محمد ریاض احمد
عالمی سطح پر ہورہے واقعات اور صورتحال کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم ملکوں میں بے چینی کی ایک ختم نہ ہونے والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مسلم ممالک ہی خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ جنگ و جدال نے ان ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ باہمی اختلافات کے مہلک مرض میں وہ مبتلا ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے انھیں شدید متاثر کر رکھا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ان وسائل پر اُن ممالک کا کوئی کنٹرول نہیں ہے یہاں تک کہ داخلی و خارجی پالیسی کے لئے بھی انھیں کسی اور کے اشاروں پر کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان ممالک کی حکومتیں اور حکمراں ان طاقتوں کا حکم بجا لانے سے انکار کی جرأت کریں تو حکومتیں گرادی جاتی ہیں، اقتدار چھین لئے جاتے ہیں، تاجِ اقتدار کو سرِ بازار اُچھالا جاتا ہے۔ اکثر ملکوں کو اپنے اشاروں پر رقصاں ہونے کے لئے مجبور کرنے والی یہ طاقتیں دراصل سامراجی طاقتیں ہیں جنھیں کسی کے اقتدار و حکومت کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اپنے ناپاک عزائم و مفادات کی تکمیل کے لئے وہ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے اتلاف سے بھی گریز نہیں کرتی۔ کبھی کمیونزم، کبھی سوشلزم اور کبھی جمہوریت کے چولے بدل بدل کر یہ طاقتیں انسانوں کی بستیوں کو اُجاڑ دیتی ہیں۔ اگر ان کی بات نہ ماننے اور انھیں آنکھیں دکھانے کی کوئی ہمت و جرأت کرتا ہے تو اسے صدام حسین کی طرح پھانسی پر لٹکادیا جاتا ہے۔ کرنل قذافی کی طرح سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر اس کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ یمن کے علی عبداللہ صالح کی طرح موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔کسی حکمراں کو اس کے ہی فرد خاندان کے ہاتھوں شہید کردیا جاتا ہے، کسی کو ذلیل و خوار ہوکر بے غیرتی و بے شرمی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جاتا ہے اور جب کوئی سامراجی طاقتوں کو اپنے پیروں تلے کچلنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے مصر کے عوامی صدر کی حیثیت سے کامیاب ہونے والے محمد مُرسی کی طرح قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے جیل کی تاریک کوٹھریوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ راقم الحروف نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ یہ سامراجی طاقتیں صرف اور صرف اپنے مفادات کی غلام ہوتی ہیں ان کا انسانوں اور انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ سڑکوں پر انسانی خون کو بہتا دیکھ کر انھیں ایک عجیب خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ خودکش بم دھماکوں، فضائی حملوں میں انسانوں کے چیتھڑے اُڑتے دیکھ کر وہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ روتے بلکتے بچوں و خواتین کی آہیں بھی ان میں انسانیت کا جذبہ پیدا نہیں کرسکتیں۔ ہاں وہ انسانیت کی تباہی و بربادی پر شیطانی قہقہے بلند کرتے ہیں اور عیش و عشرت کی محفلوں میں جام سے جام ٹکراکر اپنی کامیابی اور انسانیت کی ناکامی کا جشن مناتے ہیں۔ ان طاقتوں کی بُری نظریں ہمیشہ ملکوں کے قدرتی وسائل بشمول تیل، معدنیات، قدرتی گیس اور قیمتی دھاتوں پر ٹکی رہتی ہیں اور ان ہی قدرتی وسائل کے لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ وہ ساری دنیا پر بالراست حکمرانی کرتے ہیں۔ آج مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہورہا ہے، افریقی ملکوں میں قتل و غارت گری کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے، ایشیاء میں معاشی انقلاب کے نام پر جو تبدیلیاں لائی جارہی ہیں یہ سب سامراجی طاقتوں کے منصوبوں اور سازشوں کا ایک حصہ ہے جس سے سب سے زیادہ مسلم ممالک متاثر ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے حالات اس کا ثبوت ہیں۔ عراق پر امریکی حملہ اور قبضہ، اس سے کافی برسوں قبل عراق ۔ ایران جنگ، عراق کے ساتھ کویت کا تنازعہ (جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوئے)، افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا قابض ہونا، لیبیا میں معمر کرنل قذاتی کے اقتدار کی برخاستگی پھر ان کا قتل، عراق اور شام میں داعش کا اچانک نمودار ہونا، اس کے نام پر انسانیت سوز مظالم کی داستانوں کی میڈیا کے ذریعہ تشہیر، شام کی تباہی، لیبیا کی بدحالی، یمن کی بربادی، پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے ذریعہ ہزاروں انسانوں کی ہلاکتیں، سوڈان پر فضائی حملے اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جھوٹے الزامات، ایران کو تباہ و برباد کرنے کی تیاریاں، ایران کے نام پر علاقہ کے دوسرے ملکوں کو ڈرانے دھمکانے، ان کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر انھیں اسلحہ فروخت کرنے پر مجبور کرنا یہ سب سامراجی طاقتوں کی کارستانی ہے جو چاہتے ہیں کہ ان ملکوں میں پائے جانے والے تیل، قدرتی گیس، قیمتی دھاتوں یا معدنیات کے ذخائر پر پوری طرح اپنا کنٹرول قائم کریں۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو آج امریکہ اور اس کے حلیف ملک جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر جو کھیل کھیل رہے ہیں وہی سامراجیت ہے۔ اس میں کارپوریٹ اداروں کا اہم کردار ہے۔ آپ کو بتادیں کہ عالمی سطح پر قدرتی گیس کی 32 فیصد پیداوار مشرق وسطی کے ملکوں میں ہوتی ہے اور یہ تمام عرب ممالک ہیں۔ دنیا میں پائے جانے والے فاسفیٹ کے 50 فیصد ذخائر صرف ایک مسلم ملک مراقش میں پائے جاتے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے 98 ممالک میں تقریباً 30 مسلم ممالک ہیں اور دنیا کے 55 فیصد تیل کی پیداوار مشرق وسطیٰ میں ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سونے جیسی قیمتی دھات پیتل اور تانبے کے علاوہ المونیم وغیرہ کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ افریقی ملکوں میں بھی ہیروں کی کانیں پائی جاتی ہیں۔
افریقی سرزمین میں بے شمار قدرتی وسائل کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ سامراجی طاقتیں صدیوں سے ہی غریب اور ترقی پذیر ملکوں پر رعب و دبدبہ قائم کرتے ہوئے اپنی اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں لیکن 18 ویں اور 19 ویں صدی کے اوائل میں بڑے یوروپی ممالک نے دنیا بھر میں اپنی نوآبادیات قائم کرنا شروع کئے۔ اپنی فوجی طاقت اور مضبوط معاشی حالت نے انھیں نئے بازاروں کی تخلیق میں مدد کی۔ ہمارے وطن عزیز ہندوستان کو بھی سامراجی طاقتوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر بہت لوٹا۔ تیل اور قدرتی گیس پر اپنی بدنظریں گاڑے ہوئے ان سامراجی طاقتوں نے پہلے کوئلہ کی کانوں پر نظر ڈالی بعد میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کی پالیسی اپنائی۔ امریکہ نے پٹرول کی اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے مشرق وسطیٰ کو اہم سمجھا۔ آپ کو بتادیں کہ تیل کی سب سے پہلے کھوج ایران میں کی گئی۔ 1936 ء میں اسٹانڈرڈ آئیل آف کیلیفورنیا نے سعودی عرب میں پہلی مرتبہ تیل دریافت کیا۔ جس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین میں تیل کے ذخائر کا پتہ چلا۔ امریکہ نے تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے قربت اختیار کی چنانچہ 1973 ء میں فی بیارل خام تیل کی قیمت تین ڈالر، 1974 ء میں 12 ڈالر فی بیارل تھی۔ عراق جنگ کے دوران فی بیارل خام تیل کی قیمت 15 تا 17 ڈالرس ہوگئی تھی۔ سامراجی طاقتوں کا یہی منصوبہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم و غیر مسلم ممالک کو ہمیشہ بدامنی و بے چینی کی صورتحال سے دوچار رکھا جاسکے اور ان ملکوں کا عدم استحکام سامراجی طاقتوں کے استحکام کا سبب بنے۔ 2011 ء میں جو بہار عرب شروع کی گئی اس کے ذریعہ سمجھا گیا تھا کہ سامراجی طاقتوں کے لئے یہ فائدہ بخش ہوگا لیکن عرب عوام نے اسلام پسندوں کو ترجیح دیتے ہوئے ان کے خواب ملیامیٹ کردیئے۔ بہار عرب میں اگر کوئی عرب ملک سب سے زیادہ تباہ ہوا ہے تو وہ لیبیا ہے جسے سامراجی طاقتوں نے ایسے تباہ کیاکہ اس کا مستقبل تاریک ہوگیا۔ لیبیائی عوام کے اذہان و قلوب میں کرنل معمر محمد ابو منیار القذافی کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کی گئیں انھیں ایک عوام دشمن اور حکمراں کی حیثیت سے پیش کیا گیا حالانکہ اُس وقت لیبیا میں عوام کی اوسط فی کس آمدنی ترقی یافتہ یوروپی ملکوں سے زیادہ تھی۔ عوام کو ہر قسم کی سہولت حاصل تھی انھیں برقی، آبی بلز بھی ادا نہیں کرنے پڑتے تھے۔ بے شمار خدمات عوام کو مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ عوام کی زندگیوں میں خوشحالی، سکون و اطمینان پایا جاتا تھا۔ لیکن آج لیبیا میں عوام خوشحالی کے لئے ترس رہے ہیں۔ مہنگائی نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ بہار عرب کے دوران کرنل معمر قذافی نے اپنی قوم کے نام پیام میں کچھ اس طرح کے الفاظ ادا کئے تھے ’’میں کسی بھی بیرونی ملک میں جلاوطنی کی زندگی نہیں گزاروں گا۔ میں کسی دوسرے ملک میں پناہ نہیں لوں گا، میں لیبیا میں پیدا ہوا ہوں اور یہی پر مروں گا۔ یہ ملک کبھی صحرا تھا لیکن میں نے اسے ایک سرسبز و شاداب جنگل میں تبدیل کیا جہاں ہر چیز اُگائی جاسکتی ہے۔ لیبیائی سرزمین سے اس کے اپنے شہریوں سے کوئی بھی زیادہ محبت نہیں کرسکتا۔ اگر یوروپ اور امریکہ یہ کہتے ہیں کہ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں تو خبردار! ان سے چوکس رہو۔ انھیں آپ سے نہیں آپ کی دولت سے پیار ہے، اُنھیں تیل سے پیار ہے، آپ سے نہیں۔ امریکہ اور یوروپ میرے خلاف لڑنے میں آپ کی مدد کررہے ہیں لیکن ان کے خلاف لڑنے میں ہی عقلمندی ہوگی کیوں کہ وہ لوگ آپ کے مستقبل اور ترقی کے خلاف لڑرہے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com