سابق ریاست حیدرآباد کا کلچر میر معظم حسین

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ کے حکمرانوں، امراء اور ممتاز شخصیتوں اور اس دور کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر مجھے میر معظم حسین سے متعدد نشستوں میں سیر حاصل گفتگو کا موقع ملا تھا۔ اس گفتگو کے دوران سابق ریاست حیدرآباد کا کلچر بھی موضوع بحث رہا۔ معظم حسین جو ایک بلند پایہ دانشور بھی تھے، ثقافت اور تہذیب کے رشتوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کے خیالات جاننے سے اندازہ ہوا کہ حیدرآباد کا کلچر مختلف ہونے اور اپنی مخصوص شناخت رکھنے کے باوجود برصغیر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب ہی کا جزو تھا۔ جزو ہی نہیں بلکہ اس تہذیب کا حقیقی جوہر بھی تھا۔ یہاں ہندوستان کی ملی جلی تہذیب کا دریا ایک کوزہ میں بند ہوگیا تھا۔ اس مضمون میں ریاست حیدرآباد کے کلچر کے بارے میں معظم حسین کے خیالات اور تاثرات پیش کئے جارہے ہیں۔
حیدرآباد کا کلچر بالکل ہی مخصوص (Distinctive) لکچر رہا ہے۔ کلچر پر گفتگو کرنے سے قبل ہمیں کلچر اور سیویلائزیشن میں فرق کرنا چاہئے۔ سیویلائزیشن ہندوستان کا ہے اور کلچر حیدرآباد کا ہے۔ حیدرآباد کا کلچر ہندوستان کے سیویلائزیشن کا ایک اہم جزو ہے اور ظاہر ہے کہ جزو کل سے علاحدہ اور الگ نہیں ہوسکتا۔ کلچر کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے Culture is a measurement of depth۔ کلچر سے مراد رسم و رواج، حرکات، بول چال، ملنے کے طریقے، مہمان نوازی، کھانے، وغیرہ ہیں۔ حیدرآباد کا ایک مخصوص اور منفرد کلچر اور طرز زندگی صدیوں میں پھلا پھولا تھا۔ حیدرآباد کے کلچر کو مغلوں اور مسلمانوں سے ملایا جاتا ہے۔ حیدرآباد کا کلچر مسلمانوں کا کلچر نہیں ہے۔ دراصل اسے بہمنیوں، وجیانگر، ورنگل (کاکتیہ)، مغلوں، قطب شاہوں اور آصف جاہوں سے ملانا چاہئے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کلچر یہاں کے لوگوں کے باہمی میل جول کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔

حیدرآباد کے کلچر کو گنگا جمنی کلچر اور کاسموپالیٹن کلچر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں ہندو، مسلمان، سکھ، پارسی ایک دوسرے سے الگ اور دور نہیں تھے بلکہ وہ ایک دوسرے سے قریب تھے۔ یہاں پر ہر مذہب اور فرقے کے لوگ ایک دوسروں کی عیدوں، تہواروں، تقریبوں، خوشیوں اور دُکھوں میں شریک ہوتے اور حصہ لیتے تھے۔ یہاں کا ماحول، دوستی، خلوص، وسیع القلبی اور باہمی مدد و تعاون سے عبارت تھا۔ یہاں یک جہتی فطری اور خودرو تھی۔
حیدرآباد کے کلچر کی اپنی ایک انفرادیت اور خصوصیت تھی۔ حیدرآباد کے کلچر کی خصوصیت اتنی نمایاں تھی کہ دُنیا کے کسی بھی حصے میں ایک حیدرآبادی کو اس کے طور طریقوں، بول چال اور رہن سہن کی وجہ سے بہ آسانی پہچان لیا جاتا تھا۔ جہاں تک سیویلائزیشن کے وسیع تر حدود اور معنوں کا تعلق ہے، حیدرآباد کے کلچر کی خصوصیات ہندوستان سے مختلف نہ تھیں۔ حیدرآباد میں ہندوستان کے مختلف حصوں سے لوگ آئے۔ خصوصیت کے ساتھ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد شاعروں، ادیبوں، عالموں، دانشوروں، نظم و نسق کے ماہروں اور سپاہیوں کے لئے حیدرآباد مقناطیسی کشش رکھتا تھا۔

حیدرآباد نے باہر سے آنے والوں کو خوش آمدید کہا اور آنے والوں میں سے اکثر یہیں کے ہورہے۔ حیدرآباد میں انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں پرانے جاگیردارانہ ڈھانچے میں واضح طور پر تبدیلیاں آرہی تھیں۔ اہم عہدوں پر اب اعلیٰ طبقے اور قدیم امراء کی اجارہ داری باقی نہیں رہی تھی۔ تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے ان کی جگہ لینی شروع کردی تھی۔ سالار جنگ اول کی ریجنسی کے دور (1869ء تا 1883ء) میں اس سلسلہ کا آغاز ہوا۔ سالارجنگ اول نے نظم و نسق کے ماہرین اور تجربہ کار لائق افراد کو ہندوستان کے مختلف حصوں سے طلب کیا تھا تاکہ جدید حیدرآباد کی تعمیر کے لئے دوررس اصلاحات نافذ کی جاسکیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں اور آصف سابع کی حکمرانی کے ابتدائی دور میں یہ تبدیلی ابتدائی مراحل طئے کرچکی تھی۔ اُبھرتا ہوا متوسط طبقہ اقتدار کے مراکز اور بااثر سوسائٹی پر اثر انداز ہونے لگا تھا۔ اس طرح حیدرآباد میں اعلیٰ متوسط طبقہ نمایاں ہوا۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے چند اصحاب ایسے تھے جو کسی اور مقام اور علاقے کے بہترین افراد کے ہم پلّہ تھے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان ایسے تھے جو بیرون ریاست سے حیدرآباد آئے تھے اور جنھوں نے حیدرآباد کو اپنا وطن ثانی بنالیا تھا۔
اگر ریاست حیدرآباد کے آخری سو سال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہاں تعصب نہیں تھا۔ تعصب بیرون حیدرآباد کی چیز ہے۔ پہلی جنگ عظیم (1914ء تا 1918ء) کے بعد حیدرآباد میں جو Interactions ہوئے، ان سے تعصب پیدا ہوا اور بڑھتا گیا۔ اس سے قبل یہاں تعصب کی بوباس بھی نہیں تھی۔ ریاست حیدرآباد کے امراء کے گھرانوں میں یک جہتی اور رواداری کی روایات بڑی عام اور مستحکم تھیں۔ نواب فخر الملک بہادر (جناب میر معظم حسین کے دادا) کی رہائش گاہ ایرم منزل میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ تھے، روہیلے تھے اور اچھوتوں کے مکانات پر مشتمل ایک گاؤں تھا۔ بچوں کی تربیت کے لئے انگریز Governesses مقرر تھیں۔ فخر الملک کی جاگیر کے حسابات دیکھنے جو محاسب مقرر تھے، وہ تمام کے تمام ہندو تھے۔ فخر الملک بہادر کے مہاراجا سرکشن پرشاد، شیوراج بہادر اور فرید الملک بہادر کے ساتھ برادرانہ تعلقات تھے۔

حیدرآباد میں ہندو۔ مسلم اختلافات جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ حیدرآباد کا ایسا کلچر رہا ہے کہ یہاں سب گھل مل کررہے۔ دراصل تعصب کی لعنت باہر سے آئی اور وہ بھی ریاست حیدرآباد کے آخری دور میں۔ ایرم منزل میں جس طرح عیدالفطر، بقر عید، محرم اور رجب کی تقاریب منائی جاتی تھیں، اسی طرح دیوالی، دسہرہ اور ہولی کے تیوہار بھی منائے جاتے تھے۔ ایرم منزل کی دیواروں سے ہولی کا رنگ صاف کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ یہاں Christmas Tree کی تقریب بھی منعقد ہوتی تھی اور کرسمس Carols بھی گائے جاتے تھے۔ حیدرآباد کے دیگر امراء کے گھرانوں میں بھی یہ روایات موجود تھیں۔
مہاراجا سرکشن پرشاد باہمی میل ملاپ اور یک جہتی کے علم بردار تھے۔ مہاراجا کے علامہ اقبال اور دوسرے بہت سے ممتاز ادیبوں اور شاعروں سے قریبی تعلقات تھے۔ نواب عماد الملک بہادر، ان کے افراد خاندان، سر اکبر حیدری اور فرید الملک وغیرہ میں تعصب بالکل نہیں تھا۔ حیدرآباد میں 1940ء کے بعد تعصب کی لعنت میں اضافہ ہوا۔ اصل میں یہ زہر ملک اور ریاست حیدرآباد میں انگریزوں کا پھیلایا ہوا تھا۔
حیدرآباد کے کلچر اور اس کے عناصر پر بات چیت کرتے ہوئے میر معظم حسین نے حکمران ریاست اور امراء کے چند واقعات بیان کئے جن سے حکمراں ریاست اور امراء کے گھرانوں کی رواداری، وسیع القلبی، وضع داری، داد و دہش اور اُصول پسندی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نواب میر عثمان علی خان کی تعلیم کے لئے جب کہ وہ ریاست کے ولی عہد تھے، بیرون ریاست سے ایک لائق شخص کو طلب کیا گیا تھا۔ حکمراں ریاست نواب میر محبوب علی خان آصف سادس نے انٹرویو کے بعد انھیں عثمان علی خان کے اتالیق کی حیثیت سے منتخب کرلیا۔ جب منتخب اتالیق دربار سے واپس ہورہے تھے تو انھوں نے آصف سادس سے کہا کہ یہ بات مناسب نہیں کہ آصف سادس کے باورچی خانے پر ہندو مہتمم مقرر رہے۔ آصف سادس کو یہ بات بہت بُری لگی اور انھوں نے ناراض ہوکر ان کا انتخاب منسوخ کردیا۔
جناب معظم حسین کے بیان کردہ ایک واقعہ سے نواب فخر الملک بہادر کی وسیع النظری اور کشادہ دِلی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے۔ نواب محسن الملک کے چھوٹے بھائی مولوی امیر حسن نے جو ریاست حیدرآباد میں اول تعلقدار کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے، ایک دفعہ نواب فخر الملک سے ملاقات کی۔ اس موقع پر مرزا آغا حیدر حسن ان کے ساتھ تھے۔ مولوی امیر حسن نے نواب فخر الملک سے لکھنؤ کے شیعہ کالج کے لئے چندہ مانگا۔ اس پر فخر الملک برہم ہوگئے اور کہا ’’مولوی صاحب! اگر آپ مسلم کالج کے لئے چندہ مانگتے تو میں ضرور چندہ دیتا۔ میں یہ تفرقہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں‘‘۔ مولوی صاحب وہاں سے فوراً واپس ہوگئے۔ کیونکہ نواب فخر الملک ان کے مطالبہ پر ناراض ہوگئے تھے۔

جناب معظم حسین سے یہ واقعہ سننے کے بعد مجھے اسی نوعیت کے دو واقعات یاد آئے اور میں نے حسب ذیل واقعات انھیں سنائے…
جب سرسید احمد خان علی گڑھ میں اقامت خانے کا نقشہ تیار کروارہے تھے تو انھوں نے اس کے احاطے میں شیعہ، سنی طلبہ کے لئے دو علاحدہ مسجدیں بنوانے کا اِرادہ ظاہر کیا تھا۔ اس سلسلہ میں سرسید نے نواب عماد الملک سے صلاح مشورہ کیا۔ عماد الملک نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی اور سرسید سے کہا کہ اگر وہ بھی شیعہ، سنی طلبہ سے ایک مسجد میں نماز نہ پڑھوا سکیں تو یہ بڑی عجیب بات ہوگی اور جب یہ طلبہ یہاں سے تعلیم پاکر نکلیں گے تو ان کے مشن کا کیا حال ہوگا۔ سرسید نے فوراً دو مسجدیں تعمیر کروانے کا اِرادہ ترک کردیا۔
نواب عماد الملک کے بھائی شمس العلماء سید علی بلگرامی کو لکھنؤ سے ایک بڑے بارسوخ دوست نے آل انڈیا شیعہ کانفرنس کی صدارت کے لئے مدعو کیا۔ سید علی بلگرامی نے جواب دیا کہ وہ اس قسم کی کانفرنس کو پسند نہیں کرتے۔ مسلمانوں کے لئے ایک آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس موجود ہے۔
میر معظم حسین نے مہاراجا سرکشن پرشاد کا بھی ایک واقعہ بیان کیا تھا جس سے وضع داری کے علاوہ چھوٹوں سے ان کے مشفقانہ رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ واقعہ نظام کالج میں کمال یار جنگ ریڈنگ روم کے افتتاح سے متعلق ہے۔ چونکہ یہ ریڈنگ روم کمال یار جنگ کے نام سے قائم کیا جانے والا تھا، اس لئے ان ہی سے اس کے افتتاح کی درخواست کی گئی تھی، مگر انھوں نے کہا کہ اس ریڈنگ روم کا افتتاح مہاراجا کشن پرشاد سے کروایا جائے۔ اُس وقت میر معظم حسین نظام کالج کے کالج کیپٹن تھے، اس لئے وہ مہاراجا کے پاس گئے۔ اُس وقت مہاراجا کی طبیعت ناساز تھی، اس لئے انھوں نے معذرت چاہی۔ اس ملاقات کے موقع پر اور بھی لوگ موجود تھے۔ اس لئے مہاراجا نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر یہ لکھ کر معظم حسین کو دیا ’’دستار اُتار دیجئے آپ ہمارے ہیں‘‘۔ معظم حسین نے کہا ’’یہ ہو ہی نہیں سکتا، یہ ہمارے خاندانی طریقے ہیں‘‘۔

ریڈنگ روم کی افتتاح کی دعوت قبول کرنے پر اصرار کرتے ہوئے میر معظم حسین نے کہا کہ وہ دراصل اپنے پھوپھا (کمال یار جنگ) کی خواہش پر انھیں مدعو کرنے آئے ہیں۔ اس پر مہاراجا نے ریڈنگ روم کے افتتاح کی دعوت قبول کرلی۔ مہاراجا مقررہ وقت پر نظام کالج پہنچے اور ریڈنگ روم کے افتتاح کے بعد ایٹ ہوم میں بھی شریک ہوئے۔ ایٹ ہوم میں معظم حسین نے کھانے کی جو اشیاء پیش کیں، مہاراجا نے ان کا دِل رکھنے کے لئے ان تمام چیزوں کو چکھا، حالانکہ اُس وقت ان کا مزاج ناساز تھا۔
نواب میر یوسف علی خان سالارجنگ سوم آرٹ کے سچے قدردان تھے۔ شاعروں، ادیبوں اور نایاب اشیاء کے تاجروں، سیاست دانوں، ہندوؤں اور مسلمانوں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں وہ کبھی فرق نہیں کرتے تھے۔ سخاوت اور داد و دہش حیدرآباد کے امراء کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ اصل میں یہ امراء چھٹے آصف جاہی حکمران نواب میر محبوب علی خان کی روایت پر عمل پیرا تھے۔ سالار جنگ سوم جب دیوڑھی سے باہر نکلتے، اُس وقت سیڑھیوں کے پاس ضرورت مند لوگ کھڑے رہتے تھے۔
سالار جنگ اپنے شاگرد پیشہ ملازم کو دھیمی آواز میں وہاں موجود لوگوں کو پیسے دینے کی ہدایت کے بعد ہی موٹر میں سوار ہوکر باہر نکلتے تھے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ آزادی سے قبل جب جے این چودھری جونیئر آفیسر کی حیثیت سے بلارم پر متعین تھے تو وہ اکثر سالار جنگ کے پاس پنچ کھایا کرتے تھے۔ سالار جنگ سوم کے انتقال پر ہندو۔ مسلمان زار و قطار رورہے تھے۔ اس پر وہاں موجود کسی اہم شخصیت نے کہا تھا ’’یہ تھی حیدرآباد کی تہذیب‘‘۔

جناب معظم حسین ریاست حیدرآباد میں دیگر اعلیٰ خدمتوں پر فائز رہنے کے علاوہ مال و پولیس کے صدر الہام (وزیر) گرگن کے پرسنل اسسٹنٹ بھی رہے۔ گرگن ملک کو آزادی ملنے سے کچھ پہلے ریاست حیدرآباد سے واپس ہوتے ہوئے راز کے کاغذات تلف کردینے کے لئے اپنے بااعتماد اسسٹنٹ جناب معظم حسین کے حوالے کئے تھے۔ وہ جب ان کاغذات کے ڈھیر میں سے ایک ایک کاغذ پڑھ کر نذرآتش کررہے تھے، گرگن کی ایک رپورٹ کی نقل ان کے ہاتھ لگی جو گرگن نے لارڈ دیول وائسرائے ہند کے ملاحظے کے لئے حکومت ہند کو روانہ کی تھی۔
اس رپورٹ میں ریاست حیدرآباد کے نظم و نسق کے مفصل خاکے کے علاوہ اعلیٰ عہدیداروں کی خدمات اور ان کی کارکردگی کے بارے میں بھی رائے درج تھی۔ چونکہ یہ ایک انگریز وزیر کی بھیجی ہوئی راز کی رپورٹ تھی، اس لئے جناب معظم حسین نے اسے توجہ سے پڑھنا شروع کیا۔ انھیں اپنے والد رئیس جنگ کی خدمات اور کارکردگی کے بارے میں توصیفی اور ستائشی کلمات پڑھ کر فخر کا احساس ہوا۔ ان کاغذات کو بھی نذرآتش کردینے سے قبل انھیں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ یہ کاغذات والد محترم کو دکھائے جائیں۔ ان کے والد کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر روز شام کچھ وقت معظم حسین صاحب کے گھر پر گزارا کرتے تھے۔ چنانچہ شام کو جب وہ وہاں آئے، جناب معظم حسین نے راز کی رپورٹ میں ان کے (والد محترم) بارے میں لکھی ہوئی رائے انھیں دکھانے کی کوشش کی۔
عہدیدار بالا کے احکام پر راز کے کاغذات تلف کردینے کی بجائے انھیں دکھانے کی کوشش پر معظم حسین کے والد محترم بہت برہم ہوئے اور کہا کہ مجھے سخت رنج ہے کہ میرے بیٹے سے یہ حرکت سرزد ہوئی ہے اور اس نے اپنے عہدیدار بالا کے بھروسے کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ انھوں نے رپورٹ میں درج رائے پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کی اور باورچی خانے میں جاکر ان کاغذات کو نذرآتش کردیا۔
امراء کے گھرانوں کی ان صحت مند روایات کے ماحول کا عام لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہونا ناگزیر تھا۔ ریاست حیدرآباد میں 5 محرم کو جو لنگر نکلتا تھا، اس میں حکمران، امیر، غریب، ہندو، مسلم سب شریک ہوتے تھے۔ مدرسوں اور کالج کے ہندو۔ مسلم طلبہ میں باہمی محبت اور خلوص تھا۔ ان میں دُوری اور نفرت کا جذبہ نہیں تھا۔ اساتذہ قابل اور لائق تھے اور وہ شاگردوں سے اپنی اولاد کی طرح برتاؤ کرتے تھے۔ ہندو۔ مسلم عہدیداروں میں گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ غرض، سارا ماحول تعصب کی بُرائی سے پاک تھا۔