ہیں ۔ سوسائٹی کے خازن انیل معرا نے کہا کہ نمائش سوسائٹی استاد اور ان کے شاگردوں کے نمائش کے پروگرامس کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔

مصطفی علی بیگ نے اپنے مخصوص ترنم میں سماں باندھ دیا۔
ساون کی یہ گھٹائیں اللہ پلیز نکو
یہ ہارٹ کی وبائیں اللہ پلیز نکو
رستہ پہ ان کو لائیں اللہ پلیز نکو
ہم خود بھٹک نہ جائیں اللہ پلیز نکو
ہے واچ مین گھر پر خونخوار ایک کتا
کیوں ان سے ملنے جائیں اللہ پلیز نکو
لڑکے اور لڑکیوں میں ہے فرق کرنا مشکل
اب کس سے دل لگائیں اللہ پلیز نکو
مصطفی صاحب نے ملک کے موجودہ حالات اور عصری جدیدیت پر اپنے تازہ کلام میں برجستگی سے چوٹ لگائی اور کہا کہ
ہر ایک مالا مال مری کنٹری میں ہے
رشوت کا جو وبال مری کنٹری میں ہے
گالی دو یا کسی پہ بھی کیچڑ اچھال دو
آزادی خیال مری کنٹری میں ہے
ہٹ دھرمیوں کو جب سے ملا ہے پاور یہاں
انصاف بھی نڈھال مری کنٹری میں ہے
مس ورلڈ لگ رہی ہے ہر اک گرل اب یہاں
میک اپ کا یہ کمال مری کنٹری میں ہے
ینگرس کہہ رہے ہیں اب الڈرس کو بائی بائی
تہذیب کا زوال مری کنٹری میں ہے
بودھن نظام آباد سے تشریف لائے شاعر اقبال شانہ کو دعوت سخن دی گئی ۔

میں حال زار اس کو سنانے میں رہ گیا
اور وہ مرا مذاق اڑانے میں رہ گیا
آنے میں رہ گیا کبھی جانے میں رل گیا
چکر تری گلی کے لگانے میں رہ گیا
ڈولی میں بیٹھ کر وہ کبھی کے چلے گئے
سہرا میں سر سے باندھ کے آنے میں رہ گیا
بزرگ شاعر غوث خواہ مخواہ کو جب آواز دی گئی تو شائقین نے ان کا پرتپاک خیر مقدم تالیوں کی گونج میں کیا ۔ انہوں نے طنز و مزاح کے آسمان کے درخشاں ستاروں سلیمان خطیب ، سرور ڈنڈا ، مسافر نلگنڈوی ، طالب خوندمیری ، گلی نلگنڈوی کی یاد ان اشعار سے تازہ کردی ۔
روٹھی ہوئی خوشی کو منانے میں کٹ گئی
یا زندگی غور کو بھلانے میں کٹ گئی
آنسو کسی کے بھی نہ بہے ان کی موت پر
جن کی تمام عمر ہنسانے میں کٹ گئی
طنز و مزاح کی بنیادی قدروں کی افادیت بیان کرتے ہوئے سامعین کو یوں جھنجھوڑا
نہ محفل میں سنا کر دی گئی ہے
نہ خلوت میں بلا کر دی گئی ہے
ہنسانے کی سعادت تو خواہ مخواہ کو
کئی برسوں رلا کر دی گئی ہے
سردار اثر نے نظامت کے دوران اپنی بذلہ سنجی اور صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور فی البدیہ لطیفے بھی پیش کئے ۔ انہوں نے اپنے تازہ کلام میں نئی نسل پر بھرپور طنز کے وار کئے اور یوں مخاطب ہوئے ۔
عشق سر پر سوار ہے پیارے
پھر خزاں میں بہار ہے پیارے
جینس ٹی شرٹ ہے منہ پہ میک اپ بھی
ان کا کن میں شمار ہے پیارے
کل گیا تھا میں خودکشی کرنے
واں بھی لمبی قطار ہے پیارے
اپنے بعد سردار اثر نے شاہد عدیلی کا نام پکارا ۔ انہوں نے ہلکے پھلکے مگر تیکھے اشعار سنائے۔

عقد چوتھا نواب صاحب کا
خیر خوبی سے ہوگیا پورا
گھر کو لے آئے چوتھی دلہن کو
لے گئے اپنے خاص کمرے میں
ہاتھ دلہن کا لے کر ہاتھوں میں
کھوگئے وہ پرانی یادوں میں
کھولی یکلخت انہوں نے الماری
اشک آنکھوں سے ہوگئے جاری
پوچھ کر اشک دیدہ نم سے
بول اٹھے پھر وہ چوتھی بیگم سے
پہلے ہینگر میں وہ جو ساڑی ہے
پہلی بیگم کی وہ نشانی ہے
اور ہے جو دوسرے ہینگر میں
دوسری جان کا غرارہ ہے
اور ہے جو تیسرے ہینگر میں ہے
تیسری جان کا شرارا ہے
رعب ایسا تھا میرا تینوں پر
تینوں اللہ کو ہوگئیں پیاری
چوتھے ہینگر کی فکر ہے مجھ کو
حشر ان کا نہ تینوں جیسا ہو
سن کے دلہن نے یہ کہا ان سے
فکر مت کیجئے میرے سرتاج
چوتھا ہینگر وہاں جو خالی ہے
شیروانی لٹکنے والی ہے
اب تمام شعراء کے کلام سنانے کے بعد صدر مشاعرہ محمد علی رفعت آئی اے ایس کی باری تھی ۔ چمچہ یا چمچہ کا چمچہ بنانے کسی شاعر کی دعا سے عدم اتفاق کرتے ہوئے اپنے تخیل اور خودی کو ہمیشہ سربلند رکھنے اور خوب سے خوب تر کی جستجو کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ

کسی نے خدا سے یہ مانگی دعا
مجھے ڈپٹی سی ایم کا چمچہ بنا
اگر اسکا درجہ ہے مجھ سے بڑا
تو پھر مجھ کو چمچہ کا چمچہ بنا
ادھر میں نے اب یہ مانگی دعا
الہی مجھے تو گورنر بنا
اگر میرا رتبہ ہے اس سے بڑا
پھر مملکت کا صدر ہی بنا
مشاعرہ میں مختلف خیال کے شعراء اور لوگ آتے ہیں ان کو آپس میں جوڑنے کا نام مشاعرہ ہے ۔ زندہ دلان حیدرآباد کے اس خصوصی مشاعرہ کو مختلف ذہن و فکر کے شعراء نے اپنے کلام سے ایک خوبصورت گلدستہ کی شکل میں ڈھالا ۔ سامعین میں بے شمار زندہ دلوں نے مشاعرہ کے دوران اپنے دلچسپ اور فی البدیہ تبصروں سے یہ بات ثابت کردی کہ مشاعرہ صرف شاعر کے کلام ہی کا نام نہیں بلکہ سامعین کے ردعمل کا بھی نام ہے ۔ حیدرآباد کے مشاعرے بلاشبہ اعلی تہذیبی قدروں اور زندہ دلی کے مکمل عکاس ہوتے ہیں ۔ مشاعرہ رات ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوا ۔