سال2019لو سبھا الیکشن۔پسندیدہ لیڈر پر تذبذب برقرار ۔ کرن تھاپر

زیادہ انحصار نریندر مودی کی مہم پر ہے۔ نریندر مودی کی انتخابی مہم چلانے کا اندازہ منفر مانا جاتا ہے۔ کیا وہ حالات بدل دیں گے؟یا پھر حالیہ دنوں میں ائے ریاستی الیکشن کے نتائج سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مودی کا جادو اب ختم ہوگیا ہے؟۔

کیا اپوزیشن بحالی کی کوشش کررہی ہے یا پھر اس کا مبالغہ اور خواہش کے مطابق سونچ ہے؟۔یوم جمہوریہ کے موقع پر کئے گئے پولس سے تین باتیں ابھر کر ائی ہیں۔

پہلا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) 272تک سمٹ جائے گی‘ دوسرا نیشنل ڈیموکرٹیک الائنس( این ڈی اے) کو اکثریت نہیں ملے گی ‘ تیسرا کانگریس سو کے نمبر سے آگے جائے گی مگر بی جے پی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر ابھرے گی۔

پچھلے ہفتہ اکالی دل کے رکن پارلیمنٹ اور بی جے پی کے ساتھ نریش گجرال نے ایک ٹیلی ویثرن پر مجھ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی پارٹی200کے نمبر سے آگے نہیں جائے گی‘ ممکن ہے کہ بی جے پی 180-190سیٹوں کے ساتھ سب سے آگے رہے گی ۔

انہو ں نے کہاکہ این ڈی اے 230تک تھم جائے گی۔پہلے نظر میں بی جے پی کے خلاف رائے جارہی ہے۔ چھتیس گڑ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں پہلے ہی شکست ہوئی ہے‘ بہار او رآندھرا میں اس کے ساتھیوں نے بی جے پی کاساتھ چھوڑ دیا ہے ‘ مہارشٹرا اور شمال مشرق میں بھی انہوں نے دوسروں کو مایوس کیاہے۔

اور سب سے اوپر کسان‘ طلبہ ‘ دلت اور مسلمان ناراض ہیں اور اترپردیش ( یوپی) میں انہیں سماج وادی پارٹی( ایس پی) بہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی)اتحاد کا سامنا کرنا ہے۔ اس طرح کے حالات بی جے پی کے لئے ٹھیک نظر نہیں آرہے ہیں۔

تاہم اپوزیشن کا موقف بھی کوئی مضبوط نہیں ہے ‘ اس کے بھی سنجیدہ مسائل ہیں۔ اب بھی 22مختلف سیاسی جماعتیں اور اس کے 22مختلف لیڈرس اور 22مختلف خواہشات ہیں۔ یوپی ‘ بنگال‘ آندھر اپردیش او رکیرالا جیسی ریاستوں میں الائنس کے باوجود یہ اپوزیشن ہیں۔

ممکن ہے کہ یہ ایک عظیم اتحاد کی ریالیاں منعقد کرلیں گے مگر سیٹوں کی تقسیم اب بھی ان کا مسئلہ ہے۔یوپی اور آندھر اپردیش میںیہ پہلے ہی کوہوچکا ہے اور اب بہار سے اس پر مسائل کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ یقیناًبی جے پی کا اقتدار میں ہونا اس کو درپیش مسائل کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

برہمن سماج کی اچانک آواز پر اعلی ذات کے معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کو دس فیصد تحفظات کی پیشکش کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے۔

کسانوں کی انکم اسکیم‘ پنشن اسکیم اور ٹیکس میں کمی کا حالیہ عبوری بجٹ میں اعلان مزید پچیس کروڑ کیلئے ایک درخواست ہے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات آگے چل کر موثر ثابت ہونگے؟۔

ان حالات میں پرینکاگاندھی کا سرگرم سیاست میں داخلہ سے کوئی شبہ نہیں ہے کانگریس طاقتور ہوگی مگر ساتھ میں اپوزیشن کا بھی کمزو ر ہونا یقینی ہے؟۔

اگر کانگریس یوپی میں مضبوطی کے ساتھ مسلم ووٹوں کو متاثرکرسکتی ‘ جو ایس پی ‘ بی ایس پی اتحاد کو بھی مل سکتے ہیں تو اس کا نتیجہ مخالف بی جے پی ووٹوں کی تقسیم کی شکل میں برآ مد ہوگا۔صرف یہا ں پر ایس پی‘ بی ایس پی اور کانگریس کے درمیان منصوبہ بند حکمت عملی جس کے تحت کوئی کسی کے ووٹ نہیں کاٹے گا ہی اپوزیشن کو فروغ دینے کاکام کرسکتا ہے۔

اسے بی جے پی کو دوہرے نقصان کا سامنا ہوگا اس کو ایس پی ‘ بی ایس پی اتحاد کے ذریعہ دلت او راوبی سی ووٹوں کا نقصان ہوگاتو کانگریس برہمن ووٹ لے کر بی جے پی کا کھیل خراب کرسکتی ہے۔بالآخر عبوری بجٹ کے بعد راہول گاندھی کا غریبو ں کو اقل ترین آمدنی کا وعدہ اب بھی گونج رہا ہے؟

اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔اب بی جے پی کو یہ امید ہے کہ اس جو ہندی پٹی میں جو نقصان ان کوہوا ہے اس کی بھرپائی وہ شمال مشرق‘ بنگال اور اڈیشہ سے کریں گے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ 2014کے مقابلے 2019میں دوریاستوں میں بی جے پی کا مظاہرہ بہتر ہوا ہے۔ مگر شمال مشرق میں سٹیزن شپ بل کے خلاف جاری احتجاج بی جے پی کے لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے اور این ڈی اے خود اس بری خبر سے پریشان ہے۔زیادہ انحصار نریندر مودی کی مہم پر ہے۔

نریندر مودی کی انتخابی مہم چلانے کا اندازہ منفر مانا جاتا ہے۔ کیا وہ حالات بدل دیں گے؟یا پھر حالیہ دنوں میں ائے ریاستی الیکشن کے نتائج سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مودی کا جادو اب ختم ہوگیا ہے؟۔کیونکہ اپوزیشن میں مودی کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے والے سارے ملک میں کوئی لیڈر نہیں ہے۔

اگر انتخابی صدراتی ہوجائیں تو بی جے پی سب سے آگے رہے گی