سادات بنی ہاشم کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کیا زکوۃ بعنوان نذر سادات بنی ہاشم کو دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : زکوۃ کے معنی خالصۃً للہ ہاشمی یا اسکے غلام سے ہٹ کر کسی مسلمان فقیر کو مال کا مالک بنانا اس شرط کے ساتھ ہے کہ مالک بنانے والے کا اس میں کوئی نفع متعلق نہ ہو۔ لہذا غیر مسلم یا مالدار یا ہاشمی یا اس کے غلام کو مال دے ، یا کسی منفعت کی بناء مال دے ، یا خالص اللہ تعالیٰ کے لئے نہ ہو، یہ تمام امور منافی زکوۃ سے ہیں، اس طرح زکوۃ ادا نہ ہوگی۔ چنانچہ کتاب الزکاۃ عالمگیری جلد اول صفحہ ۱۷۰ میں ہے: وأما تفسیرھا فھی تملیک المال من فقیر مسلم غیر ھاشمی ولا مولاہ بشرط قطع المنفعۃ عن الملک من کل وجہ للہ تعالیٰ ، ھذا فی الشرع کذا فی التبیین اور ہدایہ جلد اول کتاب الزکاۃ صفحہ ۱۸۶ میں ہے: ولا تدفع الی بنی ھاشم لقولہ علیہ السلام یابنی ھاشم ان اﷲ تعالیٰ حرم علیکم غسالۃ الناس وأوساخھم وعوضکم منھا بخمس الخمس۔
لہٰذا سادات بنی ہاشم کو زکوۃ بعنوان نذرانہ دینا مفتیٰ بہ قول کے مخالف ہے

حالت ِروزہ میں کسی چیز کا چکھنا
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک روزہ دار نے پان یا تمباکو قصدامنہ میں چباکرتھوک دیا، مگر حلق کے اندر جانے نہیں دیا پھر کلی کرکے منہ صاف کرلیا۔
ایسی صورت میں اس کے روزہ کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعا روزہ دار کو بلاعذرشرعی کسی چیز کا چبانا یا چکھنا مکروہ ہے تاہم اگر اس نے کوئی چیز چبائی اور اس کا مزہ اس کے حلق میں نہیں گیاتو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ وکرہ ذوق شیء ومضغہ بلاعذر کذافی الکنز۔عالمگیری جلد اول ص ۱۹۹ اور ۲۰۳میں ہے وان مضغھا لایفسد الا ان یجد طعمھا فی حلقہ وھذا حسن جدا فلیکن الاصل فی کل قلیل مضغہ کذا فی القدیر۔ پس صورت مسئول عنہا میں جس شخص نے پان یا تمباکو قصدا چباکر تھوک دیا اور اس کا مزہ حلق میں نہیںگیا تو اس کا یہ عمل مکروہ ہے اگرچہ روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر اس کامزہ حلق میں گیا ہوتو عمدا یہ عمل کرنے کی وجہ اس پر قضاء وکفارہ ہردولازم ہونگے۔ عالمگیری جلداول ص۳۰۵میں ہے : اذا اکل متعمدا ما یتغذی بہ یلزمہ الکفارۃ ھذا اذا کا ن مما یؤکل للغذاء او للدوائ۔

رمضان میں تین روز کا اعتکاف
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کسی مسجد میں رمضان میں صرف تین روز کا اعتکاف ہوتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کافی ہے، جبکہ زید کہتا ہے کہ اعتکاف دس دن کا کرنا ہے ورنہ تمام محلہ کے لوگ گنہگار ہوں گے۔ شرعی حکم کیا ہے بیان کیجئے؟
جواب : رمضان المبارک کے آخری دہے کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایۃ ہے۔ محلہ کی مسجد میں مکمل آخری دہے میں کوئی نہ کوئی اعتکاف رکھنا چاہئے ورنہ سب گنہگار ہوںگے۔ الدرالمختد جلد ۲ باب الاعتکاف ص ۱۴۱ میں ہے : (وسنۃ مؤکدۃ فی العشر الاخیر من رمضان) ای سنۃ کفایۃ کما فی البرھان و غیرہ ۔ اور ردالمحتار میں ہے : قولہ (ای سنۃ کفایۃ) نظیرھا اقامۃ التراویح بالجماعۃ ۔ فاذ اقام بھا البعض مسقط الطلب عین الباقین ۔ فقط واللہ أعلم