نفرت کا ایجنڈہ … عربی اور اردو کی مخالفت
امیت شاہ واپسی کیلئے تیار
رشیدالدین
ملک کے ہر شعبہ میں زعفرانی ایجنڈہ کے نفاذ کیلئے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے نریندر مودی حکومت کو کٹھ پتلی بنادیا ہے۔ مرکزی حکومت پوری طرح سے سنگھ پریوار کے آگے سرینڈر ہوچکی ہے۔ زعفرانی ایجنڈہ کے اثرات صرف داخلی سطح تک محدود نہیں بلکہ خارجہ پالیسی میں بھی اس کی جھلک صاف طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ نریندر مودی دنیا بھر میں اپنی پیٹھ آپ تھپتھپاتے نہیں تھکتے۔ ہندوستان میں ہر شہری کے مذہبی جذبات کا احترام ، مذہبی آزادی ، رواداری اور ترقی کے یکساں مواقع کے دعوے اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن حقیقت حال کچھ اور ہی ہے۔ متنازعہ ایجنڈہ کو بار بار ہوا دینا، عدم رواداری اور نفرت کی سیاست کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ نفرت کے پرچارکوں کو نہ صرف کھلی چھوٹ دی گئی بلکہ ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی حکومت اور برسر اقتدار پارٹی کی پالیسی بن چکی ہے۔ حکومت اور وزیراعظم کے قول و فعل میں تضاد نے عوام کی نگاہ میں حکومت کے وقار کو کم کردیا ہے۔ بی جے پی اور حلیف پارٹیوں کے قائدین کے شرانگیز بیانات معمول بن چکے ہیں۔ نفرت کی مہم کے تحت گائے کے گوشت کے نام پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عدم رواداری اور ذات پات کی تفریق میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ایک اسکالر کو خودکشی پر مجبور کردیا۔ اعلیٰ طبقات کے تسلط اور پچھڑے طبقات سے نفرت کا زہر یونیورسٹیز کو آلودہ کرنے لگا ہے۔
جہاں سماجی بائیکاٹ کے نام پر دلت طلبہ کے میس میں کھانے اور لائبریری میں داخلہ پر پابندی لگادی ہے۔ حکومت کے 19 ماہ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام فرقہ پرستوں کو کھٹکنے لگا ہے۔ مسلم اقلیت کی مذہبی ، تہذیبی اور لسانی شناخت کو ختم کرنے کی سازشیں ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات استوار کرتے ہوئے دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ترکیبیں اور ٹریننگ لی جارہی ہے۔ نریندر مودی حکومت کو ابھی 19 ماہ مکمل ہوئے ، باقی تین برسوں میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے ، کہا نہیں جاسکتا۔ دہلی اور بہار میں انتخابی ہزیمت اور دنیا بھر میں بدنامی کے باوجود بی جے پی سبق سیکھنے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ شائد سنگھ پریوار کو یقین ہوچکا ہے کہ رائے دہندے دوسری میعاد کیلئے اقتدار نہیں دیں گے، لہذا وہ اپنے خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری کی فکر میں ہے۔ نفرت کی مہم اور نفرت کے سوداگروں کے خلاف مودی نے زبانی باتوں تک خود کو محدود رکھا اور وہ اس کے آگے کر بھی کیا سکتے تھے۔
اب جبکہ اترپردیش ، آسام اور مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں ، لہذا بی جے پی اور سنگھ پریوار ہندوتوا ایجنڈہ کے ساتھ قسمت آزمائی کی تیاری کر رہا ہے تاکہ غیر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں قدم جمانے کا موقع مل سکے، حالانکہ اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ قوم مزید نفرت اور تفرقہ کی سیاست کو قبول کرنے تیار نہیں اور ملک خود بھی ترقی کے بجائے انحطاط کے ایجنڈہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ نفرت انگیز سرگرمیوں کی سرپرستی کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑے گا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ دنوں فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کیا ۔انہوں نے فلسطین کے ساتھ حسب توقع صرف زبانی ہمدردی کا اظہار کیا جبکہ اسرائیل کے ساتھ اہم شعبوں میں باہمی تعاون کے معاہدے کئے گئے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے سشما سوراج کا پہلا دورہ مغربی ایشیا تھا اور اسے نریندر مودی کے امکانی دورہ کی تیاری اور ایجنڈہ طئے کرنے کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ دورہ میں فلسطین کو شامل رکھنا مودی حکومت کی مجبوری تھی، حالانکہ اصل مقصد ہم خیال حلیف ملک سے باہمی تعاون کو فروغ دینا تھا ۔ سشما سوراج نے فلسطین میں کہا کہ ہندوستان کی پالیسی ہمیشہ فلسطین کی حمایت میں رہی ہے اور مودی حکومت اس پر قائم ہے۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو وہ اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات میں فلسطینی آبادیوں پر حملے ، مظالم اور بیت المقدس پر غاصبانہ کنٹرول کے خاتمہ کی بات کرتیں لیکن سشما سوراج نے ہند۔اسرائیل 20 سالہ دوستی کی اہمیت اور مختلف شعبوں میں تعاون کا تذکرہ کیا۔ دراصل فلسطین کا دورہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش کے سواء کچھ نہیں تھا۔ پی وی نرسمہا راؤ دور حکومت میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا آ غاز ہوا تھا اور نریندر مو دی حکومت اسے مزید مستحکم کرنے میں پیش پیش ہے۔ دفاعی اور دیگر شعبہ جات میں اسرائیل سے باہمی تعاون کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لاء اینڈ آرڈر سے نمٹنے کے عصری طریقے دراصل اسرائیل سے لی گئی ٹریننگ کا حصہ ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں اور مذہبی تنظیموں اور ان کی شخصیتوں کو نشانہ بنانے کا فن کس نے سکھایا؟ کشمیر اور نکسلائیٹس سے متاثرہ علاقوں میں کی جانے والی کارروائیاں ، فرضی انکاؤنٹر کے ذریعہ مشتبہ افراد کا صفایا ، یہ تمام اسرائیل سے درآمد کردہ طریقے ہیں۔ پی وی نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کی شہادت اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات جیسے دو کام کئے تھے اور عجیب اتفاق ہے کہ پارٹی جداگانہ ہونے کے باوجود نریندر مودی حکومت دونوں امور کو اپنے ایجنڈہ میں سرفہرست رکھے ہوئے ہے۔ لاء اینڈ آرڈر سے نمٹنے کیلئے پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو اسرائیل میں ٹریننگ دی گئی ۔ سرحد پر دراندازی روکنے کیلئے انتہائی عصری لیزر حدبندی ٹکنالوجی اسرائیل سے درآمد کی جارہی ہے۔ اس ٹکنالوجی کا استعمال فلسطینیوں کے خلاف کیا گیا تھا۔ اگر عرب ممالک سے مفادات نہ ہوتے ، تیل کی ضرورت کا خیال نہ ہوتا اور عرب ممالک میں برسر خدمت لاکھوں ہندوستانیوں سے حاصل ہونے والے بیرونی زر مبادلہ کی فکر نہ ہوتی تو شائد سشما سوراج فلسطین کا دورہ نہیں کرتیں۔
جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ کی ایک تازہ مثال شیوسینا کے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ کا اداریہ ہے جس میں دینی مدارس سے عربی اور اردو تعلیم ختم کرتے ہوئے انگلش اور ہندی کو رائج کرنے کی مانگ کی گئی۔ شیوسینا نے رام مندر کی تعمیر اور یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ رام مندر اور یکساں سیول کوڈ تو بی جے پی کے ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ دیش بھکتی کا دعویٰ کرنے والی شیوسینا کو آخر عربی اور اردو سے کیا دشمنی ہے۔ وہ اردو کی مخالفت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ ہندوستان کی زبان ہے اور بیرونی زبان انگلش کے فروغ کے حق میں ہیں۔ ودیشی کو سودیشی پر ترجیح دینا باعث حیرت ہے۔ شیوسینا چونکہ اردو زبان کی تاریخ اور اہمیت سے واقف نہیں ، لہذا اس طرح کے بچکانی مطالبات کر رہی ہے۔ اردو ہندوستان میں کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی زبان نہیں بلکہ خالص ہندوستانی زبان ہے۔ ملک کی آزادی اور ملک کو متحد رکھنے میں اردو زبان کے رول سے کون انکار کرسکتا ہے۔ مرہٹی تہذیب کے ترجمان بھلا اردو جیسی انقلابی اور محبت کی زبان سے کیا واقف ہوں گے ۔ اگر شیوسینا قائدین اردو سے واقف ہوتے تو شائد مرہٹی کو بھول جاتے۔ دراصل انہیں اردو اور عربی سے نہیں بلکہ دینی مدارس سے تکلیف ہے۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلا دینی مدارس کا جال فرقہ پرست طاقتوں کو برداشت نہیں ، اسی لئے مدارس کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہیں دہشت گردی کے مراکز کہا گیا ہے۔ جہاں تک رام مندر اور یکساں سیول کوڈ جیسے موضوعات کو چھیڑنے کا سوال ہے ، اس کا مقصد اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرنا ہے۔ قوم کو ملک کی عدلیہ پر فخر ہے جو مکمل آزاد اور غیر جانبدار ہی نہیں بلکہ ملک کے سیکولر تانے بانے کے تحفظ کی ضامن ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ پر سپریم کورٹ نے مداخلت سے انکار کردیا اور کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے ۔ ایودھیا تنازعہ پر قوم کو عدلیہ پر مکمل بھروسہ ہے اور انصاف کی امید ہے۔
عدلیہ میں تنازعہ کے زیر تصفیہ ہونے کے باوجود تفرقہ پسند طاقتیں وقفہ وقفہ سے شرانگیزی کے ذریعہ عوام کو بانٹنا چاہتی ہیں۔ اب تو اترپردیش میں مندر کی تعمیر کیلئے پلرس اور اینٹ جمع کرنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ ملک میں زعفرانی ایجنڈہ کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے وزیراعظم کے وزیر باتدبیر امیت شاہ کو دوبارہ بی جے پی کی صدارت پر فائز کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ راج ناتھ سنگھ کے مرکزی کابینہ میں شامل ہونے کے بعد امیت شاہ نے مابقی میعاد کی تکمیل کی تھی لیکن اب انہیں مکمل 3 سال کی مدت کیلئے صدارت پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آر ایس ایس نے امیت شاہ کے حق میں راہ ہموار کردی ہے۔ بہار کی حالیہ شکست سے بی جے پی نے سبق نہیں سیکھا ہے۔ حالانکہ امیت شاہ کے متنازعہ ریمارکس نے بہار میں بی جے پی کو کشتی کو ڈبودیا تھا ۔ بی جے پی کی شکست کی صورت میں پاکستان میں آتشبازی سے متعلق امیت شاہ کا ریمارک فائدہ کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوا۔ ایسے نازک وقت میں امیت شاہ کو پارٹی کی صدارت سونپنا بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی صدارت کیلئے وزیراعظم کو کسی اور شخصیت پر بھروسہ نہیں ہے اور وہ دونوں اہم عہدوں کو گجرات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ امیت شاہ کا بی جے پی کی صدارت پر انتخاب سیاسی مبصرین کے مطابق مجوزہ اسمبلی انتخابات میں منفی اثرات مرتب کرے گا۔ چونکہ وزیراعظم اور بی جے پی صدر دونوں کا تعلق گجرات سے ہے ، لہذا گجرات میں نظم و نسق پر کسی کا کنٹرول نہیں اور نہ ہی زعفرانی ایجنڈہ کو کوئی روک سکتا ہے۔ اس کی تازہ مثال گجرات یونیورسٹی کے کانوکیشن میں اندریش کمار کی شرکت ہے۔ یہ وہی اندریش کمار ہیں جو 2007 ء اجمیر شریف بم دھماکوں کا ماسٹر مائینڈ ہے لیکن گجرات یونیورسٹی نے اسے سماجی مصلح اور دفاعی ماہر کا نام دیکر مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا جبکہ تقریب میں گورنر بھی شریک تھے۔ بم دھماکوں کے ملزم کو یونیورسٹی کے کانووکیشن میں مدعو کرنا بی جے پی کی ذہنیت اور عزائم کو آشکار کرتا ہے۔ ہندوستان میں ان عزائم کی مزاحمت کرنے والی طاقتیں کمزور ہوچکی ہیں۔ خاص طور پر مسلم اقلیت کے خلاف مظالم پر کوئی مضبوط آواز نہیں جو حکومت کے ایوانوں کو ہلا سکے۔قومی سطح پر مسلمانو ںکی آواز کی کمی صاف طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو خود متحد ہوکر اپنی تہذیب ، شناخت ، زبان اور مذہبی تشخص کے دفاع کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ڈاکٹر بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے ؎
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت