زوال کا وقت کب شروع ہوگا اور کب تک رہیگا

حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ، صدر مفتی جامعہ نظامیہ

سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ زوال کا وقت کب شروع ہوتا ہے ؟ پھر کتنی دیر کے بعد ختم ہوتا ہے ؟ اور زوال کے کتنی دیر بعد ظہر و جمعہ کی اذان دی جاسکتی ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب :سورج مکمل بلند ہونے کے بعد سر سے سایہ ڈھلنے لگے تو وہاں سے زوال کے وقت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کی شناخت یہ ہے کہ سایہ مشرق کی طرف بڑھتا جائے۔ اس کے بعد سے سورج جب تک زوال پذیر ہوتا رہے زوال کا وقت رہیگا۔ زوال سے لیکر ہر چیز کا سایہ اس کے اصلی {یعنی عین دوپہر کے وقت ہر چیز کا جو سایہ رہتا ہے} کے سوا دومثل ہونے تک ظہر کا وقت رہتا ہے۔ زوال ہونے کے فورًا بعد اذان ظہر و جمعہ دی جاسکتی ہے۔ فتاوی عالگیری جلد اول کتاب الصلاۃ ص ۵۱ میں ہے : و وقت الظہر من الزوال الی بلوغ الظل مثیلہ سوی الفیٔ کذا فی الکافی۔ وھو الصحیح ھکذا فی محیط السرخسی۔ والزوال ظہور زیادۃ الظل لکل شخص فی جانب المشرق کذا فی الکافی۔ اور درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد اول ص ۲۷۰ میں ہے: {وجعمۃ کظہر اصلا واستحبابا} فی الزمانین لأنھا خلفہ اور ردالمحتار میں ہے: {قولہ اصلا} ای من جھۃ اصل وقت الجواز وما وقع فی آخرہ من الخلاف {قولہ واستحبابا فی الزمانین} ای الشتاء والصیف۔
فقط واﷲ أعلم
عقیقہ اور اسکے متعلق احکام
سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شرعاً عقیقہ کرنا کیسا ہے ؟ اور اسکا کیا حکم ہے ؟ کیا اس میں قربانی کی گائے کے حصوں کو جمع کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب :شرعاً اولاد تولد ہونے کے ساتویں دن مستحب ہے کہ اچھا نام رکھا جائے۔ اور سر کے بال نکالے جائیں اور انکے وزن کے برابر چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔ اور اسی وقت عقیقہ کیا جائے۔ عقیقہ میں ایسا جانور ذبح کیا جائے جو قربانی میں کیا جاتا ہے۔ لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا بکری ذبح کی جائے۔ ردالمحتار جلد ۵ ص ۲۳۶ میں ہے : یستحب لمن ولدلہ ولد أن یسمیہ یوم اسبوعہ ویحلق رأسہ ویتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا ثم یعق عند الحلق عقیقۃ اباحۃ علی ما فی الجامع المحبوبی أو تطوعا علی ما فی شرح الطحاوی، وھی شاۃ تصلح للأضحیۃ تذبح للذکر والأنثٰی … شاتان عن الغلام وشاۃ عن الجاریۃ۔
قربانی کی گائے میں بھی سات حصے ہوکر مشترکہ طور پر عقیقہ کرنا درست ہے۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک حصہ کے اعتبار سے مشارکت ہوگی۔ فتاوی عالمگیری جلد ۵ کتاب الأضحیۃ باب فیما یتعلق بالشرکۃ فی الضحایا ص ۳۰۴ میں ہے : ولو أرادوا القربۃ الأضحیۃ أو غیرھا من القرب أجزأھم سواء کانت القربۃ واجبۃ أو تطوعا أو وجب علی البعض دون البعض وسواء اتفقت جھات القربۃ أو اختلف … وکذلک اِن أراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ من قبل۔
فقط واﷲ أعلم