زکوٰۃ : اسلامی معاشی نظام

کے این واصف
خلیجی ممالک میں کام کرنے والوں اور خصوصاً سعودی عرب میں برسرکار تارکین سے ان کی زکوٰۃ کی رقم حاصل کرنے رمضان کی ابتداء ہی سے فلاحی تنظیموں اور دینی مدارس وغیرہ کے نمائندے مملکت کے مختلف شہروں کے دورے شروع کردیتے ہیں اور ایک قابل لحاظ رقم یہاں سے حاصل بھی کرلیتے ہیں۔ مستحقین کا زکوٰۃ مانگنا، صاحب نصاب افراد کا زکوٰۃ ادا کرنا ، یہ نظام ساری دنیا میں رائج ہے۔ جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں ، ہم اگر اپنی بات کو ہندوستان کی حد تک محدود رکھ کر ایک سرسری جائزہ لیں کہ ہر سال سارے ملک میں کتنی زکوٰۃ نکلتی ہے تو پتہ چلے گا کہ کس قدر خطیر رقم اس مد میں ہر سال مستحقین میں تقسیم ہوتی ہے ۔ سال2015 ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلم آبادی 18.75 کروڑ ہے ۔ ان میں کم از کم مان کر چلیں تو 1.5 کروڑ مسلمان صاحب نصاب تو ہوں گے ۔ اگر فیملی پر 5000 روپیہ زکوٰۃ بحساب 2.5 فیصد واجب الادا زکوٰۃ کا حساب کریں تو یہ 7500 کروڑ روپ یہ بنتے ہیں جو ایک کمیونٹی کو معاشی پستی سے نکالنے کیلئے بہت بڑی رقم ہے ۔ پچھلے ہفتہ ہم نے نٹ پر روزنامہ سیاست کے انگریزی ایڈیشن میں پڑھا تھا کہ صرف حیدرآباد شہر میں 1000 کروڑ زکوٰۃ تقسیم کی جاتی ہے ۔ اب یہ سارے اعداد و شمار درست ہیں تو یہ حیران کن اعداد و شمار ہیں لیکن پھر بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرتی ہے ۔ یہ ایک دوسری حیران کن حقیقت ہے۔ اب تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں ، دین اسلام کے پیرو ہیں۔ ایک ایسا دین جو دنیا کا صرف اور صرف ایک مکمل دین ہے ۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں مذہب اسلام نے قرآن ، حدیث اور شرعی احکام کے ذریعہ وضاحب و ہدایت نہ کی ہو اور بے شک اس معاشی نظام کے تحت کسب معاش ، تجارتی اصول اور ضوابط ، آپسی لین دین ، آجر و اجیر کے حقوق و فرائض وغیرہ وغیرہ جیسی ہر چیز کی وضاحت و ہدایت دے دی گئی ہے ۔ شعبہ معاشیات کو جو سب سے اہم اور حیرت انگیز نظام جو اسلام نے دیا ہے وہ ہے زکوٰۃ۔ یہ نظام زکوٰۃ دولت کے جمود کو ختم کرنے دولت کو گشت میں رکھنے اور بقائے باہمی کے اصول کا سب سے مؤثر نظام ہے ۔ اسلامی ممالک میں زکوٰۃ کے نظام کو سرکاری ادارے چلاتے ہیں۔ جزیہ ، خراج ، صدقات اور زکوٰۃ کے مال کو ایک مرکز کے ذریعہ منظم کرنے کا طریقہ 1400 سال قبل بیت المال کے ذریعہ اسلام ہی نے پیش کیا تھا۔

سعودی عرب اور دیگر خلیجی و اسلامی ممالک میں زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم سرکاری اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔ بتایا گیا کہ سعودی عرب میں زکوٰۃ کے ذریعہ سالانہ 60 ارب ریال سے زیادہ رقم وصول ہوتی ہے جبکہ یہ سنتے ہیں کہ یہاں بھی کچھ تاجر اور کمپنیان حساب کتاب میں ہیر پھیر کر کے زکوٰۃ کی رقم کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک زکوٰۃ کی رقم سے اندرون و بیرون ملک مسلم مستحقین کی مالی امداد کرتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے جو خلیجی ممالک کی جملہ آبادی سے بھی ز یادہ ہے ۔ بے شک ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی کا بڑا حصہ غریب اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں پر مشتمل ہے لیکن مسلمانوں کا جو متوسط اور متمول طبقہ ہے کی زکوٰۃ غریب مسلمانوں کی کفالت اوران کے حالات بدلنے کیلئے کافی ہے ۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر صاحب نصاب دیانتداروں سے احکامِ شرعی اپنی زکوٰۃ نکالے ۔ زکوٰۃ سے متعلق آگہی پروگرامس کا اہتمام کیا جائے ۔ ہندوستان میں ملت کے دردمندوں کا کوئی گروپ قومی ، ریاستی یا ضلعی سطح پر زکوٰۃ فنڈ کے ادارے قائم کرنے جس کے ذریعہ مسلمانوں کیلئے فلاحی کاموں یا غریب مسلم طلباء کے تعلیمی مصارف برداشت کرے تو مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے میں مدد ملے گی جو وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ زکوٰۃ فنڈکے ادارے مسلمانوں سے اپیل کریں کہ وہ اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اپنے مستحق عزیز و اقارب کی امداد کرنے کے بعد کچھ حصہ زکوۃ فنڈ میںجمع کروائیں۔ جس سے امت کیلئے فلاحی کام کئے جاسکیں۔ ادارے ایسے متوسط مسلمان خاندانوں کی نشاندہی کریں جو بالکل مفلس یا نادار نہیں ہیں مگر ان کی آمدنی اتنی بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اعلیٰ تعلیمی مصارف برداشت کرسکیں۔ ایسے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ہونہار طلباء وطالبات کی خاموشی سے مدد کریں کیونکہ یہ لوگ ضرورتمند ہونے کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ہم آئے دن اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ کچھ غریب مسلم طلباء جنہوں نے اپنی ثانوی تعلیم میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے لیکن اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔ ایسے طلباء و طالبات کی زکوٰۃ فنڈ سے مدد کی جائے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے بینک کو یہ ہدایت کردیتا ہے کہ ان کے کھاتے میں بینک سے ملنے والے منافع یا سود کی رقم جمع نہ کی جائے ۔ بینک کھاتے دار کی اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سود کی رقم بینک کی کسی اور مد میں جمع کرلیتے ہیں۔ اگر زکوٰۃ فنڈکے ادارے کی طرح ایک اور ادارہ قائم ہو جو ملک کے تمام بینکوں میں ایک مشترکہ کھاتہ کھولے جس میں تمام مسلم کھاتے داروں کے سود کی رقم جمع کردی جائے۔ ادارہ مسلم کھاتے داروں سے ربط پیدا کر کے ان سے ایسا کرنے کی تحریری رضامندی حاصل کرے اور بینک میں داخل کردے ۔ اس سے ایک بھاری رقم اس کھاتے میں جمع ہوسکتی ہے جو غریب ونادار مسلمانوں پر خرچ کی جاسکتی ہے یا مسلم مفاد کے ایسے مد یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے جس کی شریعت اجازت دیتا ہے ۔ اس سے ہمارے پیسہ کا صحیح استعمال بھی ہوگا کیونکہ جو مسلمان یہ کہتے ہیں کہ کھاتے میں حاصل ہونے والی سود کی رقم ان کے کھاتے میں نہ جمع کی جائے اور بینک خود یہ رقم کسی بھی مصرف میں لے لے اور شاید بینک یہ رقم اپنی جانب سے کسی فلاحی کام میں صرف کرتے ہوں یا کسی فلاحی ادارے کی مدد کرتے ہوں جس کا ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ ان اداروں کو ہمارا پیسہ جانا چاہئے یا نہیں۔
حالیہ عرص میں جاری اعداد و شمار کے مطابق آج دنیا کی جملہ آبادی 7.5بلین ہے اور دنیا کی جملہ آبادی میں ہر پانچواں فرد مسلمان ہے ۔ دین اسلام نے تمام مسلم مرد و خواتین پر تعلیم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے لیکن دنیا کی جملہ مسلم آبادی میں شرح خواندگی 40 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کے 57 مسلم ممالک میں صرف 500 یونیورسٹیز ہیں جبکہ صرف امریکہ میں 5,760 یونیورسٹیز قائم ہیں۔ بتایا گیا کہ مسلمانوںکی جملہ آبادی کا صرف 2 فیصدحصہ یونیورسٹی کی تعلیم کے درجہ تک پہنچتا ہے جبکہ کرسچن طبقہ میں یہ شرح 40 فیصد ہے ۔ مسلمان جو کبھی سائنسی علوم اور تحقیق کی دنیا کی قیادت کیا کرتے تھے ۔ آج اس میدان میں وہ نہیں کے برابر ہیں۔
ہم پوری دنیا کے تناظر میں دیکھیں یا صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی پستی اور پچھڑے پن کا سبب تعلیم کی کمی ہی قرارپاتی ہے اور تعلیم کی کمی کی وجہ ان کی غربت اور افلاس ہے جبکہ ہمارے پاس زکوۃ جیسا نظام موجود ہے ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ علم حاصل کرنے اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر آگہی مہم مؤثر انداز میں چلائی جائے اور اس مہم کو ہماری مذہبی قیادت کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے ۔ اس طرح ہم اپنے مذہبی احکام کی پابندی کرتے ہوئے دنیا میں بھی کامیابی حاصل کرسکیں گے ۔ بشرطیکہ فنڈ کے چلانے والے اپنے دلوں میں ملت کا درد اور خوف خدا رکھتے ہوں۔

اوپر ہم نے شہری ، ضلعی یا ملکی سطح پر زکوۃ فنڈ کو مرکزی حیثیت دینے کی بات کی۔ مگر یہ چیز اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں یکجہتی ، اتحاد و اتفاق ، قوتِ برداشت ، صبر و تحمل اور ملت کے تئیں جذبہ ہمدردی اور سب سے بڑھ کر خوف خدا ہو اور اگر زکوٰۃ کو مرکزیت کی شکل نہیں دی جاسکتی تو کم از کم متمول خاندان آپس میں متحد ہوں اور اپنے خاندان کی زکوٰۃ ہی کو ایک مشترکہ فنڈ کی شکل دیں۔ پھر خاندان یا اپنے جاننے والے ایسے افراد یا نوجوان جو بیروزگار ہیں ان کیلئے کوئی کاروبار کھڑا کریں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور جلد خط غربت سے اوپر اٹھ سکیں اور پھر خود زکوۃ دینے کی حیثیت میں آجائیں ۔ اس سے آہستہ آہستہ مسلمانوں کی معیشت بہتر ہوگی اور ہمارے سماج سے غربت کا خاتمہ ہوگا۔