محمد ریاض احمد
نریندر مودی حکومت میں حسب توقع فرقہ پرستی کو زبردست فروغ حاصل ہورہا ہے ۔ عوام کے درمیان مذہب کے نام پر نفرت کے بیج بونے والوں کی چاندی ہی چاندی ہے ۔ انھیں مرکزی کابینہ میں شامل کیا جارہا ہے ۔ اہم ذمہ داریاں تفویض کی جارہی ہیں غرض کے لوگوں کے درمیان دراڑیں ڈالنے والوں کے ’’اچھے دن‘‘ آگئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس قیادت کو خوش کرنے اور نریندر مودی سے قربت حاصل کرنے کیلئے بی جے پی قائدین اور ارکان پارلیمنٹ میں غیر معمولی مسابقت جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیت شاہ سے لیکر یوگی ادتیہ ناتھ ، ساکشی مہاراج اور گری راج سنگھ سے لے کر سادھوی نرنجن جیوتی ہر کوئی عجیب و غریب بیانات دیتے ہوئے سنگھ پریوار اور مودی کی نظر میں اپنی قدر و منزلت بڑھانے کی کوشش کررہا ہے انھیں اندازہ نہیں کہ ان کی فحش گوئی ، بدترین بکواس اور اشتعال انگیز الفاظ کی شکل میں ان کی زبانوں سے ابلتی ہوئی گندگی ہندوستان کے سیکولر ماحول میں کیسا خطرناک تعفن پھیلارہی ہے۔ حال ہی میں وشوا ہندو پریشد کے آنجہانی نائب صدر سوامی پرمانند کی محبوب چیلی سادھوی نرنجن جیوتی نے دہلی میں بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنامنہ کھولتے ہوئے نہ صرف وہاں موجود اپنے ہمدردوں بلکہ میڈیا کو اپنے منہ میں موجود فرقہ پرستی کے بھیانک دانت دکھائے ۔
محب وطن ہندوستانیوں کو ان کے بھیانک دانتوں اور زبان سے ذرہ برابر خوف نہیں ہوا لیکن ان کا بھونکنا بہت برا لگا ۔ سادھوی نرنجن جیوتی نے جو اپنی عمر کے 47 برس مکمل کرچکی ہیں پارلیمنٹ میں اترپردیش کے پارلیمانی حلقہ فتح پور کی نمائندگی کرتی ہیں اور فی الوقت مودی نے انھیں اپنی کابینہ میں مملکتی وزیر برائے فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز کی حیثیت سے شامل کیا ہے لیکن دہلی میں سادھوی نے جو بیان دیا ہے اس کے لحاظ سے تو انھیں مملکتی وزیر برائے کمیونل پروسیسنگ انڈسٹریز ہونا چاہئے ۔ ملک میں فرقہ پرستی کی جو لہر پھیل رہی ہے اور جس طرح بی جے پی قائدین اشتعال انگیز بیانات دینے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کررہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے ہندوستانیوں سے اچھے دن لانے کا وعدہ کرتے ہوئے فرقہ پرستی کے سہارے اقتدار حاصل کرنے والے نریندر مودی کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں ایک نیا قلمدان تخلیق کرتے ہوئے اس کا نام وزارت فروغ فرقہ پرستی یا پھر منسٹری آف کمیونسل پروسیسنگ انڈسٹریز رکھ دیں ۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسی وزارت ہوگی جس کیلئے بی جے پی کے بیشتر قائدین دعویداری کے اہل ہوں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ سادھوی نے آخر کیا کہا؟
سادھوی نرنجن جیوتی نے دہلی میں اپنے ہمدردوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’آپ کو طے کرنا ہے کہ دلی میں سرکار رام زادوں کی بنے گی یا حرام زادوں کی‘‘ چونکہ آر ایس ایس بی جے پی اور اس کے قائدین خود کو رام کا ٹھیکدار قرار دیتے ہیں اس لئے سادھوی نے بی جے پی کو رام زادوں کی جماعت قرار دیا جبکہ ان کی نظر میں کانگریس ، عام آدمی پارٹی ، بی ایس پی ، سی بی آئی ، سی پی ایم ، این سی پی ، سماج وادی پارٹی اور ترنمول کانگریس سب کی سب حرام زادوں کی پارٹیاں ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ بات اہم ہیکہ سادھوی کوئی عام ’’عورت‘‘ نہیں ہے اسے شاید اس مقام تک پہنچنے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے ۔ کتنے سادھوؤں کی خدمت کے عمل سے گذرنا پڑا ہوگا اور کتنے گھاٹوں کا پانی پینا پڑا ہوگا ۔ ویسے بھی یہ ایسے سوال ہیں جس کا جواب خود سادھوی نرنجن جیوتی ہی دے سکتی ہیں کیونکہ جس پر گذرتی ہے اس کا درد کوئی اور اچھی طرح بیان نہیں کرسکتا ویسے بھی ہمارے ملک میں بے شمار خود ساختہ سادھو اور سنت ہیں جو بڑے بڑے آشرموں میں موج مستیاں کررہے ہیں ۔ ان کے پاس بھی شاید سادہ لوح معتقد سادھویوں کا ایک بہت بڑا اسٹاک موجود ہوگا ۔ ہمارے سامنے آسارام اور سنت رامپال داس کی مثالیں موجود ہیں ۔ یہ ڈھونگی خود کو مہاتما کے طور پر پیش کرتے تھے لیکن ان کے آشرموں میں مساج کی میزوں ، مساج کے خصوصی کمروں اور مانع حمل ادویات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ دراصل مذہب کی آڑ میں بھولے بھالے اور سادھ لوح عوام خاص کر خواتین کا استحصال کرتے تھے ۔ ان حالات میں سادھوؤں اور سادھویوں پر بھروسہ کرنا تباہی و بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ جہاں تک سادھوی نرنجن جیوتی کے فحشن بیان کا سوال ہے ۔ ان سے سب سے پہلے یہ سوال کیاجانا چاہئے کہ ملک کے غداروں ، ملک کے دشمنوں ، بے گناہوں ، بے قصور انسانوں کے قاتلوں اور ہندوستان کے مقدس دستور کی دھجیاں اڑانے والوں کو وہ رام زادے کہتی ہیں یا حرام زادے؟
کیونکہ جہاں تک ہم نے اپنے اسکولی زمانے میں شری رام چندر جی کے بارے میں پڑھا ہے ان کے ماننے والے ایسے کام نہیں کرتے جس کے باعث انھیں حرام زادے کہا جائے رام کو حقیقت میں ماننے والے کسی مسجد کو شہید نہیں کرسکتے ۔ کسی گرجا گھر کو نذر آتش نہیں کرسکتے ، بے قصور مسلمانوں اور عیسائیوں کا قتل عام نہیں کرسکتے ، ان کی بیٹیوں ، بیویوں اور بہوؤں کی عصمت ریزی نہیں کرسکتے ۔ یہ تو سب حرام زادوں کے کام ہیں ۔ جب یہ بات طے ہیکہ شری رام چندرجی کے بھگت ایسا نہیں کرسکتے تو 6 ڈسمبر 1992 کو ایودھیا میں ملک کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کرنے والے کون تھے ؟ رام زادے یا حرام زادے ؟ گجرات میں 2002 کے دوران نہتے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے ان کی جائیداد و املاک کو تباہ و تاراج کرنے والے کون تھے ؟ رام زادے یا حرام زادے ؟ 1992 میں ممبئی میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل کرنے والے کون تھے ؟ رام زادے یا حرام زادے ؟ اترپردیش کے مظفر نگر میں بے قصور و غریب مسلم مرد و خواتین کو موت کی نیند سلانے ، ان کی بیٹیوں کے ساتھ منہ کالا کرنے والے کون تھے ؟ رام زادے یا حرام زادے ؟ ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرنے والے کون ہیں ؟ رام زادے یا حرام زادے ؟ یہ ہزاروں سوالات میں سے چند سوالات ہیں جن کا جواب سادھوی نرنجن دیوی تو دور کی بات ہے ان کی پشت پناہی کرنے والے بھی نہیں دے سکتے۔ اس لئے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت میں حرام زادے کون ہیں ۔ سادھوی کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہمارے جنت نشان ہندوستان میں اتحاد و اتفاق کے پھول کھلتے ہیں ، قومی یکجہتی کی خوشبو سے سارا ماحول معطر رہتا ہے ۔ لیکن ہندوستان کے دشمن ہی یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی تخم ریزی کرتے ہوئے اس کی ترقی کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
وہ نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں سیکولرازم پھلتا پھولتا رہے کیونکہ بلالحاظ مذہب و ملت ہندوستانیوںکا اتحاد و اتفاق ہندوستان کے دشمنوں کے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ اسی وجہ سے ہر محب وطن ہندوستانی ان عناصر کو غدار سے تعبیر کرتا ہے جوملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سادھوی نرنجن جیوتی کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہندوستانی خواتین عزت و تکریم کی مجسم ہوتی ہیں وہ بات کرتی ہیں تو جوڑنے کی کرتی ہیں توڑنے کی نہیں ۔ ان کے جسموں میں خون ہوتا ہے فرقہ پرستی کا زہر نہیں ۔ وہ حرام زادیاں نہیں ہوتیں ۔ سادھوی کو سب سے پہلے ہندوستانی خواتین کے نقش قدم پر چلنا چاہئے جد وجہد آزادی کی تاریخ کا بار بار مطالعہ کرنا چاہئے تب اندازہ ہوگا ہمارے ملک کی تہذیب کیا ہے ۔ سادھوی نرنجن کے بارے میں یہی رائے پائی جاتی ہیکہ جس طرح منشیات کے عادی منشیات کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں وہ فرقہ پرستی کے زہر اگلنے کی لعنت میں مبتلا ہے اس نے پہلی بار زہر نہیں اگلا بلکہ عام انتخابات کے دوران بھی اسی طرح کی فحش کلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر رکھا تھا ۔ سادھوی کے ایک سابقہ قریبی ساتھی اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے معطل لیڈر بھانو سنگھ پاٹل کے خیال میں سادھوی نرنجن جیوتی کسی کی بھی عزت نہیں کرتی (ویسے بھی وہی لوگ دوسروں کی عزت کرتے ہیں
جو خود عزت دار ہوتے ہیں) ۔ اترپردیش میں دومرتبہ اسمبلی انتخابات میں شکست کا مزہ چکھ چکی نرنجن جیوتی کے بارے میں بھانو سنگھ پاٹل نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک مکتوب لکھا تھا جس میں انھوں نے سادھوی کو کابینہ میں شامل کرنے پر حیرت کا اظہار کیا ۔ پاٹل کا کہنا ہیکہ سادھوی نرنجن جیوتی خود بی جے پی میں اپنے مخالفین کو حرام زادے کہتی ہے جہاں تک سادھوی نرنجن کی زہر افشانی کا سوال ہے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ پر مودی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے بلکہ سب کچھ آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول سے ہورہا ہے ۔ مثال کے طور پر یوگی ادتیہ ناتھ نے ’’لو جہاد‘‘ کا نعرہ بلند کرکے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا تھاکہ اگر ایک ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے تو ہم سو مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کردیں گے ۔ ہمیشہ ایک بندرکو اپنے گود میں بٹھائے رکھنے کے عادی یوگی ادتیہ ناتھ نے مرکزی کابینہ میں شمولیت کے لئے بہت قلانچیں ماریں لیکن وہ کابینہ میں اپنی جگہ نہ بناسکے ۔ اسی طرح ساکشی مہاراج نے 24 ستمبر کو ایک اشتعال انگیز بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ میڈیا نے جب اس بیوقوف کو اس کا مقام دکھایا تب وہ ایسے دبک گیا کہ اب اس کی بھونک سنائی نہیں دیتی ۔ اگر ایسے عناصر بار بار یا وقفہ وقفہ سے اشتعال انگیز بکواس کرتے رہیں تو اس کا نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی منفی اثر پڑے گا ۔ پہلے ہی سے عالمی سطح پر فرقہ پرستی اور اقلیتوں کے ساتھ فرقہ پرستوں کے ناروا سلوک کے باعث ہندوستان کی شبیہ بہت خراب ہے ۔ مودی اس بات کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے لیکن اگر ملک میں اس طرح کی بیان بازی جاری رہے فرقہ وارانہ ماحول خراب ہو ، لڑائی جھگڑے عام ہوجائیں تو بیرونی سرمایہ کاری تو دور ملکی سرمایہ کاروں کے حوصلے بھی پست ہوجائیں گے ۔ مودی کو اصولاً تو یہ چاہئے کہ وہ سادھوی نرنجن کو کابینہ سے برطرف کردے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے اس لئے کہ ان کی رسی آر ایس ایس قیادت کے ہاتھوں میں ہے ۔
خوشی کی بات یہ ہیکہ سادھوی کی فحش گوئی نے منتقم اپوزیشن کو متحد کردیا ہے اور پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود بی جے پی حکومت کو بڑی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ اگر اس وزیر کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک ملامت یا مذمتی قرارداد پیش کی جا کر منظور کی جائے تو یہ ہندستان کی سیکولر روایات کی جیت ہوگی ۔ سادھوی نرنجن جیوتی اور رام کے نام پر روٹیاں سینکنے والے دیگر بی جے پی قائدین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ویداس اور اپنیشد میں کیا دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں کی توہین کی تعلیم دی گئی ؟ دیکھا جائے تو سادھوی نے ہندوستانی دستور کی توہین کی ہے اسے تعزیرات ہند کی دفعہ 153A کی خلاف ورزی کی پاداش میں جیل کی ہوا کھلانی چاہئے ۔ اس نے ایسا جرم کیا ہے جس کی سزا کم از کم 3 سال ہوتی ہے جس سے ہوسکتا ہیکہ بکواس کی عادی اس سادھوی کی عقل ٹھکانے آجائے ۔ دوسری طرف افسوسناک بات یہ ہیکہ مودی پارلیمنٹ میں یہ کہہ کر سادھوی کی تائید کررہے ہیں کہ وہ ایک دیہاتی ہے ، دلت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مودی کو یہ بتانا چاہئے کہ وہ رام زادی ہے یا حرام زادی ۔ جہاں تک ہم ہندوستانیوں کا سوال ہے ہر محب وطن ہندوستانی اور بلالحاظ مذہب و ملت قومی یکجہتی کا خواہاں ہر شہری ہماری نظر میں ہندوستانی شہزادہ ہے ۔
mriyaz2002@yahoo.com