یکساں سیول کوڈ… نریندر مودی اصلی ایجنڈہ پر
ناگا اور میزو کو تحفظ …شریعت سے دشمنی کیوں ؟
رشیدالدین
نریندر مودی حکومت نے ڈھائی سال میں اپنے اصلی ایجنڈہ پر واپسی کی ہے۔ سنگھ پریوار کے زعفرانی ایجنڈہ کو ملک میں نافذ کرنے کیلئے لاء کمیشن اور عدلیہ کا سہارا لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ اور شریعت اسلامی میں مداخلت سنگھ پریوار کا ایسا خواب ہے جو کبھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج کا سہارا لیکر عدلیہ کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی گھناونی سازش تیار کی ہے۔ یکساں سیول کوڈ ، آر ایس ایس کا مین ایجنڈہ ہے جسے انتخابات کے وقت بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل کردیا گیا ۔ رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 جیسے حساس امور کے ذریعہ بی جے پی نے ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کیلئے خاص نام نہاد مسلم تنظیموں ، مذہب بیزار اور لا دین دانشوروں کا سہارا حاصل کیا گیا۔ ایک طرف جبکہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے، لاء کمیشن نے یکساں سیول کوڈ کے بارے میں عوام سے رائے طلب کی ہے ۔ لاء کمیشن کا سوالنامہ جانبداری پر مبنی ہے تاکہ کسی طرح یکساں سیول کوڈ کے حق میں حکومت اور سپریم کورٹ کو سفارش کی جائے۔ مرکز نے تین طلاق اور کثرت ازدواج کے مسئلہ پر سپریم کورٹ میں جو حلفنامہ داخل کیا وہ یکساں سیول کوڈ کی سمت پہلا قدم ہے۔ ان حالات میں ملک کے مسلمان بے چین ہوگئے اور انہیں رہنمائی کی ضرورت تھی ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے رہنمائی کا حق بھرپور انداز میں ادا کرتے ہوئے جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے ۔ لا کمیشن کے سوالنامہ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بورڈ نے ایمانی حرارت دوڑادی ہے۔
پرسنل لا بورڈ کا یہ فیصلہ سنگھ پریوار اور حکومت پر بجلی بن کر گرا۔ شریعت اسلامی میں مداخلت کی سازش کرنے والوں کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعہ سازشیوں کے لانچنگ پیاڈس کو تہس نہس کردیا گیا۔ پرسنل لا بورڈ کا یہ فیصلہ وقت کی اہم ضرورت تھا۔ یکساں سیول کوڈ پر لاء کمیشن کی رائے طلبی دراصل مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی کا امتحان ہے ۔ 1986 ء میں شاہ بانو کیس میں امت مسلمہ نے جس اتحاد کا ثبوت دیا تھا ، آج اسی کی ضرورت ہے۔ شاہ بانو کیس میں اس وقت کی مرکزی حکومت کو قانون سازی کیلئے مجبور ہونا پڑا تھا ۔ آج مودی حکومت کو ناپاک منصوبوں سے کم از کم باز رکھا جاسکتا ہے ۔ مسلم پرسنل لا کسی ملک یا حکومت کا قانون نہیں جس میں ترمیم کی جاسکے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں شرعی قانون ہے جس میں ترمیم یا تبدیلی کا حکومت اور عدالت کو بھی اختیار نہیں ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ سمیت کئی ہائیکورٹ کے فیصلوں کو پیش کیا جن میں شرعی قانون کو ناقابل ترمیم تسلیم کیا گیا ہے ۔ نریندر مودی نے دنیا بھر میں اپنے دامن پر لگے داغ دھونے کے لئے خود کو اعتدال پسند کے طورپر پیش کیا۔ گجرات نسل کشی کے پس منظر میں کٹر سیوم سیوک کی شبیہہ سدھارنے کیلئے بیرونی ممالک میں کہا تھا کہ ہندوستان نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو دستور کے مطابق مکمل آزادی ہے۔ مذہبی آزادی کے علاوہ رواداری ، انسانی حقوق اور تمام کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
پارلیمنٹ نے بھی اس طرح کے تیقنات قوم کو دیئے گئے لیکن ڈھائی سال میں جب مقبولیت کا گراف گرنے لگا ، عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں ناکامی ہوئی تو اقتدار کی باقی مدت میں ہندو توا ایجنڈہ کو اختیار کرلیا گیا۔ اب تک سنگھ پریوار کے نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ بابری سے لیکر دادری تک سنگھ پریوار نے نفرت اور خون کے کھیل کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھا۔ مودی کے اقتدار میں آتے ہی نفرت کے سوداگروں کو جیسے لائسنس مل گیا۔ مختلف عنوانات کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ تبدیلیٔ مذہب ، گھر واپسی ، ملک دشمنی ، گاؤ رکھشک الغرض نفرت کے کھیل طرح طرح سے کھیلے گئے لیکن مودی نے زبان نہیں کھولی۔ عدم رواداری کے خلاف قلم کاروں نے سرکاری اعزازات واپس کئے لیکن مودی خاموش رہے۔ ان کی ساری توجہ نواز شریف سے دوستی بڑھانے پر مرکوز رہی ۔ اب جبکہ ڈھائی برسوں میں تمام وعدے کھوکھلے ثابت ہوگئے تو مودی اپنی اصلیت پر لوٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رام مندر اور یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل کے ذریعہ اترپردیش ، گجرات اور پنجاب میں کامیابی کا منصوبہ ہے۔ حساس مسائل پر خاموش رہنے والے نریندر مودی نے دسہرہ کے موقع پر اترپردیش میں رام مندر کا موضوع چھیڑ دیا۔ سرحدوں کی حفاظت پر تو توجہ کم ہے لیکن نریندر مودی حکومت حقیقی مسائل اور اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ شریعت میں مداخلت کے ناپاک منصوبہ کے ذریعہ حکومت دراصل آگ سے کھیل رہی ہے اور اس طرح کا کوئی اقدام بھی اندرون ملک بدامنی کی صورتحال پیدا کردے گا۔ یکساں سیول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عیسائی ، سکھ ، جین ، بدھسٹ اور قبائل کے بھی علحدہ پرسنل لا ہیں۔ سابق وزیر قانون ویرپا موئیلی کے مطابق ملک میں 200 تا 300 پرسنل لا موجود ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی جب وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انہوں نے این ڈی اے کے اقل ترین مشترکہ پروگرام سے یکساں سیول کوڈ کو علحدہ کردیا تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ ووٹ حاصل کرنے بھلے ہی یہ مسئلہ کام آسکتا ہے لیکن اس کا نفاذ ممکن نہیں۔ یکساں سیول کوڈ پر دیگر مذاہب اور طبقات کا ردعمل بھی مسلمانوں کے موقف سے مطابقت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے شریعت ، ایمان سے جڑا مسئلہ ہے۔ مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرسکتا ہے لیکن شریعت میں مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ علماء کی رائے میں شریعت میں مداخلت کی کوشش بابری مسجد کی شہادت سے اہم مسئلہ ہے۔ شریعت پر پابندی کی صورت میں جہاد فرض ہوجاتا ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے مسلمانوں کو جگانے کا کام کیا ہے ۔ حکومت سے جمہوری انداز میں احتجاج کے ساتھ سپریم کورٹ میں موثر پیروی کی ضرورت ہے۔ نامور وکلاء دستور و قانون کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ پھر ایک شاہ بانو طرز کا فیصلہ نہ آسکے۔ پرسنل لا بورڈ کی موجودہ قیادت مولانا رابع حسنی ندوی کی رہنمائی میں مولانا ولی رحمانی جنرل سکریٹری نے خود کو مرحوم اکابرین مولانا طیب قاسمی ، مولانا علی میاں ، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا منت اللہ رحمانی ، بنات والا ، ابراہیم سلیمان سیٹھ اور رحیم قریشی کا حقیقی وارث ثابت کیا ہے۔ اپنے دیرینہ تجربہ کی روشنی میں وہ شریعت کے خلاف فتنوں سے لوہا لے رہے ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس موقف کی تائید تمام مسلم جماعتوں ، تنظیموں اور قائدین کی ذمہ داری ہے۔ عائیلی مسائل پر فقہی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شریعت کے تحفظ کیلئے مسلمانوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہونا پڑے گا کیونکہ یہ ملی اور مذہبی تشخص کا مسئلہ ہے۔ لاء کمیشن کے سوالنامہ کے بائیکاٹ کے مسئلہ پر بعض ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ ان کا کہناہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو دلائل کے ساتھ یکساں سیول کوڈ کے خلاف لا کمیشن کو قائل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ حق کا اظہار اور وہ بھی باطل کے سامنے یہ انبیاء کی سنت ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ انبیاء اکرام نے باطل طاقتوں کو دلائل سے شکست دی۔ اظہار حق سے منہ موڑنا دراصل عزیمت نہیں بلکہ رخصت کا راستہ ہے۔ لاء کمیشن بھلے ہی بدنیتی کے ساتھ سوالات کو پیش کر رہا ہے لیکن ہمیں ان کا مدلل انداز میں جواب دینا ہوگا۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس کے اظہار میں کبھی کمزوری کا مظاہرہ نہ ہو ۔ جب ہم حق پر ہیں تو پھر اظہار حق سے کونسی چیز مانع ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ پر لا کمیشن اور سپریم کورٹ پر یہ واضح کیا جائے کہ اگر ملک میں اسے نافذ کرنا ہی ہے تو پھر دین فطرت اسلام کو اختیار کیا جائے۔ صرف اسلام ہی وہ واحد فطری قانون ہے جو انسان کا بنایا ہوا نہیں جبکہ دیگر تمام مذاہب کے قوانین انسانی اور حکومتوں کے تیار کردہ ہیں۔ ایک سے زائد شادیوں پر اعتراض کرنے والوں سے کوئی سوال کرے کہ انہیں شرعی انداز میں شادی پر اعتراض ہے لیکن زنا اور فحاشی پر کوئی اعتراض نہیں۔
اگر ہندوستان کو جنت نشاں برقرار رکھنا ہو تو قرآن و حدیث کو اختیار کرنا چاہئے۔ جس طرح انسانیت کو ہوا ، پانی اور روشنی ضروری ہے ، اسی طرح بہتر سماج کی تشکیل کیلئے اللہ تعالیٰ، نبی آخر الزماں محمد الرسول اللہ اور قرآن مجید ضروری ہیں۔ سپریم کور اور لاء کمیشن کو اس طرح کا مدلل جواب داخل کیا جائے کہ وہ خود بھی اسلام سے متاثر ہوجائیں ۔ جب دلائل موجود ہوں تو پھر پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ پیچھے ہٹنا دراصل کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس سلسلہ میں ماہرین سے مشاورت کرنی چاہئے۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ باتیں کرنے والوں کو شاید پتہ نہیں کہ ناگا اور میزو قبائل کو گزشتہ 70 برسوں سے خصوصی موقف حاصل ہے اور ان کے پرسنل لا میں مداخلت نہ کرنے کا دستور نے تیقن دیا ہے۔ ناگا قبائل کی پنچایت کے فیصلہ کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومت اس قانون کے خلاف کوئی قانون سازی کرسکتی ہے۔ جب قبائل کو دستور میں تحفظ حاصل ہے تو شریعت اسلامی سے دشمنی کیوں ؟ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب پر نہ صرف عمل کرنے بلکہ اس کی تبلیغ کی اجازت دی ہے۔ دستوری اختیار کو کس طرح چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ سروے میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ طلاق اور زائد شادیوں کی شرح مسلمانوں سے زیادہ دیگر طبقات میں ہیں۔ جھارکھنڈ کے قبائلی قائد شیبو سورین کو 59 بیویاں ہونے کی اطلاع ہے لیکن ان پر یکساں سیول کوڈ کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ ویرپا موئیلی جو وزیر قانون رہے ، ان کا کہنا ہے کہ کیرالا میں موجود ایک قبیلہ سے ان کا تعلق ہے اور ان کا علحدہ پرسنل لا ہے۔ اس طرح ملک میں مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے نام پر مودی حکومت نے دیگر مذاہب اور گروپس کو بھی جگانے کا کام کیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے نام پر قومی الیکٹرانک میڈیا نے شریعت اسلامی کے خلاف باقاعدہ مہم چھیڑ رکھی ہے ۔ روزانہ یہ ’’مودی چینلس‘‘ اور ان کے مودی فین اینکرس حکومت کے موقف کو گلا پھاڑ کر پیش کر رہے ہیں اور چند بکاؤ دانشوروں کو اپنی تائید میں جمع کرلیا ہے۔ ماجد دیوبندی نے حکومت کو کچھ اس طرح پیام دیا ہے ؎
سامان تجارت مرا ایمان نہیں ہے
ہر در پہ جھکے سر یہ مری شان نہیں ہے