ساحر کی شاعری میں صدائے احتجاج

ڈاکٹر مسعود جعفری
ساحر نے رومانی شاعری کی ۔ زلف و رخسار کی باتیں کیں ۔ عارض و پیکر کے نغمے چھیڑے ۔ ہجر جاناں میں اپنی شامیں اداس کیں ۔ راتوں کو جام و سبو میں ڈبونے کی کوشش کی ۔ صبحوں کو اشکوں سے دھونے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے ۔ بے خیالی میں گنگنانے لگے ۔
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
زندگی کے حسین موڑ پر معشوق کی نکہت بھری قربتوں میں دریا کی موج کی طرح لہرانے لگتے ہیں ، کیف و سرور کا عالم دیکھئے۔

رواں ہے چھوٹی سی کشتی ہواؤں کے رخ پر
ندی کے ساز پہ ملاح گیت گاتا ہے
تمہارا جسم ہر ایک لہر کے جھکولے سے
مری کھلی ہوئی بانہوں میں جھول جاتا ہے
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح
ساحر کا خوبصورت خواب تعبیر کی تلاش میں بھٹکتا رہا ۔ اس کی محبت منزل پر پہنچ کر بھی پیاسی رہی ۔ اسے خوشیاں راس نہیں آئیں ۔ اس کی نس نس میں تلملاہٹ بھرگئی ۔ وہ اپنے ٹوٹے ہوئے سپنے کی کرچیاں لئے سانس لیتا رہا ۔ اس کا وجود آتش فشاں لاوا بن گیا ۔ اس کی آنکھوں سے گرم آنسو کے قطرے ٹپکنے لگے ۔ وہ سرتاپا ایک احتجاج بن گیا ۔ اس نے سماجی بندھنوں اور بورژوائی رسموں کو چیلنج کیا ۔ اب اس کا لہجہ شراب کی طرح تند ہوچکا تھا ۔ وہ دنیا کے فرسودہ رواج سے بیزار ہوگیا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ پورا معاشرہ ایک تاریک زنداں بن گیا ہے ۔ اس کی اونچی دیواریں اسے کاٹ کھارہی تھیں ۔ وہ پھیلتے ہوئے اندھیرے میں روشنی کا سراغ ڈھونڈ رہا تھا ۔ اب وہ عشق و رومان کے آسمان سے حقیقت کی تپتی ہوئی زمین پر قدم رکھ چکا تھا ۔ اس کا رویہ اور تیور تبدیل ہوچکے تھے ۔ اس کی سوچ اور فکر میں کھلبلی مچ گئی تھی ۔ وہ پل پل بے چین اور مضطرب رہنے لگا تھا ۔ خوابوں کا کال پڑگیا تھا ۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ اس کی شاعری میں آگ بھرجائے گی ۔ اس کے سینے میں انقلابی لہریں مچلنے لگیں ۔ وہ سماجی و سیاسی ناانصافیوں پر تڑپنے لگے وہ انسانیت کے بہتے ہوئے لہو پر ملک و قوم کے رہنماؤں سے سوال کرنے لگے ۔

جمہور سے یوں دامن نہ چھڑا
اے رہبر ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
ساحر نے ان شعروں میں ہندو مسلم سکھ عیسائی کا حوالہ کہیں نہیں دیا ۔ اس نے عوام یعنی جمہور کا لفظ استعمال کیا جس میں آفاقیت ہے ۔ کسی خاص طبقہ یا فرقہ کی تخصیص نہیں ہے ۔ اس کی آواز کی لَے اونچی ہے وہ رہبروں سے جواب مانگ رہا ہے ۔ یہ بے باکانہ انداز بیان اسے اپنے ہم عصروں سے ممتاز کردیتا ہے ۔ وہ ان سے دو قدم آگے نکل جاتا ہے ۔ اس کی عوامی مقبولیت بے انتہا ہوجاتی ہے ۔ ساحر نے ہمیشہ وقت کے جبر و استبداد کے خلاف حق و صداقت کا پرچم اٹھالیا ۔ اپنے پیام سے لوگوں کے دلوں میں عزم و ولولہ پیدا کیا ۔ انہیں عصری شعور سے بہرہ ور کیا ۔ ساحر کا لب و لہجہ قحط بنگال پر ترش ہوجاتا ہے ۔ وہ غیظ و غضب کے عالم میں سوال کرنے لگتا ہے ۔ پوری نظم ایک سوالنامہ ہے ۔ شاعر کا مخاطب وہی سیاستداں ہے جو سارے فتنہ و فساد کی جڑ ہے ۔ لفظیات کے اندر چھپی برق تپاں کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی یہ نظم ایک احتجاج ہی نہیں ایک زبردست سماجی چیلنج ہے جس سے ایوان اقتدار دہل اٹھا ۔ سیاستداں منہ چھپانے لگے ۔ اس نظم میں عوام کی زبوں حالی اور کسمپرسی کی بھرپور ترجمانی کی گئی ہے ۔ نظم کے بند ملاحظہ کیجئے

جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو!
نظام نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ اس پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
نظم پُراثر بند پہ ختم ہوتی ہے اور دل و دماغ پر گہرا نقش مرتب کرتی ہے ۔ قاری نظم کی فضا میں گم ہوجاتا ہے ۔اس طرح بنگال پر لکھی گئی نظم احتجاج کا منشور بن جاتی ہے ۔ آخری بند دیکھئے
پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ نو کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
ساحر امن کے پیامبر تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی جنگ بازوں اور موت کے سوداگروں کی مذمت کی ، اخوت و بھائی چارگی اور شانتی کا حلف اٹھایا ۔ ان کی وابستگی بنی نوع انسان سے تھی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کرۂ ارض پر تباہی و بربادی کا عفریت رقص کرے ۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھی تھیں اور وہ تیسری عالمگیر جنگ سے دنیا کو بچانا چاہتے تھے ۔ انہوں نے امن عالم کے موضوع پر طویل نظم پرچھائیاں لکھی اور تیسری جنگ عظیم کے ہولناک انجام سے دنیا کو آگاہ کیا ۔ ساحر دونوں جنگوں کا تقابل کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
ساحر کو خلوتوں اور جلوتوں کے دھواں دھواں ہوجانے کا اندیشہ تھا اور یہ بے بنیاد بھی نہیں تھا ۔ نازی ازم و فاشزم نے یوروپ میں ساری دنیا میں قیامت برپا کردی تھی ۔ بچے ، بوڑھے ، جوان ، نان شبینہ کے محتاج ہوگئے تھے ۔ پہلی دفعہ جوہری بموں کا استعمال کیا گیا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کھنڈر میں تبدیل ہوگئے ۔ افلاس ، بھوک ، بیماری انسان کا مقدر ہوگئے ۔ ہرسمت واویلا مچ گیا ۔ ایشیا بھی اس کی لپیٹ میں آگیا ۔ دانشور متفکر ہوگئے ۔ وہ بڑھتی ہوئی نراجیت اور فسطائیت کے سیلاب کی روک تھام کے لئے آگے آنے لگے ۔ ساحر نے بھی اپنے قلم کو حالات کی تبدیلی کا ذریعہ بنایا ۔ انہوں نے اس نظم کو ماضی و حال سے مربوط کیا۔ ابتداء سے انتہا تک نظم کی تاثیر باقی رہتی ہے ۔ شاعر کی فکری گہرائی و گیرائی کا پتہ چلتا ہے ۔ دو بحروں میں لکھی گئی نظم اردو ادب کا شاہکار ہے
اس کامیاب نظم کے کئی ٹکڑے احساسات میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں ۔ ساحر نے اپنی شاعری کو لب لعلیں یا چشم نرگس تک محدود نہیں رکھا انہوں نے اسے جور و ستم ، استحصال ، سرمایہ دارانہ چیرہ دستیوں ، بین الاقوامی سازشوں ، سیاسی آمروں کی سفاکیوں کے خلاف احتجاج کی لَے بنادیا ۔ ساحر نے اردو شعر و ادب کو باثروت بنایا ۔ اس کے کینوس کو وسیع تر کیا ۔ ایسے نایاب و نادر موضوعات کا انتخاب کیا جو بیسویں صدی کی شاعری میں اضافہ کہلائے جاسکتے ہیں ۔ اسی لئے ساحر کا شاعرانہ منصب سب سے جدا اور منفرد ہے ۔ اس کی رومانی و احتجاجی شاعری دریا کے دو کنارے ہیں جو الگ ہوتے ہوئے بھی خوبصورت لگتے ہیں ۔ ساحر کی شاعری پر وقت کی دھول نہیں جم سکتی ۔ وہ دیوتاؤں کے لوح و قلم کی طرح متبرک رہے گی ۔آنے والی نسلیں اس کا کلام پڑھ کر جھومتی رہیں گی ۔