زکوٰۃ کس شہر میں ادا کریں؟

سوال: میں ہندوستان میں رہتا ہوں اور میرا کاروبار بھی ہندوستان میں ہی ہے مگر میں میرے مال کی زکوٰۃ کسی دوسرے ملک میں نکالتا ہوں کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
حافظ عبدالمقتدر، شاہین نگر
جواب: جس شہر میں مالِ زکوٰۃ ہے اور زکاۃ واجب ہوئی ہے اسی شہر میں زکوٰۃ نکالنا چاہیے چونکہ وجوب زکاۃ کے ساتھ ہی اس شہر کے فقراء کا حق اس مال زکوٰۃ کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے اس لئے دوسرے شہر میں جہاں یہ مال نہیں اس کا زکوٰۃ نکالنا اور وہاں کے فقراء پر تقسیم کرنا مکروہ ہے در مختار کتاب الزکاۃ باب الصرف میں ہے والمعتبر فقراء مکان المال وفی الوصیۃ مکان الموصی وفی الفطرۃ مکان المؤدی عند محمد رحمہ اللہ وھو الاصح لانّ رؤوسھم تبع لرأسہ رد المختار میں ہے قولہ (والمعتبر الخ)ای لا مکان المزکی حتی لو کان ھو فی بلد ومالہ فی آخر یفرق فی موضع المال ۔ابن الکمال،ای فی جمیع الروایات۔بحر،وظاہرہ انہ لو فرق فی مکان نفسہ یکرہ کما فی مسئلۃ نقلھا ۔اسی جگہ حاشیہ میں ہے :قال شیخنا الظاہر اخراج زکاتہ لفقراء البلدۃ التی کان المال فیھا لان قولھم والمعتبر مکان المال ای مکان وقت الوجوب لا وقت الاخراج لأنہ بالوجوب فی بلدۃ تعلق حق فقرائھا بزکاتہ۔

کیا نکاح ثانی کی بناء عورت چڑھاوے سے محروم ہوجاتی ہے ؟
سوال : میرے خاوند کا انتقال ہوا اور میں نے نکاح ثانی کر لیا تو کیا مرحوم خاوند کی چڑھائی ہوئی اشیاء اور اپنے ماں باپ کی دی ہوئی اشیائے جہیز سے کیا میں محروم ہو جاتی ہوں ؟اور کیا مرحوم خاوند کے بھائیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ بالزام نکاح ثانی میرے کو ان اشیاء سے محروم کر دیں اور اشیاء روک لیں؟
محمد عبدالخالق، احمدنگر
جواب: ہر جہیز زوجہ کی ملک ہے اس میں کسی کا حق نہیں ہے اور اشیاء چڑھاوا چونکہ حقیقتاً بطور ہبہ دی گئی ہیں اس لئے یہ بھی زوجہ کی ملک ہیں البتہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ خاوند نے ان اشیاء کو عاریتاً دیا تھا تو اس وقت یہ خاوند کا متروکہ ہے خاوند کے جملہ متروکہ سے مصارف تجہیز وتکفین و مہر و دیگر دَین و وصیت ادا کئے جانے کے بعد زوجہ اگر صاحب اولاد ہے تو اولاد کے ساتھ آٹھواں حصہ اورلا ولد ہے تو چوتھا حصہ پانے کی مستحق ہے در مختار مطبوعہ بر حاشیہ رد المختار مصری جلد ۲ صفحہ ۳۷۵ میں ہے :جھز ابنتہ بجھاز وسلمھا ذٰلک لیس لہ الاسترداد منھا ولا لورثتہ بعدہ ان سلمھا ذٰلک فی صحۃ بل تختص بہ وبہ یفتی ۔رد مختار میں ہے (قولہ لیس لہ الاسترداد)ھٰذا اذا کان العرف مستمرا ان الاب یدفع مثلہ جھازا لا عاریۃ ۔عالمگیریہ جلد ۱ صفحہ ۳۲۷ میں ہے ’واذابعث الزوج الیٰ اھل زوجتہ اشیاء عند زفافھا منھا دیباج فلما زفت الیہ اراد ان یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذٰلک اذا بعث الیھا علیٰ جھۃ التملیک کذا فی الفصول العمادیہ ۔رد مختار جلد ۴ صفحہ ۵ کتاب البیوع میں ہے :وھٰذا یوجد کثیراً بین الزوجین یبعث الیھا متاعا وتبعث لہ ایضا وھو فی الحقیقۃ ھبۃ حتی لو ادعیٰ الزوج العاریۃ رجع؛الخ۔واللہ اعلم بالصواب۔

زنا کے بعد اسی عورت سے نکاح اور نو مولود بچہ کا نسب
سوال : ایک شخص نے ایک عورت سے بغیر نکاح کے وطی کر لیااس کے نتیجہ میں وہ عورت حاملہ ہو گئی اب اس شخص نے حالت حمل میں اس عورت سے نکاح کر لیا ،اب جو بچہ اس عورت کو پیدا ہوگا وہ ولد الحلال سمجھا جائے گا یا والد الحرام ؟
نام …
جواب: صورت مسؤولہ میں اگر نکاح سے کامل چھ مہینہ کے بعد بچہ تولد ہو تو اس بچہ کا نسب مرد ناکح سے ثابت ہو گا اور وہ بچہ ولد الحلال سمجھا جائے گا ۔کیونکہ شرع میں اقل مدت چھ مہینہ ہے ممکن ہے کہ قرار حمل نکاح کے بعد ہو اور قبل نکاح جو حمل زنا کا دکھائی دیتا ہے وہ محض ہوائی ہو۔رد مختار جلد ۳ صفحہ ۳۰۰ کتاب النکاح میں ہے [وکذا ثبوتہ مطلقااذا جاء ت بہ لستۃ اشھر من النکاح لاحتمال علوقہ بعد النکاح وان ما قبل العقد کان انتفا خالا حملا ویحتاط فی النسب ماامکن ] اوراگر نکاح کے بعد چھ مہینہ سے کم میں بچہ پیدا ہو اور مرد ناکح اس کے زنا سے پیدا ہونے کا اقرار کرے تو اس کا نسب ناکح سے ثابت نہ ہو گا اور یقینا وہ ولد الحرام کہلائے گا کیونکہ شریعت میں زانی کا نسب ولد الزنا سے منقطع کیا گیا ہے ،اور اگرمرد ناکح اس کو اپنا بچہ ہونا بیان کرے اور اس کا نسب اپنے ساتھ ثابت رکھے تو پھر وہ اسکی اولاد ہوگی اور ولد الحرام نہیں سمجھی جائے گی اس سے اس کا نسب ثابت ہو گا اور وہ اسکی میراث کا بھی مستحق ہوگا،رد المختار میں اسی جگہ ہے :فلو لا قل من ستۃ اشھر من وقت النکاح لا یثبت النسب ولا یرث منہ الا ان یقول ھٰذاالولد منی ولا یقول من الزنا خانیۃ۔ولا الظاہر ان ھٰذا من حیث القضاء واما من حیث الدیانۃفلا یجوز لہ ان یدعیہ لان الشرع قطع نسبہ منہ فلا یحل لہ استلحا قہ بہ ولذا لوصرح بانہ من الزنا لا یثبت قضاء ایضا وانما یثبت لو لم یصرح لاحتمال کونہ بعقد سابق او بشبھۃ حملا لحال المسلم علی الصلاح۔

غیر مسلم کو تعلیم قرآن
سوال:کفار و مشرکین کو قرآن کی تعلیم دینا درست ہے یا نہیں؟اور دیں تو اس کا طر یقہ کیا ہونا چاہئے؟
محمد سردار، مولانا علی
جواب: قرآن مجید کی تعلیم غیر مسلم کو دی جا سکتی ہے ،قرآن مجید پوری کائنات کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے ،قرآن مجید پارہ ۲ سورہ بقرہ میں فرمایا ھُدَی للنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْھُدَی وَالْفُرْقَان بلکہ اگر کوئی باضابطہ غیر مسلم برادران کو قرآن مجید کی معانی ،مفاہیم اس کے پیغام کو سکھاتا ہے تو بہت بڑی خدمت دین ہے البتہ فقھاء کرام کے کلام پاک کی پیش نظر اور بفحوائے آیت قرآنی لا یمسہ الا المطھرون متن قرآن غیر مسلم کو دینے کو پسند نہیں فرمایا بلکہ ترجمہ یا بغرض ِہدایت زبانی تعلیم دینا درست ہے اور بغیر غسل کے قرآن کو ہاتھ لگانا درست نہیں ۔عالمگیریہ جلد ۵ باب خامس میں ہے : قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ اعلم النصرانی الفقہ والقرآن لعلہ یھتدی ولا یمس المصحف وان اغتسل ثم مس لا بأس بتعلیم القرآن الکفرۃ ۔کبیری شرح منیۃالمصلی مطبوعہ محمدی صفحہ ۴۶۵ تتمات میں ہے :ولا بأس بتعلیم القرآن الکافر او الفقہ رجاء ان یھتدی لکن لا یمس المصحف مالم یغتسل وھٰذا قول محمد وعن ابی یوسف لا یمسہ من غیر فصل ۔فتاوی قاضیخان کی کتاب الخطروالاباحۃ فصل التسبیح والسلام میں ہے :کافر من اھل الذمۃ او من اھل الحرب طلب من المسلم ان یعلمہ القرآن والفقہ قالوا لا بأس ان یعلمہ القرآن والفقہ فی الدین لأنہ عسی ان یھتدی الی الاسلام فیسلم الا ان الکافر لا یمس المصحف ۔واللہ اعلم بالصواب۔

حصول معاش کیلئے عورت کا باہر نکلنا
سوال : کیا مسلمان عورتوں کیلئے پردہ فرض ہے ؟اگر کوئی عورت بوجہ ناداری ومفلسی بے پردہ ہو کر اپنی ضروریات معاش کی فکر کرے تو کیا شرعاً گنہگار ہو گی؟
طاہرہ بانو،خلوت
جواب: آیت حجاب جو نبی کریمﷺکی ازواج مطہرات کی شان میں وارد ہے اس کے ذریعہ ازواج مطہرات پر پردہ فرض کیا گیا ،ان کے سوا دیگر مسلمان عورتوں پر بھی پردہ لازم ہے ،مگر وہ عورتیں جن کا کوئی پرورش کرنے والا اور سرپرست نہیں ہے اپنی ضروریات ِمعاش کے لئے معمولی لباس میں خوب ساتر برقعہ پہن کر باہر جا سکتی ہیں ۔تفسیر احمدی مطبوعہ فتح کریم بمبیٔ کے صفحہ ۶۳۱ میں ہے :ھٰذا ھو المقصود من ذکر الآیۃ فی ھٰذا الموضوع لان موردھا وان کان خاصا حق ازواج رسول اللہﷺ لکن الحکم عام لکل من المؤمنات فیفم منہ ان یحتجب جمیع الناس من الرجال ولا یبدین انفسھن علیھم۔عینی شرح صحیح بخاری جلد ۹ صفحہ۱۰۳ میں ہے :قال عیاض فرض الحجاب مما اختص بہ ازواجہ ﷺ فھو فرض علیھن بلا خلاف فی الوجہ والکفین فلا یجوز لھن کشف ذٰلک فی شھادۃ ولا غیرھا ولا اظہار شخوصھن وان کن مستترات الا ما دعت الیہ ضرورۃ من براز کما فی حدیث حفصۃ لما توفی عمرؓ عنہ سترھا النساء عن ان یری شخصھا ولما توفیت زینب جعلوا لھا قبۃ فوق نعشھا تستر شخصھا ،ولا خلاف ان غیرھن یجوز لھن ان یخرجن لما یحتجن الیہ من امورھن الجائزۃ بشرط ان یکن مستورۃ الاعضاء غیر متبرجات بزینۃ ولا رافعۃ صوتھا۔

ناچ گانے کے پیسوںسے دعوت
سوال: اگر کوئی ناچ گانے کے کمائے ہوئے روپیہ سے کھانا پکاکر دعوت کرے تو کیا اس کی دعوت کا کھانا جائز ہے ؟
محمد ادریس ، کالا پتھر
جواب: اگر ناچ گانے کی اجرت ٹہرا کر اس معاوضہ میں روپیہ حاصل کیا ہو تو ایسے روپے کی دعوت کھانا حرام ہے ۔ الا یہ کہ دعوت کسی اور جائز طریقہ سے آئے ہوئے روپیوں سے دعوت کرے تو اس کا کھانا درست ہے۔رد المختار جلد ۵ کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع میں ہے :فی المواھب ویحرم علی المغنی والنا ئحۃ والقوال اخذ المال المشروط دون غیرہ ۔اسی جگہ ہے :وفی المجتبی ما تاخذہ المغنیۃ علی الغنائ۔عالمگیری جلد ۵ کتاب الکراھۃ باب الھدایا والضیافات میں ہے :آکل الربا وکسب الحرام اھدی الیہ او اضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل ولا یاکل مالم یخبرہ ان ذٰلک المال اصلہ حلال ورثہ او استقرضہ وان کان غالب مالہ حلالا لا باس بقبول ھدیتہ والاکل منھا کذا فی الملتقط۔
پس صورت مسؤول میں موصوف کی کمائی صرف ناچ گانے ہی سے ہو اور یقین ہو کہ وہ ایسے پیسوں سے دعوت کر رہے ہیں تو دعوت میں شرکت کرنا اور کھانا حرام ہے اور اگر آمدنی میں کوئی حلال آمدنی بھی ہے اور وہ غالب ہو تو ایسی دعوت قبول کرنے اور ہدیہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب