آئی ہرک کے اجلاس میں ’’فریضہ زکوٰۃ‘‘ پر مذاکرہ۔ ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی وپروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کے خطابات
حیدرآباد۔ 13 جولائی (پریس نوٹ) زکوٰۃ رکن اسلام، فریضہ دین اور اللہ تعالیٰ کی مالی عبادت ہے قرآن مجید میں نماز کے بعد اسی کا ذکر اور درجہ ہے اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے جن میں سے ایک اہم ستون زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ دینے والوں کے لئے نوید ہے اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لئے سخت وعید ہے۔ چاندی، سونا، مال تجارت اور سائمہ جانوروں پر زکوٰۃ ہے صدقہ فطر بھی زکوٰۃ کے اقسام میں شامل ہے ان سب کی زکوٰۃ ، شرائط اور ضابطے، نصاب اور مدت کی صراحت کے ساتھ مقرر ہیں و نیز مستحقین زکوٰۃ کا بھی تعین فرما دیا گیا ہے۔ نیت ادائی فرض زکوٰۃ ضروری ہے اسی طرح ایک قمری سال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ ادا کر دینا چاہئیے تاخیر و تساہل نہ کیا جائے ۔ جب کہ زکوٰۃ ملت کے مالداروں سے لے کر ملت کے غرباء ، ضرورت مند اور مستحق میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ بندوں سے بندوں کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن خالق کونین اپنے کرم سے زکوٰۃ دینے والے کو مزید مال و دولت سے نوازتا ہے۔علماء کرام اور دانشور حضرات نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی ، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے زیر اہتمام ۱۱۰۳ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے موقع پر منعقدہ موضوعاتی مذاکرہ ’’فریضہ زکوٰۃ‘‘میں حصہ لیتے ہوے ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا۔ مذاکرہ کی نگرانی ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی اہل علم اور باذوق روزہ دار سامعین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے مذاکرہ کا آغاز کرتے ہوے کہا کہ مال ،دولت، جاہ، حشمت اور امارت و ثروت اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں ان کی شکر گزاری کا طریقہ زکوٰۃ کی ادائیگی، صدقات کا دینا، خیرات کرنا اور اللہ کے ان بندوں کو جو غریب و مسکین، فقیر و محتاج اور ضرورت مند ہیں مالی خدمت کرنا ہے۔ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ و ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی نے کہا کہ اموال کی دو قسمیں ہیں، ایک اموال ظاہرہ: مویشی، پیداوار اور مال تجارت اور ایک اموال باطنہ: سونا، چاندی اور نقدی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور بندہ کا راز ہے اموال باطنہ سے متعلق صرف ان اشیاء کا مالک جانتا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا لہذا وہ خود اپنے اموال باطنہ کی زکوٰۃ اپنے ہاتھوںمستحقین زکوٰۃ کو دے۔ ڈاکٹر سید محمد رضی الدین حسان حمیدی اسسٹنٹ پروفیسر ارار یونیورسٹی سعودی عرب نے حوالوں کے ساتھ بتایا کہ مصارف زکوٰۃ آٹھ ہیں لیکن فی زمانہ ہمارے ہاں پانچ مصارف ہی رائج ہیں۔ فقیر، مسکین، قرضدار، فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں تمام ضرورت مندوں کو دے دینا، اور مسافر یعنی حالت سفر میں جس کے پاس کچھ باقی نہ رہا ہو۔ مابقی تین مصارف میں امیر المومنین کی طرف سے وصولی زکوٰۃ کا مقرر کردہ عامل، غلاموں کی آزادی کے لئے اور مولفۃ القلوب یہ تینوں مصارف اب نہیں رہے۔نگران مذاکرہ ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے مسائل زکوٰۃ کی تفصیلات بیان کرتے ہوے کہا کہ زکوٰۃ دینے والے کو شریعت نے اختیار دیا ہے کہ سارے مصارف میں دے یا کسی ایک کو دیدے لیکن مسجد، پل،آبدرخانوں کی تعمیر و مرمت، راستوں کے بنانے، نہر کھدوانے یا تجہیز و تکفین وغیرہ میں زکوٰۃ کا دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ماں ،باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بیٹا، بیٹی،پوتا، پوتی، نواسا ، نواسی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی یا شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی البتہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو ،پھر ان کی اولاد کو،اس کے بعد ترجیح چچا پھوپی اور ان کی اولاد کو، بعد ازاں ماموں خالہ، پھر ان کی اولاد ، مابعد قریبی رشتہ دار، اس کے بعد دور کے رشتہ دار، پھر علی الترتیب ہم پیشہ لوگوں کو، محلے والوں، علاقہ والوں، شہر والوں اور اس کے بعد دوسرے شہر والوں کو ان کی ضرورت و حاجت کے لحاظ سے زکوٰۃ دینا افضل ہے۔آخر میں بارگاہ رسالت مآبؐ میں سلام تاج العرفاءؒ گزرانا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا یہ مقصدی مذاکرہ اختتام کو پہنچا۔ ابتداء میں الحاج محمد یوسف حمیدی نے خیر مقدم کیا اور آخر میں جناب مظہر حمیدی شکریہ ادا کیا۔