ہے موت کے آنے کا طے وقت مگر پھر بھی
کس وقت کہاں آئے آبھاس نہیں ہوتا
سالانہ فریضۂ حج اور حفاظتی انتظامات
سعودی عرب میں سالانہ فریضۂ حج کی ادائیگی کیلئے اقطاع عالم سے لاکھوں مسلمان جمع ہوتے ہیں ۔ اس سال بھی حج کیلئے سعودی حکومت نے ہرممکنہ حفاظتی اقدامات کئے تھے ۔ مجموعی طورپر 30 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو حج کی سعادت نصیب ہوئی مگر جمرات میں شیطان کو کنکریاں مارنے کیلئے پہونچنے والے حاجیوں کی کثیرتعداد بھگدڑ کا شکار ہوگئی جس کے بعد 800 سے زائد حاجی کرام جاں بحق ہوئے ۔ منیٰ کے اس سانحہ کے بعد سعودی حکام اور ایران کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حج کیلئے انتظامات کو موثر بنانے کے باوجود الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایران نے اس حادثہ کیلئے سعودی حکومت اور حکام کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ راستہ مسدود کردینے کی وجہ سے حامیوں کا ہجوم بڑھ گیا جبکہ عینی شاہدین نے کہاکہ شدید گرمی اور دم گھٹنے والے ہجوم نے حاجیوں کو بے بس کردیا تھا ۔ شیطان کو کنکریاں مارکر واپس ہونے والے حاجیوں اور مخالف سمت سے آنے والے حاجیوں کے کثیروگروپ کا آمنا سامنا ہوا تو ہجوم میں پھنسے ہوئے حامیوں کو دم گھٹنے سے فرش پر گرتے دیکھا گیا اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اموات کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا ۔ سعودی حکام نے اس حادثہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے اس واقعہ کا الزام بعض ملکوں کے حاجیوں پر عائد کیا ۔ ان کی لاپرواہی اور حکام کی ہدایات پر عمل نہ کرنے سے اموات ہوئیں۔ الزام ہے کہ سالانہ فریضۂ حج کے کثیر اجتماع سے نمٹنے میں حکومت ناکام ہوئی ہے ۔ اگرچیکہ اس سے پہلے بھی بھگدڑ کے واقعات ہوئے ہیں۔ 1990 ء میں ایسے ہی ایک بھگدڑ کے واقعہ میں 1426 حاجی جاں بحق ہوئے تھے ۔ 1997 ء میں آتشزدگی میں 343 حاجی شہید ہوئے تھے ۔ سال 2006 ء میں بھی رمی جمرات کے دوران بھگدڑ سے 364 حاجی کچلے گئے تھے ۔ ماضی کے تجربات اور سانحات کو مدنظر رکھ کر ہی حکومت سعودی عرب نے حج کے لئے حفاظتی اقدامات کوموثر بنایا ہے ۔ انفراسٹرکچرکو عصری تقاضوں سے آراستہ کیا گیا ۔ حاجیوں کے مناک حج کو پرسکون بنانے کے لئے ہرجگہ اصول و قواعد پر عمل کرنے کا بندوبست کیا گیا ۔ جمرات میں حاجیوں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرتے ہوئے حکومت نے 1992 ء سے اب تک 300 بلین امریکی ڈالر خرچ کرچکی ہے ۔ جمرات پل کو توسیع دی جاکر کئی نئی منزلیں بھی تعمیر کی گئیں ہیں۔ وادی منیٰ میں روایتی خیموں کو تبدیل کرکے آگ سے محفوظ رہنے والے فائیر گولاس اسٹرکچر تیار کیا گیا ۔ انتظامات کو موثر بنانے کیلئے ہزاروں سکیورٹی گارڈس اور سپاہی تعینات کئے گئے جو حاجیوں کی سلامتی کیلئے بنائے گئے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کی نگرانی کررہے تھے ۔ ایک لاکھ سپاہیوں کو 30 لاکھ حجاج کرام کی سلامتی کیلئے تعینات کیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود جب حادثہ ہوتا ہے اور اتنی بڑا تعداد میں انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے تو الزامات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ سعودی حکومت پر تنقید بھی کی جارہی ہیں کہ اس نے سالانہ فریضہ حج کے انتظامات کی ازخود ذمہ داری لے کر اس معاملہ میں کوتاہی اور لاپرواہی کی ہے ۔ حادثات سے بچنے کیلئے سالانہ فریضہ حج کے لئے آنے والے عازمین حج کی تعداد گھٹانے اور ملکوں کے لئے مختص کوٹہ کو کم کرنے کا بھی مشورہ دیا جارہا ہے ۔ حکومت نے ایک سے زائد حج کرنیو الوں کو دوبارہ حج کرنے کی اجازت نہ دینے کا بھی فیصلہ کیا تھا ۔ حجاج کرام کی سلامتی ہی حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے مگر جب حالات بے قابو ہوتے ہیں تو سانحہ کا ہونا یقینی ہوتا ہے ۔تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود سعودی حکومت کو اس طرح کے واقعہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آگے چل کر مزید موثر انتظامات کرنے اور وسیع تر منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ وزیر صحت خالد الضیح نے بعض حاجیوں کو اس واقعہ کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے کیوں کہ جب حاجی سلامتی کے لئے بنائے گئے اصولوں اور قواعد پر عمل نہیں کرتے ہیں تو دیگر حاجیوں کیلئے مشکلات پیدا ہوتے ہیں۔ گزشتہ 25 سال کے دوران اتنا بڑا حادثہ نہیں ہوا تھا ۔ اب حکومت سعودی عرب اور سکیورٹی ماہرین ہی کو حادثات سے پاک مناسک حج کو یقینی بنانے کیلئے وسیع تر منصوبہ سازی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ حج ایک اہم دینی فریضہ ہے جو اقطاع عالم کے تمام مسلمان اپنی زندگی میں ایک بار کرنے کی آرزو رکھتے ہیں اور اب تک بھی سعودی عرب ہی اس سالانہ فریضہ حج کے انتظامات انجام دینے کا واحد حق رکھتا ہے ۔اس کیلئے تمام تر انتظامات کرلئے جاتے ہیں کہیں نہ کہیں خامی رہ جاتی ہے ۔ عینی شاہدین نے اس حادثہ کو گرمی کی شدت اور شیطان کو کنکریاں مارکر واپس ہونے والے حاجیوں کو طویل راستہ طئے کرکے اپنے خیموں کو جانے کی اجازت دی گئی اگرچیکہ حکام سے درمیاں کا راستہ کھولنے کیلئے زور دیا گیا تھا مگر حکام نے ہجوم کو کم کرنے کیلئے فوری دوسرا بند کردہ راستہ نہیں کھلا گیا جس کی وجہ سے آمنے سامنے سے آنے والے حاجیوں کا ہجوم ٹکرا گیا اور گرمی سے بدحال حاجیوں نے ایک کے بعد ایک گرکر دم توڑنا شروع کیا ۔ پینے کے پانی کے عدم انتظام کی وجہ سے بھی کئی حاجی دم توڑ دیئے ۔ عینی شاہدین کے بیانات کے بعد حکام کو یہ اندازہ ہوجانا چاہئے کہ ہجوم پر قابو پانے کیلئے کیا تدابیر اختیار کئے جائیں ۔ اتنے بڑے حج اجتماع کیلئے تدابیر اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرنے والے عملہ کے ارکان کا ہونا بھی ضروری ہے ۔انتظامات پر تعینات آفیسرس کو جب تک کثیرہجوم پر قابو پانے کے طور طریقوں اور نظم و ضبط کو موثر بنانے کی تربیت دینا بھی سلامتی اصولوں کا ایک حصہ ہونا چاہئے ۔ منیٰ میں سڑکوں کو بند رکھنے کا ایران نے جو الزام عائد کیا ہے اس کی تردید کرتے ہوئے سعودی حکام نے اس کو ایران کی افواہ قرار دیا ہے۔ سعودی شاہ سلمان کو حرم شریف میں کرین حاثہ اور اب منیٰ سانحہ کے بعد ہونیو الی تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ الزام تراشی کرنے والوں کی پرواہ کئے بغیر اﷲ کے مہمانوں کی میزبانی کو موثر اور محفوظ بنانے مزید موثر انتظامات کریں۔
حیدرآباد کی سڑکیں اور کاریں
شہر حیدرآباد کی سڑکیں ٹریفک کی وجہ سے اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہی ہیں، حکومت نے شہر حیدرآباد کو اسمارٹ سٹی بنانے کا اعلان کیا ۔ سابق میں راج شیکھر ریڈی حکومت نے شہر حیدرآباد کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کا منصوبہ بنایا تھا مگر حکومت کے تمام منصوبے شہر کی سڑکوں کی ابتر حالت کے سامنے دھرے کے دھرے ہیں۔ ٹریفک اور جگہ جگہ کھڈوں نے موٹررانوں کیلئے کئی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ صحت اور جسمانی اعضاء کو لاحق بیماریاں ،فضائی آلودگی نے شہر میں رہنے والوں کو نازک صورتحال سے دوچار کردیا ۔ ٹریفک پولیس اور جی ایچ ایم سی کے پاس ایسا کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے کہ وہ دونوں مل کر ٹریفک اور سڑکوں کو بہتر بناسکیں۔ حال ہی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ( آئی ٹی) شعبہ کے سافٹ ویر انجینئرس نے منفرد قدم اٹھاتے ہوئے ’’کار فری‘‘ جمعرات اپنایا ہے ۔ کاروں کا استعمال ترک کرکے عوامی ٹرانسپورٹ ، کار پولس، سائیکلوں اور پیدل چل کر آفس جانے کا محسن قدم اُٹھایاہے ۔ اس سے شہر میں ایک اچھی مثال قائم ہورہی ہے ۔ تلنگانہ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ ہائیسا تنظیم نے 6 اگسٹ سے یہ منفرد کام شروع کیا ۔ اگر شہر کے مختلف علاقوں میں ہفتہ کے 7دن کاروں کے استعمال کو ترک کردیا جائے تو شہر میں ٹریفک کے مسائل حل ہونے کے علاوہ ایندھن کی بچت ، فضائی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی ۔ اس طرح دیگر سواریوں کو بھی اگر ایک دن کیلئے سڑکوں پر چلایا نہ جائے تو عوام کی صحت کے ساتھ ساتھ سڑکوں کی مرمت نہ ہونے سے ہونے والی دشواریوں سے عوام کو چھٹکارا ملے گا ۔ حیدرآباد سافٹ ویر اکسپورٹس اسوسی ایشن (HYSEA) کے اس منفرد کام کو ہر شہری اور شعبہ ہائے جات سے وابستہ افراد اختیار کریں تو بلاشبہ ایک صحت مند فضاء قائم ہوگی ۔ آئی ٹی شعبہ کے ملازمین اور رضاکار تنظیموں نے بیداری مہم شروع کی ہے تو اس کا ہر شہری کو بھی ساتھ دینا ہوگا ۔