سارے الزام آگئے سر پر

رشیدالدین

منموہن سنگھ …قانونی کارروائی یا سیاسی انتقام
نریندر مودی … ملک سے زیادہ بیرونی دورے

معاملہ کوئلہ کا ہو اور ہاتھ کالے نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہوگا ؟ جس طرح مثل مشہور ہے کہ ’’کوئلہ کی دلالی میں ہاتھ کالے‘‘ کچھ اسی طرح سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دامن پر کوئلہ کے داغ لگ چکے ہیں۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کی جانب سے منموہن سنگھ کو جاری کردہ سمن سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ 10 برسوں تک ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی شخصیت کو حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ملزم کی حیثیت سے عدالت کا سمن کیا واقعی خالص قانونی کارروائی ہے یا پھر سیاسی انتقام؟ سیاسی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور سیاسی جماعتوں کی رائے اگرچہ اس بارے میں منقسم ہے لیکن عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں یہ کانگریس کے خلاف مرکز کی انتقامی کارروائی تو نہیں؟ عدالتی کارروائی پر ہم بھی کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ سچ اور حقیقت یقیناً ایک دن منظر عام پر آکر رہے گی۔ برخلاف اس کے 2005 ء کے کوئلہ اسکام کی تحقیقات کی رفتار اور تحقیقاتی ایجنسی اور عدالتی کارروائی کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ منموہن سنگھ کو ملزم کی حیثیت سے شامل کرتے ہوئے جس نوعیت کی دفعات کا استعمال کیا گیا ، وہ ان کی شخصیت کے برعکس ہیں۔ ملک کی تاریخ میں یہ دوسرے سابق وزیراعظم ہیں جنہیں کسی معاملہ میں ماخوذ کیا گیا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے کام کاج میں بڑھتی سیاسی مداخلت اور حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ تحقیقاتی ایجنسیوں کے بدلتے تیور کوئی نہیں بات نہیں اور اس سلسلہ میں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ بعض ایسے بھی معاملات دیکھے گئے جن میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ملزمین کے تعلق سے نرم موقف اختیار کرتے ہوئے کلین چٹ دیدی گئی۔ ان تلخ حقائق کے پس منظر میں کوئلہ اسکام کے سلسلہ میں منموہن سنگھ پر الزامات عام شہری کو بھی ہضم نہیں ہوپارہے ہیں۔

یوں تو یو پی اے کی دوسری میعاد میں کئی اسکام منظر عام پر آئے لیکن کوئلہ بلاک الاٹمنٹ کیس میں وزیراعظم کو اس اعتبار سے ملزمین کی فہرست میں شامل کیا گیا کیونکہ الاٹمنٹ کے وقت وزارت کوئلہ کا قلمدان منموہن سنگھ کے پاس تھا۔ اگرچہ سی بی آئی نے اکتوبر 2013 ء میں ایف آئی آر درج کیا ، اس وقت منموہن سنگھ کا نام شامل نہیں تھا۔ ایک ریٹائرڈ عہدیدار کی جانب سے منموہن سنگھ کا نام لئے جانے کے بعد ڈسمبر 2014 ء جبکہ مرکز میں بی جے پی سرکار تھی، سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے سی بی آئی کو ہدایت دی کہ منموہن سگنھ سے پوچھ تاچھ کرے۔ جاریہ سال جنوری میں سی بی آئی نے ڈاکٹر منموہن سنگھ سے پوچھ تاچھ کی اور پھر عدالت نے اپریل میں حاضری کا سمن جاری کردیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ منموہن سنگھ کانگریس کے خلاف آسان نشانہ کی طرح بی جے پی کے ہاتھ لگ گئے؟ ایسے وقت جبکہ راہول گاندھی کانگریس کو ناکامیوں سے باہر نکالنے کے لئے طویل غور و خوض کے بعد گھر واپسی کرنے والے ہیں اور پارٹی کے ایک گوشہ کی جانب سے پرینکا کو سیاست میں لانے کا مطالبہ شدت اختیار کر رہا ہے، منموہن سنگھ کو نشانہ بنانا کانگریس کے حوصلوں کو پست کرنے کی سیاسی چال ہوسکتی ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی انتقامی کارروائیاں شکست خوردہ قائدین کو نئی سیاسی جلا بخشنے کا سبب بن جاتی ہیں اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ منموہن سنگھ کو نشانہ بنانے سے کانگریس پارٹی کو نئی زندگی مل سکتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ کانگریس قیادت نے منموہن سنگھ کی قیامگاہ پہنچ کر اظہار یگانگت کیا۔ منموہن سنگھ کی جگہ کوئی اور قائد ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ عوام کی نفسیات میں یہ داخل ہے کہ جس کے خلاف کارروائی کی جائے وہ اس سے ہمدردی کرنے لگتے ہیں۔ جس شخص نے 10 برس وزیراعظم کی حیثیت سے کسی بھی مسئلہ پر زبان نہیں کھولی ، اس پر ایک لاکھ 86 ہزار کروڑ کے اسکام کا الزام عائد کرنا کسی عجوبہ سے کم نہیں۔ جس شخصیت نے دس برسوں تک صرف ہائی کمان سے وفاداری نبھائی اور مقام و مرتبہ توکجا کسی بھی معاملہ میں اپنی پسند یا مرضی کو ترجیح نہیں دی، وہ کیسے بدعنوانی میں ملوث ہوسکتا ہے؟ جنتا پارٹی دور حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے چرن سنگھ نے اندرا گاندھی کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اندرا گاندھی اور کانگریس پارٹی کے حق میں ہمدردی کی لہر اٹھی اور انتخابات میں کانگریس اقتدار میں واپس آگئی۔ گرفتاری کا یہ فیصلہ کانگریس کو اقتدار دلانے میں مددگار ثابت ہوا۔ مرکزی حکومت منموہن سنگھ کے معاملہ کو لاکھ قانونی عمل کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن عوام اسے سیاسی انتقام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی بیرونی دوروں کے معاملہ میں شاید ریکارڈ بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کا تاریخ میں سب سے زیادہ ممالک کے دورہ کا ایوارڈ رکھا جائے تو شاید نریندر مودی ہی اس کے حقدار ہوں گے۔ اس کیلئے انہیں 5 سال تک انتظار کی بھی ضرورت نہیں، صرف 9 ماہ کے عرصہ میں نریندر مودی نے اس قدر بیرونی دورے کئے کہ شاید ہی کسی وزیراعظم نے کئے ہوں گے۔

ان میں بعض تو ایسے ممالک ہیں جن کے نام ہندوستانیوں کیلئے غیر معروف ہیں لیکن نریندر مودی نے جیسے ان ممالک کی کھوج کی ہے۔ جس طرح واسکوڈی گاما نے کئی ممالک کی کھوج میں سفر کیا تھا، ٹھیک اسی طرح نریندر مودی بھی غیر معروف ممالک کی کھوج میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ کہیں وہ غیر معروف ممالک پر ریسرچ میں مصروف تو نہیں۔ نریندر مودی سے پوچھا جائے تو وہ بیک وقت ان تمام ممالک کے نام شاید نہ گناپائیں جن کا 9 ماہ میں انہوں نے دورہ کیا۔ دیگر ممالک سے تعلقات میں بہتری اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کیلئے یقیناً دورہ کرنا پڑتا ہے لیکن ’’میک ان انڈیا‘‘ کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم خود اکثر فارن میں دکھائی دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں شیچلیس ، ماریشس اور سری لنکا کا مودی نے دورہ کیا۔ ملک میں درپیش مسائل کو پس پشت ڈال کر بیرونی ملک کا سفر کہاں کی دانشمندی ہے۔ ایسے وقت جبکہ پارلیمنٹ کا سیشن جاری ہے اور روزانہ اہم عوامی مسائل پر حکومت کو جواب دینا ہے،ایسے میں بیرونی دورے پارلیمنٹ کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہیں ۔ پارلیمنٹ سیشن کے دوران بیرونی دوروں کے پروگرام کو قطعیت دینا دراصل ملک اور عوام کو درپیش مسائل سے راہ فراد اختیار کرنا ہے۔ جس وقت چندر شیکھر ملک کے وزیراعظم تھے، انہوں نے نریندر مودی کی طرح چھوٹے ممالک کے دوروں کو ترجیح دی تھی۔ نریندر مودی بھی ان کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اندرون ملک کئی سلگتے مسائل ہیں

جن کا حل تلاش کرنا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مودی نے ملک کا کوئی بھی اہم شہر نہیں چھوڑا تھا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ وزیراعظم کی کرسی پر فائز ہونے کے بعد ہی وہ ریاستوں کو بھلا بیٹھے۔ انہوں نے جس قدر تعداد میں دوسرے ممالک کا دورہ کیا، اتنی ریاستوں کا بھی دورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے پر رائے دہندوں سے اظہار تشکر کیلئے کم از کم تمام ریاستوں کا دورہ انہیں ابھی تک مکمل کرلینا چاہئے تھا۔ مودی نے وعدے ہندوستانی رائے دہندوں سے کئے تھے دوسرے ممالک سے نہیں۔ اقتدار تک پہنچانے میں رائے دہندوں کا دخل ہے نہ کہ دیگر ممالک کا ۔ پھر عوام سے زیادہ بیرونی ممالک سے ہمدردی اور دلچسپی کی کیا وجہ ہے ؟ وہ بھی ایسے ممالک جہاں انہیں ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ جیسے نعروں سے تسکین قلب کا انتظام ہوتا ہے۔ نریندر مودی کی جانب سے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مناسب انصاف اور یکساں سلوک کے وعدوں کو عوام ابھی بھولے نہیں کہ دوسری طرف بی جے پی نے قومی عاملہ سے نجمہ ہپت اللہ اور سمرتی ایرانی کو علحدہ کردیا۔ 111 رکنی قومی عاملہ سے مسلم اقلیت اور پارسی طبقہ کی نمائندگی کرنے والی دو خواتین کو علحدہ کرنا یقیناً باعث حیرت ہے۔ پارٹی صدر امیت شاہ نے یہ فیصلہ کیا لیکن وزیراعظم سے مشاورت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ قومی عاملہ میں اڈوانی کے ساتھ اٹل بہاری واجپائی کو بھی برقرار رکھا گیا ہے جبکہ واجپائی عوامی زندگی سے عملاً کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ بی جے پی کے اس فیصلہ سے صاف ظاہر ہے کہ اسے اب اقلیتوں کی ضرورت نہیں رہی۔ نئی دہلی میں اقلیتوں کی جانب سے عام آدمی پارٹی کی تائید کے بعد بی جے پی نے اقلیتی نمائندوں کو قومی عاملہ سے خارج کرتے ہوئے اپنی ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔

سنگھ پریوار کے نظریات کے عین مطابق قومی عاملہ سے اقلیتی نمائندگی کم کردی گئی ۔ بی جے پی کا یہ اقدام ان افراد کو دعوت فکر دیتا ہے جو اقتدار کی چکاچوند دیکھ کر بی جے پی سے قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس پارٹی نے اقلیتوں کو دور کردیا، اس سے قربت میں کس حد تک دانائی ہے۔ کئی افراد و تنظیمیں جن کا تعلق اقلیت سے ہے، وہ بی جے پی کی طرف امید اور آس بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور کئی توقعات واپستہ کرچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آگے ان کا حشر بھی نجمہ ہپت اللہ اور سمرتی ایرانی جیسا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کا فیصلہ عالمی یوم خواتین کے صرف دو دن بعد منظر عام پر آیا ۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر مرکزی حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کا عہد کیا تھا لیکن برسر اقتدار پارٹی نے خواتین کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے ، اس کا مظاہرہ قومی عاملہ کی تشکیل سے بخوبی ہوتا ہے ۔ ایک طرف خواتین پر مظالم کے سلسلہ میں وزیراعظم کا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔ ایسے وقت دو خواتین کو قومی عاملہ سے خارج کرتے ہوئے امیت شاہ نے نریندر مودی کے سر پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ اب نریندر مودی کس صورت سے خواتین کا سامنا کریں گے۔ جن خواتین کو پارٹی کے اہم شعبہ سے علحدہ کیا گیا، ان کا تعلق اقلیت سے ہونے کے علاوہ دونوں خواتین ہیں اور ان کی قابلیت اور صلاحیتوں سے انکار نہیں جاسکتا۔ وزیراعظم کو اس معاملہ میں کم از کم ’’من کی بات‘‘ پروگرام میں اپنے من کی بات عوام تک پہنچانی چاہئے۔ منموہن سنگھ کے موجودہ حالات پر منظر بھوپالی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
سارے الزام آگئے سر پر
جرم کیا ہے ہمیں پتہ ہی نہیں