رشیدالدین
رام دیو اور فڈنویس کی زہر افشانی
پناما پیپرس …مودی کے حاشیہ بردار بے نقاب
مانسون کے آغاز کے ساتھ ہی جس طرح مینڈک نکل آتے ہیں، ٹھیک اسی طرح انتخابات کے ساتھ ہی نفرت کے سوداگر بھی سیاسی افق پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ نفرت کی سیاست کے ذریعہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے پرچارکوں کی جو ٹیم تشکیل دی گئی تھی، ان کے چہروں اور بیانات سے عوام عاجز آچکے ہیں۔ لہذا نئے نئے چہرے مختلف کردار کی شکل میں عوام کے درمیان اشتعال اور نفرت کا بیج بونا چاہتے ہیں ، تاکہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچے۔ ملک میں شدید خشک سالی کی صورتحال میں ہم نے مانسون اور بارش کے تذکرہ سے گفتگو کا آغاز کیا۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں سنگین صورتحال ہے اور عوام پانی کیلئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں۔ مرکزی حکومت اور برسر اقتدار بی جے پی کو اس بات کی فکر نہیں کہ کس طرح عوام کی پیاس بجھائی جائے۔ انہیں تو صرف اقتدار اور کرسی کی فکر ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ مانسون کی ناکامی اور خشک سالی کیلئے حکمراں ذمہ دار ہوتا ہے ۔ رعایا پرور حکمراں ہو تو قدرت بھی مہربان ہوجاتی ہے۔ خیر اقتدار کی ہوس نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو اس قدر اندھا کردیا ہے کہ انہیں عوام کو درپیش مسائل کی کوئی پرواہ نہیں۔ ملک میں زعفرانی ایجنڈہ پر عمل آوری کے جنون نے جموں و کشمیرمیں اصولوں سے انحراف کیلئے مجبور کردیا۔
اقتدار کیلئے بی جے پی نے جن بنیادی اصولوں کی قربانی دی لیکن تشکیل حکومت کے ساتھ ہی تنازعات نے مخلوط حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ اب جبکہ آسام ، مغربی بنگال اور کیرالا سمیت پانچ ریاستوں کی رائے دہی قریب ہے، رام دیو اور چیف منسٹر مہاراشٹرا دیویندر فڈنویس کو میدان میں اتارا گیا۔ ایک ایسا تنازعہ جس پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنا موقف تبدیل کرلیا، اس پر زہر افشانی کے ذریعہ سماج کو مذہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یوں تو ابھی بھی بیشمار نفرت کے سوداگر بے لگام ہیں لیکن دو نئے چہروں کو دنگل میں اتارا گیا۔ ملک میں یوگا گرو اور بابا ہونے کا دعویٰ کرنے والے رام دیو نے اشتعال انگیزی کی تمام حدود کو پار کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دستور و قانون کا پاس و لحاظ نہ ہوتا تو وہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کا نعرہ لگانے سے انکار کرنے والے لاکھوں سر قلم کردیتے۔ دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی کے پسندیدہ چیف منسٹر دیویندر فڈنویس نے نعرہ سے انکار کرنے والوں کو ملک سے چلے جانے کا مشورہ دیا ہے۔ رام دیو کے بیان سے بی جے پی نے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ رام دیو کا بھلے ہی بی جے پی سے تعلق نہ ہو لیکن چیف منسٹر مہاراشٹرا کے بارے میں کیا کہیں گے۔ جس شخص نے دستور کی پاسداری کا حلف لیا، وہ جب اس طرح کا بیان دے تو عہدہ پر برقراری کے حق سے محروم ہوجائے گا۔ بی جے پی بھلے ہی کچھ عذر پیش کرے لیکن یہ دونوں بھی وزیراعظم سے کافی قریب ہیں ۔ یوگا گرو کے نام سے شہرت حاصل کرتے ہوئے بابا کا رول اختیار کرنے والے رام دیو نے یو پی اے حکومت کے خلاف کالے دھن کی واپسی کے عنوان سے مہم چلائی تھی۔ یہ مہم دراصل بی جے پی کے حق میں تھی۔ رام دیو نے علحدہ سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا لیکن بعد میں دستبرداری اختیار کرلی۔ کالے دھن واپسی کی مہم کی بی جے پی نے مکمل تائید کی تھی۔ اسی بابا نے لوک سبھا انتخابات میں نریندرمودی کے حق میں مہم چلائی اور ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی نام نہاد بابا ، بزنسمین بن گئے اور مودی حکومت کی سرپرستی میں مختلف غذائی پروڈکٹس کی فروخت کا آغاز کردیا۔ اس طرح نریندر مودی کے وزیراعظم بنتے ہی عوام کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن رام دیو راتوں رات بڑے صنعتکاروں کی صف میں شامل ہوگئے۔
حقیقی سنت ، بابا اور سادھو کی زبان سے کبھی نفرت کے بول نہیں نکل سکتے لیکن یہ ماڈرن بابا ہیں جن سے اچھائی کی امید عبث ہے۔ انہوں نے جس اشتعال انگیز بیان سے ماحول بگاڑنے کی کوشش کی، ان کی جگہ تو جیل کی سلاخوں میں ہونی چاہئے۔ حکومت اور پولیس کو اپنے طور پر مقدمہ درج کرنا چاہئے تھا ۔ اگر کوئی مسلمان اس طرح کا بیان دیتا تو ملک کے کئی علاقوں میں ملک دشمنی کے مقدمات درج کئے جاتے۔ ٹی وی چیانلس پر مباحث ہوتے اور اینکرس گلا پھاڑ کر جیل بھیجنے کا مطالبہ کرتے لیکن اس رام دیو بابا کے بارے میں ٹی وی چیانلس پر سناٹا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس بابا کے سر پر ’’مودی بابا‘‘ کا ہاتھ ہے۔ سیکولرازم کی دعویدار سیاسی جماعتوں کی بے حسی باعث حیرت ہے۔ مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو بھی صرف اخبارات تک ردعمل محدود رکھنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں کوئی اور اس طرح کی اشتعال انگیزی کی جرات نہ کرے۔ لاکھوں افراد کی گردن اڑانے کی بات کرنا صاف طور پر مسلم دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہی بہادر رام دیو ہیں جنہوں نے کالے دھن کی واپسی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پولیس کے دھاوے سے گھبراکر بقول اعظم خاں ’’زنانی لباس‘‘ میں راہِ فرار اختیار کی تھی ۔ کیا رام دیو نے کبھی تلوار دیکھی ہے؟ آر ایس ایس کی پریڈ میں لاٹھی تو ضرور دیکھی ہوگی لیکن اگر تلوارکو لاٹھی سمجھ کر اٹھالیں تو شاید رام دیو کی ناف ٹل جائے۔
دیویندر فڈنویس کو مسلمانوں کو ملک سے جانے کا مشورہ دینے سے قبل اپنے سیاسی گرو نریندر مودی کو پوچھنا چاہئے کہ وہ اچانک پاکستان کیوں گئے اور نواز شریف کی برتھ ڈے پارٹی میں کیوں شرکت کی؟ نواز شریف سے بار بار ملاقات کیلئے وزیراعظم کیوں مشتاق ہیں؟ پٹھان کوٹ دہشت گرد حملہ کے سلسلہ میں پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو ہندوستان آنے کی اجازت کس نے دی؟ پاکستان کادورہ اور پاکستان والوں کی مہمان نوازی تو مودی حکومت کرے لیکن دیویندر فڈنویس متنازعہ نعرہ نہ لگانے والوں کو ملک سے بھیجنا چاہتے ہیں۔ اکالی دل (مان) کے صدر سمرنجیت سنگھ مان نے صاف کردیا کہ کوئی بھی سکھ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ نہیں لگاسکتا کیونکہ یہ سکھ مذہب کے خلاف ہے۔ رام دیو اور فڈنویس ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ہمت شاید اس لئے بھی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ سمرنجیت سنگھ مان کی تلوار سے خائف ہیں۔ اس طرح کی زہر افشانی اور اشتعال انگیزی سے پانچ ریاستوں میں بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
دیگر متنازعہ مسائل کی طرح وزیراعظم نریندر مودی نے رام دیو اور دیویندر فڈنویس کے بیانات پر بھی اپنی خاموشی کو برقرار رکھا ہے۔ آخر کب کہیں گے مودی من کی بات ؟ ملک میں اقتدار کے ابھی تو دو سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن سنگھ پریوار کو ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی اس قدر جلدی ہے کہ ملک کے اقدار ، رواداری اور باہمی مذاہب کے احترام کی روایات کو پامال کردیا۔ رام دیو اور دیویندر فڈنویس کے بیانات کا اثر ابھی باقی تھاکہ چھتیس گڑھ کے ایک وزیر نے متنازعہ نعرہ نہ لگانے والوں کا منہ توڑ دینے کی بات کہی۔ اس طرح کے بیان سے کسی کا منہ تو نہیں ٹوٹے گا لیکن سماج ضرور ٹوٹ جائیگا۔ انتخابات سے قبل وزیراعظم نے جو وعدے کئے تھے ، عوام ان کو حقیقت میں تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بیرون ملک کالے دھن کی واپسی اور 15 لاکھ روپئے کی ادائیگی تو نہیں ہوئی لیکن 9 ہزار کروڑ لوٹ کر وجئے مالیا ملک سے فرار ہیں۔ ملک کے خزانے کو لوٹنے والوں کو کس طرح جانے کی اجازت مل جاتی ہے؟ سوئز بینکوں میں ہندوستانیوں کے کالے دھن کی پہلی فہرست پر ابھی کارروائی شروع بھی نہیں ہوپائی کہ پناما پیپرس کے انکشافات نے بی جے پی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ کالے دھن کے سلسلہ میں جو نئے انکشافات منظر عام پر آئے ، ان میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعظم ارون جیٹلی کے قریبی افراد کے نام شامل ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کی مختلف اسکیمات کے برانڈ ایمبسیڈر امیتابھ بچن کا نام بھی اس فہرست میں بتایا گیا ہے۔ پناما انکشافات کے بعد دنیا بھر میں ہلچل دیکھی جارہی ہے لیکن ہندوستان میں سناٹا ہے۔
آئس لینڈ کے وزیراعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا جبکہ وزیراعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون پر بھی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ اس فہرست میں کئی ممالک کے سربراہان اور ہندوستان کے صنعت کاروں کے نام منظر عام پر آئے ہیں۔ ہندوستانی حکومت کالے دھن کی جانچ کے بجائے ریزرو بینک آف انڈیا کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ مذکورہ انکشافات کی کوئی اہمیت نہیں۔ آر بی آئی کے گورنر نے یہاں تک کہہ دیا کہ انکشافات کے سلسلہ میں کوئی نتیجہ جلد بازی میں اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ پناما انکشافات میں شخصیتوں اور ان سے متعلق حسابات بھی پیش کئے گئے۔ ایسے میں حکومت جانچ کرنے کے بجائے مسئلہ کو برفدان کی نذر کرناچاہتی ہے تاکہ اپنی حواریوںکو بچایاجاسکے۔ پناما انکشافات نے وزیراعظم سے قربت رکھنے والے اڈانی گروپ کو بھی بے نقاب کیا لیکن وزارت فینانس ان معاملات کی جانچ کیلئے تیار نہیں اور صرف زبانی جمع خرچ اور بیانات دیئے جارہے ہیں۔ ملک کا الیکٹرانک میڈیا بھی جان بوجھ کر ان معاملات پر خاموش ہے۔ اگر انکشافات میں کانگریس یا کسی اور اپوزیشن پارٹی کے نام شامل ہوتے تو یہ ٹی وی چیانلس دن رات اسی مسئلہ پر نشریات پیش کرتے۔ملک کے بیشتر ٹی وی چیانلس پر حکومت کا اثر صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے، تمام اہم اور متنازعہ موضوعات کو چیانلس پیش کرنے کے بجائے توڑ مروڑ کر حکومت کے حق میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ سابق میں کبھی بھی میڈیا پر حکومت کا اس طرح کنٹرول نہیں دیکھا گیا۔ انتخابات سے عین قبل کالے دھن سے متعلق پناما انکشافات سے پانچ ریاستوں میں بی جے پی کو یقینی طورپر دھکا لگے گا۔ پہلے ہی کسی بھی ریاست میں بی جے پی کے خاص امکانات نہیں ہیں، ایسے میں کالے دھن کے تازہ انکشافات سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ لکھنو کے شاعر حیدر علوی نے کچھ اس طرح کہا ہے ؎
دولت کا نشہ چھاتے ہی ڈولنے لگے
سادھو بھی قاتلوں کی زباں بولنے لگے