سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ…

عرب و عجم
محمد مبشرالدین خرم
سرزمین عراق پر جاری جنگی حالات سے نہ صرف عرب ممالک خدشات کا شکار ہیں بلکہ مغرب بھی ان حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے کہ یہ حالات کیونکر پیدا ہوئے اور ان کی وجوہات کیا ہیں ؟ شورش زدہ شام میں ہوئے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بشارالاسد کو کامیابی حاصل ہونے کے فوری بعد عراق میں عسکری تحریک کے عروج نے دنیا کو متوجہ کرلیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عراق میں 2003 ء کی جنگ کے بعد سے حالات معمول پر آچکے ہیں۔ نورالمالکی حکومت کی جانب سے اختیار کردہ جانبدارانہ رویہ کے سبب عراقی عوام میں جو صورتحال پیدا ہوئی تھی، وہ اب ایک آتش فشاں بن کر پھوٹ رہی ہے۔ سر زمین عراق سے صرف پڑوسی ممالک کے مفادات وابستہ نہیں ہیں بلکہ تیل کی دولت سے مالا مال مملکت عراق سے دنیا بھر کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ عراق میں موصل پر مسلح عسکریت پسندوں کے قبضہ کے بعد پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں عراقی حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ عراق کے زمینی حالات ہیں چونکہ عراق میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کا بعد جو صورتحال پیدا ہوئی تھی ، اس سے مملکت عراق اب بھی سنبھل نہیں پائی ہے ۔ جس وقت امریکہ نے عراق پر بڑے پیمانہ پر تباہی مچانے والے ہتھیار کی تیاری کا الزام عائد کرتے ہوئے حملہ کیا تھا، وہ ہتھیار تو برآمد نہیں ہوئے لیکن سرزمین عراق پر امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہوگئی جوکہ امریکی اشاروں پر مسلکی اختلافات کو فروغ دیتے ہوئے عالمی سطح پر حالات کو ابتر کرنے کی اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہورہی ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے شام میں جاری شورش اور باغیوں کی جانب سے اقتدار کے خلاف جنگ کے بعد پیدا شدہ صورتحال نے اطراف و اکناف کی کئی مملکتوں کے چہروں سے نقاب الٹے ہیں لیکن ان پورے معاملات کے دوران جب مصر میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ ’’مصر‘‘ عالم عرب اور غیر منقسم بلد الشام کی قیادت و رہنمائی کرتے ہوئے تبدیلی کے ایک نئے دور کے آغاز کا نقیب ثابت ہوگا لیکن جلد ہی مصر کے انقلاب پر قابو پانے میں مخالفین کو کامیابی تو حاصل ہوگئی مگر یہ لوگ شام و عراق کی سرزمین پر یہ کامیابی حاصل کرنے سے آج بھی قاصر ہیں چونکہ اس سرزمین کی تاریخ اسلام سے گہری وابستگی ہے اور قیامت کے نشانیوں میں بھی اس سرزمین کا کئی مقامات پر تذکرہ موجود ہے۔ عراق میں آرہی تبدیلیوں کے مشاہدہ سے زیادہ عالم اسلام کو فی الحال عراق کے حالات سے دیگر ممالک کے نظریات میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنی ضروری ہے چونکہ ان حالات میں کئی ممالک کی سرگرمیوں میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کے نظریات میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔

شام میں جاری شورش کے دوران شام کے مقتدر طبقہ نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ ترکی اور قطر پر اس بات کا الزام عائد کیا تھا کہ شام میں پیدا ہونے والی شورش کیلئے یہ ممالک ذمہ دار ہیں لیکن مصر کی صورتحال نے کئی نقاب الٹ دیئے اور اس انقلابی کیفیت کے دوران قطر نے مصر میں اخوان کی پر زور حمایت کرتے ہوئے اپنے نظریہ کو واضح کردیا۔ اب جبکہ عراق پر جنگی کیفیت طاری ہے اور عسکری تنظیم ’’داعش‘‘ کی جانب سے عراقی شہروں پر کنٹرول حاصل کیا جانے لگا ہے ۔ ایسی صورت میں نور المالکی حکومت کی جانب سے یہ کہا جانا کہ سعودی عرب عراق میں عسکری مسلح گروپس کو امداد فراہم کر رہا ہے ۔ اس بات کی دلیل ہے کہ نورالمالکی حکومت بالواسطہ طور پر نہیں بلکہ راست ان حالات کیلئے سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ عراق میں پیدا شدہ حالات کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے ایران نے حکومت عراق کی مدد کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس کے فوری بعد امریکہ و برطانیہ کے حلیف کے طور پر عراق میں عسکری مسلح گروپوں سے جنگ کیلئے آمادگی پر غور کرنے کے فیصلہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عراق کے معاملہ میں ایران کے نظریات نہ صرف تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں بلکہ وہ امریکہ و برطانیہ جیسے اپنے حریفوں کو عراق کے مسئلہ پر حلیف بنانے بھی تیار ہے۔ بلد الشام (غیر منقسم سرزمین شام) کے متعدد واقعات و حالات تاریخ اسلام میں موجود ہیں اور اس خطہ زمین کو مذہبی اعتبار سے کافی اہمیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خطہ زمین سرزمین پیغمبران و اولیاء ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ شام میں جہاں کئی پیغمبران کے علامات موجود ہیں، وہیں عراق میں صحابہ اکرام و اولیاء اکرام کی بارگاہیں موجود ہیں۔ عراق کی جنگی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اس خطہ زمین پر ہونے والی جنگوں نے نہ صرف اس ملک کے باشندوں کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ عالم اسلام کو بھی منقسم کرنے میں اس خطہ کی جنگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اب جبکہ عالم اسلام ایک مرتبہ پھر مختلف مسلکوں کے درمیان موجود اشتراکیت کی بنیاد پر متحد ہونے جارہا تھا ، ایسی صورت میں اس خطہ میں جنگی ماحول کا پیدا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک مرتبہ پھر مخالفین اسلام فرزندان توحید کو مسلک کے خانوں میں منقسم کرنے کی سازش پر اتر آئے ہیں اور ان کی یہ سازشیں کس حد تک کامیاب ہوں گی، اس کا اندازہ لگانا دشوار کن ہے۔ عراق کی موجودہ صورتحال کیلئے نہ صرف حکومت عراق کی جانبداری ذمہ دار ہے بلکہ پس پردہ محرکات میں امریکی و اسرائیلی مفادات کے علاوہ فلسطین میں جاری حالات سے عالم اسلام کی توجہ ہٹانا شامل ہے۔ موجودہ حالات میں اگر کسی صورت عراق پر امریکی افواج دیگر حلیفوں کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں نہ صرف عراق کے حالات خراب ہوں گے بلکہ اس خطہ زمین کے علاوہ دیگر ممالک میں رہنے والے ’’داعش‘‘ کے نظریات کی حمایت کرنے والے گروپس بھی سرگرم عمل ہوجائیں گے ، جنہیں روکنا امریکہ کیلئے انتہائی دشوار کن ثابت ہوگا۔ امریکہ و اسرائیل کے مفادات جن ممالک سے وابستہ ہیں، ان میں اہم ترین سرزمین غیر منقسم بلد الشام بھی شامل ہیں بلکہ یہ خطہ زمین صیہونی قوتوں کیلئے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے چونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا زوال اسی سرزمین سے شروع ہوگا ۔

عراق میں جاری جنگ کی صورتحال کے خاتمہ کے نام پر اگر امریکہ ، برطانیہ اور ایران حملہ آور ہوتے ہیں تو جو جنگجو عراق میں جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اطراف و اکناف کے ممالک میں بھی پھیل سکتے ہیں۔ ان خدشات کا کھل کر اظہار عرب ممالک کے اخبارات کے علاوہ مغربی ممالک کے اخبارات میں بھی کیا جانے لگا ہے ۔ العربیہ میں شائع ایک مضمون کے مطابق داعش کو عراق میں حاصل ہونے والی کامیابی کی بنیادی وجہ بعث پارٹی بھی ہے جو کہ نورالمالکی حکومت کے خلاف سرگرم ہے۔ علاوہ ازیں وہ لوگ بھی داعش کے ساتھ جدوجہد کا حصہ بن رہے ہیں، جو صدام حسین کے دور حکومت میں عراقی افواج میں شامل تھے جنہیں نورالمالکی حکومت نے فوج سے برطرف کردیا تھا ۔ القاعدہ ، طالبان کے علاوہ وہ تنظیمیں جو قیام خلافت کی تحریک و جدوجہد میں شامل ہیں، عراق میں جاری داعش کی جنگ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس طرح کے دعوے مغربی ذرائع ابلاغ اداروں کی جانب سے کئے جارہے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے بعض گوشے یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ عراق میں اقتدار ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کے ہاتھ میں جارہا ہے جبکہ امریکی اخبارات کے بعض گوشے عراق میں امریکی مداخلت کی سخت گیر مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ ان امریکی اخبارات کا احساس ہے کہ عراق میں امریکی افواج کی مداخلت امریکی مفادات و سکیوریٹی کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق عراق میں عسکری تنظیموں نے جن علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے ، ان میں ایرانی سرحد سے قریب علاقے موصل ، تکریت، سلیمان بیگ، تل عفیر شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ترکی و شام کی سرحد سے متصل علاقے الرقہ ، دائر الزور ، سقلاویہ، فلوجہ وغیرہ شامل ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے بعض گوشوں کی جانب سے امریکی مداخلت پر تنقید کے ساتھ خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی صدر بارک اوباما نے فوجی مشیران عراق روانہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عراق میں امریکی مداخلت کے شام تک وسعت حاصل کرجانے کا بھی خدشہ ہے اور ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اطلاعات کے بموجب امریکہ عراق کی صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کے دوران ’’داعش‘‘ کو مکمل طور پر کچلنے کا عزم رکھتا ہے۔ جزائر عرب کے علاوہ مشرق وسطی میں جو داعش کا نظریہ فروغ پارہا ہے اس کے اثرات آسٹریلیا ، یوروپ و برطانیہ پر بھی مرتب ہونے لگے ہیں۔ مغربی و عربی ذرائع ابلاغ کے مطابق عراق میں 200 سے زائد آسٹریلیائی نوجوان داعش کے ہمراہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی طرح یوروپ و برطانیہ کو بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ یوروپی و برطانوی نوجوان بھی ان جنگجو گروپوں میں شامل ہیں جو بلدالشام کی سرحدوں میں سرکاری افواج سے نبرد آزما ہیں۔ امریکی صیانتی اداروں کو اب اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ افغانستان ، عراق کے علاوہ دیگر علاقوں بالخصوص لیبیا ، مصر و شام میں جو حالات پیدا کئے گئے ہیں، اس کا نظریاتی ردعمل شروع ہوچکا ہے اور اب امریکہ اس نظریہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے مختلف حربے اختیار کرنے میں مصروف ہے۔