سال 2013 کے آخری دن تک دفتر قضات سے طلاق کے 1193 سرٹیفیکٹس کی اجرائی

حیدرآباد ۔ 31 ۔ دسمبر : ہماری ریاست بالخصوص شہر حیدرآباد میں جہاں شادیاں دھوم دھام سے انجام پاتی ہیں غریب و متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ متمول طبقہ کی دیکھا دیکھی شادیوں میں بے جا اسراف کرنے پر مجبور بھی ہورہے ہیں لیکن سال 2013 کے دوران یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ دھوم دھام سے ہونے والی شادیوں کا انجام بھی برا ہورہا ہے ۔ بعض تو ایسی شادیاں بھی دیکھنے میں آئیں جہاں بڑی دھوم دھام کا مظاہرہ کیا گیا ۔ انواع و اقسام کے کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی ۔ مختلف اقسام کے باجوں کے ذریعہ پڑوسیوں کا سکون غارت کیا گیا لیکن کچھ ہی دنوں میں یہ شادیاں اپنے درد ناک انجام کو پہنچ گئیں ۔

بات طلاق اور علحدگی تک پہنچ گئی ۔ اس ضمن میں ہم نے ریاستی وقف بورڈ کے دفتر میں واقع دفتر قضات سے سال 2013 مسلم جوڑوں کے درمیان ہوئیں علحدگیوں و طلاق کے اعداد و شمار حاصل کئے ۔ ہم نے اس ضمن میں وقف بورڈ کے انچارج چیف ایکزیکٹیو آفیسر جناب احمد محی الدین اور سپرنٹنڈنٹ قاضی سید نور اللہ فاروق سے بات کی ان حضرات نے بتایا کہ کہ 2012 میں وقف بورڈ کے دفتر قضات سے طلاق کے 973 سرٹیفیکٹس کی اجرائی عمل میں آئی تھی لیکن سال 2013 میں ایسا لگتا ہے کہ طلاق کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ چنانچہ 2013 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر تک طلاق کے 1193 سرٹیفیکٹس جاری کئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ 2012 کی بہ نسبت 2013 میں طلاق کے 220 زیادہ واقعات پیش آئے ہیں ۔ ان حضرات نے یہ بھی بتایا کہ سال 2013 کے دوران 37550 میریج سرٹیفیکٹس جاری کئے گئے جن میں تتکال کے تحت 29600 اور معمولی کے طریقہ کار کے تحت جاری کردہ 7150 میریج سرٹیفیکٹس شامل ہیں ۔ راقم الحروف نے تقریبا آدھا گھنٹہ دفتر وقف بورڈ میں گذارا اس دوران دفتر قضات سے ایسے بے شمار لوگ رجوع ہوئے جو میریج سرٹیفیکٹ اور طلاق کے سرٹیفیکٹس میں تاریخ پیدائش اور ناموں کے ہجوں میں ہونے والی غلطیوں کی تصحیح کروانے کے خواہاں تھے ۔ اس بارے میں قاضی سید نور اللہ فاروق نے بتایا کہ شادی کے دن خوشی میں لوگ نکاح نامہ میں ناموں اور تاریخ پیدائش لکھانے میں غلطی کر بیٹھ جاتے ہیں جب کہ نکاح ناموں میں ایس ایس سی سرٹیفیکٹس یا پھر پاسپورٹ میں درج نام و تاریخ پیدائش نوٹ کروائیں تو اس سے میریج سرٹیفیکٹس میں کسی غلطی کا امکان نہیں رہتا ۔ انہوں نے نکاح ناموں پر نام کے ہجے درست لکھانے پر بھی زور دیا کیوں کہ میریج سرٹیفیکٹس کی بنیاد پر پاسپورٹ اور بیرون ملک جانے کے لیے ویزوں کے حصول میں مدد لی جاتی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب ہمارے لوگوں میں کافی شعور آچکا ہے اور 50 فیصد لوگ شادیوں کے فوری بعد ہی میریج سرٹیفیکٹس حاصل کررہے ہیں ۔ میریج سرٹیفیکٹس کی فیس 200 تتکال کے تحت حاصل کئے جانے والے میریج سرٹیفیکٹس کے لیے 300 اور اضافی نقل کے لیے مزید 200 روپئے بطور فیس وصول کئے جاتے ہیں ۔ عام طور پر میریج سرٹیفیکٹس اندرون 7 یوم جاری کردئیے جاتے ہیں جب کہ تتکال اسکیم کے تحت داخل کی جانے والی درخواستوں پر دوسرے دن ہی میریج سرٹیفیکٹس کی اجرائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔ دفتر قضات میں سرٹیفیکٹس کی اجرائی صبح ساڑھے دس تا دوپہر ایک بجے تک ہی عمل میں آتی تھی لیکن نئے اسپیشل آفیسر شیخ محمد اقبال نے اپنے عہدہ کا جائزہ لیتے ہی کام کے اوقات میں اضافہ کردیا ۔

اس طرح اب صبح ساڑھے دس بجے تا سہ پہر تین بجے میریج اور طلاق کے سرٹیفیکٹس جاری کئے جارہے ہیں ۔ جناب شیخ محمد اقبال کے اس اقدام سے اضلاع کے مسلمانوں کو بھی بہت راحت مل گئی ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ دفتر قضات میں سوا تین بجے بھی ملازمین کام کررہے تھے ۔ جہاں تک مسلمانوں میں طلاق کے بڑھتے رجحان کا سوال ہے ۔ معمولی معمولی باتوں پر بات طلاق تک پہنچ رہی ہے حالانکہ خاندان کے بڑے بزرگ چاہیں تو آپس میں صلح صفائی کرواتے ہوئے شادیوں کو ٹوٹنے سے بچا سکتے ہیں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غیر اہم باتوں کو مسئلہ بناکر ہمارے معاشرے میں میاں بیوی علحدگی اختیار کررہے ہیں ۔ شہر کے اکثر پولیس اسٹیشنوں بالخصوص چندرائن گٹہ ، بھوانی نگر ، کالا پتھر ، فلک نما ، رین بازار ، دبیر پورہ ، چادر گھاٹ ، کلثوم پورم ، گولکنڈہ ، لنگر حوض ، حبیب نگر ، آصف نگر اور مہدی پٹنم پولیس اسٹیشنوں میں میاں بیوی کے جھگڑوں کے سلسلہ میں کافی خاندان رجوع ہوتے ہیں جب کہ در در پھرنے کی بجائے مسلمان علماء سے اور اپنے خاندانوں کے بزرگوں سے رجوع ہوتے ہیں تو اس مسئلہ کا خوشگوار حل نکل آسکتا ہے ۔ ویسے بھی فریقین کو چاہئے کہ وہ اپنے دلوں میں خوف خدا رکھیں ایکدوسرے کو نیچا دکھانے یا قانونی پیچیدگیوں میں پھنسانے کی بجائے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاندانوں اور زندگیوں کو ٹوٹنے بکھیرنے سے بچائیں ورنہ ’ طلاق ‘ زندگی بھر ہنستے کھیلتے جوڑوں میں افسردگی احساس ندامت کا باعث بن سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں طلاق کو انتہائی ناپسندیدہ تصور کیا گیا ہے ۔۔