دنیا میں یہ مثال مشہور ہے کہ جب تک لکڑی کا دستہ کلہاڑے کے تیز دھار پھل کا ساتھ نہ دے … کلہاڑا لکڑی کاٹنے کے قابل نہیں ہوسکتا یا یوں کہئے کہ کلہاڑے میں جب تک لکڑی کا دستہ نہ ہو ، لکڑی کاٹنے کا رستہ نہیںنکلتا۔ سرکاری، عوامی اور سیاسی زندگی میں جب تک نیک اور دیانت دار لوگ ہوں گے، سچائی پر جھوٹ غالب نہیں آسکتا۔ ہندوستان اور پاکستان میں ان دنوں دو واقعات کا چرچہ ہے ایک1993ء کے ممبئی سلسلہ وار دھماکوں اور اس کیس میں یعقوب میمن کی ناحق پھانسی اور دوسرا 26/11 کے حملوں میں پاکستان کے رول پر سابق پاکستانی انٹلیجنس کے عہدیدار طارق کھوسہ کے انکشافات نے ہلچل پیدا کردی ہے۔ ان کے بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب برصغیر میں یعقوب میمن کی موت پر مختلف تبصرے ہورہے ہیں۔ ہندوستانی عدلیہ اور حکومت ہند پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ 26/11 دہشت گرد حملوں کے تعلق سے پاکستان کی انٹلیجنس کے سابق عہدیدار کی گواہی سے کیا نتائج برآمد ہوں گے،
یہ غیرواضح ہے، البتہ ہندوستان کے موقف کو یہ تقویت مل گئی ہے کہ ہندوستان میں دہشت گرد حملوں کے لئے پڑوسی ملک پاکستان ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ یعقوب میمن کو دی گئی پھانسی کے خلاف آوازیں اٹھانے والوں کے لئے ہندوستانی جاسوسی ایجنسی یا تحقیقاتی ادارہ ’’را‘‘ کے سابق عہدیدار بی رمن کے احساسات نے دہشت گردی کے الزامات کے باعث پھانسی پر لٹک جانے والے یعقوب میمن کی بے گناہی کو مضبوط کردیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان میں سابق انٹلیجنس عہدیدار بی رمن اور پاکستان میں سابق عہدیدار طارق کھوسہ کے بیانات سے حکومتوں کو ندامت کا احساس دلانے کا کام کریں گے۔ بی رمن نے اپنی تحریروں کے ذریعہ یعقوب میمن کی موت کو انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔ انہوں نے یعقوب میمن کے خلاف عدالتی کارروائیوں سے ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ ناحق اس شخص کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا اور بی رمن کی وفات کے عرصہ بعد وہی ہوا جس کا اندیشہ اس سابق عہدیدار نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ظاہر کیا تھا۔ پاکستان میں صورتِ حال مختلف ہے۔ طارق کھوسہ نے اپنی حیات میں ہی حکومت پاکستان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے،
ان کا مضمون 26/11 حملوں کی سچائی کا آئینہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے تو لشکر طیبہ اور اس طرح کی تنظیموں کے خلاف حکومت کی عدم کارروائیوں کی بھی وجوہات واضح ہوجاتی ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تنظیمیں ہی انسانی جانوں یا انسانیت کے دشمن ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ سابق عہدیداروں کو معروضی حالات کے مطابق اپنی پیشہ ورانہ رائے دینے اور فیصلہ کرنا چاہئے یا نہیں۔ اگر ان کی رائے سچ ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہونا چاہئے جس ملک میں قانون کا راستہ روک کر سیاسی راہداری کو وسعت دی جاتی ہے جس ملک میں مجرموں کے ساتھ نرمی کا معاملہ اور بے قصور اور قانون کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہوں تو وہاں بی رمن کے احساسات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یا طارق کھوسہ کی سچائی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اپنے ہاتھوں کو بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگ لینے کی لہر پر چل رہی ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت واقعات ہیں۔ اگرچیکہ دونوں ملکوں میں جمہوری حکومتیں ہیں۔ انسانی حقوق کے معاملے میں حکومتوں کا کردار خود ان کے سابق عہدیداروں نے مشکوک بنادیا ہے تو عام آدمی کو اس طرح کی حکومتوں کے وجود پر غور کرنے کا وقت آگیا ہے لیکن جو طاقتیں انسانی استحصال پر یقین رکھتی ہیں، وہ اپنے سے زیادہ جابر قوتوں سے ڈکٹیشن لے کر آگے بڑھتی ہیں اور یہ عمل برصغیر میں واضح دکھائی دے رہا ہے۔