سات ماہ کے حمل کو ختم کر کے نکالنا

سوال :  زید کی بیوی حمیدہ کے حمل کا ساتواں مہینہ چل رہا تھا، ڈاکٹر نے “Scanning” کرنے کے لئے کہا۔ رپورٹ کے مطابق بچے کے دماغ میں پانی جمع ہوگیا ۔ پیٹھ پر ایک پھوڑا اور کانٹے ہیں چنانچہ ڈاکٹر نے کہا کہ بچہ کو فوری نکالنا ہوگا ۔ یعنی بچے کو  پیٹ میں ختم کر کے زچگی کے ذریعہ نکالنا ہوگا۔ ورنہ ماں کی جان کو خطرہ ہے۔ اگر نو ماہ تک رکھے رہیں تو کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اگر ویسے ہی رکھ دیا جائے تو زچگی کے وقت خطرہ رہے گا اور بڑا آپریشن کرنے کے بعد بھی بچہ زندہ نہیں رہے گا۔ بچہ کو جلد از جلد نکالنا ہوگا ۔ سات ماہ کے بچے کو پیٹ میں ہی ختم کر کے نکال دیا گیا اور اس کی رپورٹ بالکل درست تھی۔ لیکن زید کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہی بچے کا قاتل ہے۔ برائے مہربانی جواب دیں۔ ایسا کرنے سے کیا وہ گنہگار ہوا۔
نام ندارد
جواب :  اگر طبیب حاذق کی رائے ہو کہ بچہ کی وجہ ماں کی جان بھی جائے گی اور بچہ بھی ز ندہ نہیں رہے گا تو آپریشن کی اجازت ہے ۔ بچہ کو آپریشن سے حسب صراحت سوال نکالا گیا ۔ جو کہ ناگزیر وجوہات کی بناء ضروری تھا تو باپ  اس کے لئے ذمہ دار نہیں، باپ کو بیجا پچھتاوے کی اصلاح کرنی چاہئے۔

ایک حدیث کی تحقیق
سوال :   حال ہی میں میرے ایک دوست سے گفتگو ہوئی وہ ائمہ اربعہ کی تقلید کو ضروری نہیں سمجھتے، گفتگو کے دو ران میں نے کہا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں بنی آدم کا سردار ہوں، اس پر مجھے کوئی فخر نہیں، یہ حدیث شریف ہے تو میرے دوست نے فوری کہہ دیا اس قسم کی کوئی حدیث نہیں۔ آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں اور کس کتاب میں ہے ؟
حافظ مجید خان، ٹولی چوکی
جواب :  سوال میں جس حدیث کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ’’ انا سید ولد آدم ولد فخر ‘‘ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ امام مسلم نے صحیح مسلم جلد 2 ص : 245 کتاب الفضائل باب تفضیل بنینا صلی اللہ علیہ وسلم علی  جمیع الخلائق میں اور امام ترمذی نے جامع ترمذی جلد 2 ص : 201 ابواب المتاقب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں امام ابن ماجہ نے اپنی سنن ابن ماجہ جلد 2 ابواب الزھد باب ذکر الشفاعۃ میں اور امام حاکم نے مستدرک جلد 2 ص 605 کتاب التارے خ ذکر اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ۔ علامہ ابن حبان کتاب الثقات جلد اول ص : 21 میں امام بیھقی نے شعب الایمان جلد 2 ص : 181 باب حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں متن میں معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

کھیل کے میدان میں سجدہ شکر بجا لانا
سوال :  حالیہ عرصہ میں کھیل کود کے میدانوں میں کھلاڑیوں کو سجدہ کرتے دیکھا گیا۔ اکثر پاکستانی کرکٹرس جب کبھی وہ سنچری بناتے ہیں ، فوراً سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔ ان کا یہ عمل بعض لوگوں کو بہت اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کی نعمت کا ببانگ دھل شکرانہ ادا کرتے ہیں اور بعض احباب ان کے اس عمل پر تنقید کرتے ہیں لیکن دریافت کرنا یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے اس  طرح کا عمل درست ہے یا نہیں
مدثر احمد، مستعد پورہ
جواب :  سجدہ شکر کے جائز ہونے یا نہ ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں البتہ اس کے مسنون ہونے یا واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک کسی نعمت کے حصول پر سجدہ شکر ادا کرنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے لیکن ہر نعمت کے حصول پر سجدہ شکر بجا لانا واجب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نعمت سے سرفراز فرمائے۔ مال و دولت یا اولاد سے نوازے یا گمشدہ چیز مل جائے یا مصیبت ٹل جائے ، کوئی بیمار شفا پاجائے تو ایسے وقت سجدہ تلاوت کی طرح سجدہ شکر ادا کرنا مستحب ہے۔ حاشیتہ الطحطاوں علی مراقی الفلاح ص : 323 میں ہے ۔ قال ابوحنیفۃ ولکن یجوز ان یسجد سجدۃ الشکر فی قت سر بنعمۃ او ذکر نعمۃ فشکرھا بالسجدۃ و انہ غیر خارج عن حد الاستحباب … و صورتھا أن من تجددت علیہ نعمۃ ظاھرۃ … یستحب ان یفعلھا کسجدۃ التلاوۃ۔
سجدہ شکر کا بجا لانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ چنانچہ جب ابو جھل لعنہ اللہ کا سر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا تو آپ نے دشمن خدا کے بدترین انجام پر سجدۂ شکر بجا لایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ یمامہ کی فتحیابی اور مسیلمہ کذاب کے قتل پر سجدہ کرتے ہوئے شکر بجالایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یرموک کی فتح پر اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ذی العذبہ کے قتل پر سجدہ شکر بجا لایا ۔ نیز ابو داؤد کی روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام امت کی شفاعت کی اجازت حاصل ہوئی تو آپ نے سجدۂ شکر بجا لایا۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 323 میں ہے : کسجود ابی بکر لفتح الیمامۃ و قتل مسیلمۃ و سجود عمر عند فتح الیرموک و ھو واد بنا حیۃ الشام و سجود علی عندرؤیۃ ذی العذبۃ قتیلا بالنھر وروی انہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا اللہ ساعۃ ثم خر ساجدا فعلہ ثلاث مرات … و شاھدہ کرأس ابی جھل  لعنہ اللہ لماأتی بہ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والقی بین یدیہ سجد اللہ تعالیٰ خمس سجدات شکرا ۔
پس کسی نعمت کے حصول پر سجدہ تلاوت کی طرح سجدہ شکر ادا کرنا مستحب ہے۔

اہلسنت والجماعت کی وجہ تسمیہ
سوال :   اہل سنت والجماعت سے مراد کیا ہے، اس کی تشریح اور تحقیق بیان کریں تو مہربانی ہوگی ۔ مجھے اہلسنت والجماعت کے عقائد معلوم ہیں لیکن میں اس کی تاریخ جاننا چاہتا ہوں، کب سے یہ اہل سنت والجماعت کا  لفظ مسلمانوں میں عام ہو، اس مذہب کی تائید و حمایت کرنے والے کون رہے۔ براہ کرم مستند کتابوں کے حوالے سے بیان کیا جائے تو عین نوازش ۔
حافظ نصیراللہ، مادناپیٹ
جواب :  اہل السنت کے لغوی معنی ہیں : سنت والے لوگ ۔ سنۃ لغوی اعتبار سے راستہ ، عادات ، رسم اور شریعت کو کہتے ہیں۔ اس اصطلاح سے مراد وہ باتیں ہیں جن کے کرنے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً و فعلاً دیا یا ان سے منع فرمایا (تاج ، بذیل مادہ سنۃ) ۔ امام راغب فرماتے ہیں کہ ’’ سنۃ النبی‘‘ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وہ  طریق ہے جس پر آپ عملی زندگی میں کاربند رہے۔ سنت کی ضد بدعت ہے۔ سنت میں خلفائے راشدین کی سنت بھی شامل ہے  (ابو داؤد، 4 : 281 )۔ حدیث کے الفاظ ہیں: علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (احمد : المسند ، 4 : 126 ، ابو داؤد ، کتاب السنۃ، باب 5 ) ۔
اہل السنت والجماعت کی ترکیب کے بارے میں علماء نے صراحت کی ہے کہ’’ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی طرز زندگی اور طریق عمل کو سنت کہتے ہیں۔ جماعت کے لغوی معنے تو گروہ کے ہیں، لیکن یہاں جماعت سے مراد جماعت صحابہ ہے‘‘۔ اس لفظی تحقیق سے اہل السنت والجماعت کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے، یعنی یہ کہ اس فرقے کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے جن کے اعتقادات ، اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت صحیحہ اور صحابۂ کرام کے آثار ہیں ۔  البغدادی نے ایک حدیث کی بناء پر اہل السنت کی ایک صفت یہ لکھی ہے : الذین ھم ما علیہ ھو و اصحابہ ، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتؐ کے طریقے (سنت) اور آپ ؐ کے اصحاب کے مسلک پر ہیں۔ البغدادی نے اہل السنۃ والجماعۃ ہی کو ’’ فرقۂ ناجیہ‘‘ ۔ قرار دیا ہے۔
مصلحین امت  نے ہر دور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ ایسی ہی ایک کوشش اہل السنۃ والجماعۃ کی جامع اصطلاح ہے، جس کے دائرے میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو لانے کی کوشش کی گئی۔ اہل السنۃ والجماعۃ کی اصطلاح لفظی اعتبار سے اگرچہ دیر کے بعد ظہور میں آئی مگر عملی طور پر ملت کی غالب اکثریت آغاز ہی سے اس پر کار بند تھی اور ایسے مصلحین کی بھی کمی نہیں رہی جو ملت کی وحدت کے لئے ہمہ تن سرگرم رہے، مثلاً الاشعری سے پہلے المحاسبی (م 243 ھ / 857 ء) نے اہل سنت کے عقائد کی تا ئید کی اور اس کے لئے علم کلام کو استعمال کیا ۔ ہر کلمہ گو کو تکفیر سے محفوظ رکھنے کا خیال بھی  ہمیشہ موجود رہا (الشہرستانی : الملل والنحل ، ص 105)
تیسری / چوتھی صدی ہجری میں اہل السنت والجماعت کی تائید و حمایت کے لئے اور معتزلہ کے ردعمل کے طور پر دو طاقتور تحریکیں اٹھیں۔ ان میں سے ایک تو اشاعرہ کی تحریک تھی، جس کے بانی ابوالحسن الاشعری تھے۔ دوسری تحریک ماتریدیہ کی ہے، جس کے بانی ابو منصور الماتریدی (م 333 ھ / 944 ء) تھے ۔ دونوں تحریکوں کا مقصد ایک ہی تھا، یعنی اہل السنت والجماعت کے عقیدے کی حمایت ۔ الاشعری اور الماتریدی بہت سے بنیادی مسائل میں مکمل اتفاق رکھتے تھے، صرف چند ایک فروع میں اختلاف تھا، مگر یہ معمولی نوعیت کا تھا (ظہر الاسلام ، 4 : 92 ) ۔ الماتریدی کے کلامیہ مسلک کی تائید و حمایت جن ممتاز حنفی علماء نے کی ان میں علی بن محمد البزدوی (م 413 ھ) ، علامہ تفتازانی (م 793 ھ ) ، علامہ نسفی (م 537 ھ) اور علامہ ابن الھمام (م 861 ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح امام اشعری کے کلامیہ مسلک کی تائید میں بھی علماء کی ایک بڑی جماعت میدان میں آئی۔ ان میں امام ابوبکر الباقلانی (م 403 ھ) ، عبدالقاہر البغدادی (م 429 ھ) ، علامہ ابن عساکر (م 492 ھ) ، امام غزالی (م 505 ھ) اور امام فخرالدین الرازی (م 606 ھ) کے نام بڑی اہم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں (ظہر الاسلام ، 4 : 73 )
اہل السنت والجماعت کے عقائد کو خلفا و سلاطین کی حمایت و سرپرستی بھی حاصل رہی۔ عباسی خلفاء میں سے خلیفہ المتوکل علی اللہ کے دور میں اہل سنت کے مسلک کا حکومتی سطح پر فروغ ہوا اور اس مسلک کو سرکاری سرپرستی اور حمایت حاصل ہوئی۔ اسی لئے المتوکل کو محی السنۃ (سنت کو زندہ کرنے والے) کا خطاب ملا (مُرُوج الذھب ، 2 : 369 ) ۔ مصر اور شام میں سلطان صلاح الدین ایوبی (م 589 ھ / 1193ء) اور ان کے وزیر القاضی الفاضل نے مسلک اہل السنت والجماعۃ کو سرکاری مذہب کی حیثیت دی۔ بدعات کو ختم کرنے کے لئے فرمان جاری کئے گئے اور مدارس میں مالکی و شافعی فقہ کی تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ (ظہرالاسلام ، 4 : 97 ) ۔ اسی طرح مغربی افریقہ اور اندلس میں بھی مسلک اہل السنت والجماعت کو سرکاری حمایت حاصل ہوئی۔ محمد بن تومرت (522 ھ / 1128 ء) الموحدون کا سربراہ تھا اور اس نے امام غزالی کی خدمت میں زانوے تلمذتہ کیا تھا ۔ جب خدا نے اسے اقتدار بخشا تو اس نے جو کچھ اپنے استاد سے سیکھا تھا اسے عملی طور پر نافذ کیا (ظہر الاسلام ، 4 : 98 )۔ دولت غزنویہ کے سربراہ سلطان محمود غزنوی نے بھی مسلک اہل السنۃ والجماعت کی پر زور حمایت کی اور اسے سرکاری مسلک کی حیثیت دے کر تقویت و تائید بخشی (ظہرالاسلام ، 4 : 99 )