زندگی کو سیرت النبیؐ کے مطابق بنانے کی ضرورت ۔مولانا نصیر احمد حصیر قاسمی درالعلوم سبیل السلام حیدرآباد

اللہ تبارک وتعالی نے احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کو نبوت اور نبیوں ورسولوں کے سلسلے کو ختم کرنے کے لئے منتخب فرمایاتھا‘ اس کا فطری تقاضہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی قیامت تک آنے والی نسلوں او ربنی نوع انسان کے لئے ایک عظیم الشان پروگرام محفوظ ومامون راستہ کی طرح کے خلل او رکجیوں سے پاک اور سیدھا راستہ جو جس پر انسان چل کر اور اس راہ کو اختیار کرکے آسانی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ سکے اور فانی وابدی ہردو زندگی میں کامیابی حاصل کرسکے‘ اس کا یہ بھی تقاضہ تھا کہ اس آخری نبی کی زندگی اور اس کی ساری تفصیلات اور اس کے نشیب فراز دن کی شعاعوں کی طرح منور او رجگمگاتی ہوئی ہو ‘ ان کی یہ زندگی اس قدر واضح وعیاس صرف اسی زمانے کے لوگوں کے لئے نہ ہو بلکہ ہر زمانہ ‘ ہر وقوم ونسل او رقیامت تک آنے والے ہر انسان کے لئے واضح وعیاں ہو‘ کیونکہ آ پﷺ کی نبوت او ررسالت اور آپ کی دعوت اپنی قوم ‘ اپنی سرزمین اور زمانے تک محدود نہیں تھی بلکہ ہر زمانہ‘ہر قوم ‘ ہرخطہ اور ہررنگ ونسل کے لوگوں کے لئے عام تھی۔

اللہ تعالی نے آپﷺ کورہتی دنیا تک کے سارے انسانوں اور سارے عالم کے لئے رسول بناکر بھیجاہے ‘ اللہ تعالی ساری کائنات کے لئے رحمت بنایا ‘ اللہ کے نبی ﷺ کی زندگی ‘ آپ کے شمائل‘ آپ کی سیرت مطہرہ‘ آپ کی شخصیت کے پہلو اور آپ کی دعوت کے نتائج اللہ کے راستے پر چلنے والے ہر فرد وبشر کے لئے ‘ ہر قانون ومربی کے لئے ‘ ہر خاندان او رسماج کے لئے خیر کے راستوں پر چلنے والے کے لئے سبق او رنمونہ ہے اور یہ تاقیامت ہر ایک کے لئے ایک سبق رہے گا‘ اس وقت دنیاکے چپہ چپہ کے مسلمان او رمشرق ومغرب کے ایل ایمان میلاد النبیؓ کا جشن منارہا ہے ‘ ہر کوئی خیر البشر کی سیرت پاک کو دہرا کر اپنے ایمان کو تازہ او ریقین میں پختگی پیدا کررہا ہے ‘ ہر جگہ آپﷺ کے ذکر جاری ہے او راپنے اپنے انداز میں سے ہر کوئی اسے بیان کرکے اور ساس سیرت کو دہراکر اپنے ایمان کو جلا بخش رہا ہے ‘ آج جبکہ ہر جگہ محفل میلاد سجی ہوئی ہے او ردھوم دھام کے ساتھ اسے منایااور ید کیاجارہا ہے ‘

ہم ذرا پلٹ کر دیکھناچاہتے ہیں کہ جس وقت خاتم الانبیاء والرسل اس دنیا میں تشریف لائے اس وقت قوموں کی کیا حالت تھی‘ انسان کیسی گمراہی ‘ تاریکی جن روی او رجاہلیت میں غرق تھا۔ اس وقت دنیا کی دو سب سے بڑی طاقت او ر سوپر پاؤر قومیں تھیں ایک فارس او ردوسرے روم ایک پر کسری حکمرانی تھی اوردوسرے پر قیصر کی ‘ اور عرب قوم ان دنوں کے بیچ جاہلیت کے دلدل اور بت پرستی کی تاریکی میں پھنسی ہوئی تڑپ رہی تھی ‘ اس وقت آپ نے اصلاح کا عمل شروع کیا‘ اور جنھوں نے ایمان لایا اور آپ کی پیروی کی انہیںآپ کی تعلیم وتربیت اور رشد وہدایت کے ذریعہ لا محدود سعاد ت نصیب ہوئی ‘رسول اللہ ﷺ نہایت سراپا نورمجسم تھے آپ دراین کی خیر وبھلائی کی رہنمائی کرتے او رلوگوں کے دلوں او رنگاہوں پر تہہ بہ تہہ جمے گرد وغبار کو صاف کرتے اور ان پر چھائی ہوئی گھٹا ٹوٹ تاریکی کو دور کرتے تھے‘ اور گمراہی کاشکار لوگوں کو شقاوت و بدبختی سے دور نکال کر سعاد ت خوشی بختی کے مرغ زارں میں پہنچاتے تھے‘ آپ ﷺ کی بعثت کی چمل اور آپ کی تعلیمی دمک ساری انسانیت تک پہنچ رہی تھی اور ہے آپ بشیر ونذیر اور اللہ کی طرف اللہ کے حکم سے بلانے والے اور سراج منیر تھے اور قیامت تک آپ اسی طرح سراج منیر رہیں گے۔

امت اسلامیہ جب رسول ﷺکی اتباع وپیروی کرتی ہے تو وہ ایسی عظمت والی شخصیت کی پیروی کرتی ہے جس کے اندر انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ ان کا وجود انسانیت کے حق میں خالص ونکھرا ہوا او رخیرخواہی سے لبریز ہوتا رہا رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چل کر انسان ایسی ذات کے نقش قدم پر چلتا ہے جس کی پیروی کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کو اللہ نہ صرف پسند کیابلکہ اس کا حکم دیا ہے وہ امت کے لئے نہایت نرم اور حق کے معاملہ میں نہایت سخت ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ترجمہ اللہ کی رحمت سے آپ ان کے لئے نرم ہوگئے ‘ اگر آپ ترش اورسخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔

حضرتہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب بھی کسی دو باتوں کا اختیار دیاگیا تو آپﷺ ان میں سے جو آسان ہوتا وہ اختیار کرتے ‘ اگر اس آسان میں کوئی گناہ کی بات ہوتی اور اس اس میں کسی طرح کا اثم ہوتا تو آپﷺ اس سے کوسوں دور ہوتے ‘ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا‘ ہاں اگر اللہ کی حرمت کو پامال کیاجاتا تو اللہ کے واسطے آپ اس سے ضرور انتقام لیتے ۔اس دین حنیف کے سائے میں رہنے والے ہر مسلمان پر رسول اللہﷺ کی تعظیم وتوقیر ‘ احلال واحترام اور محبت کرنا واجب ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک میری محبت اپنے باپ ‘اپنی اولاد او رسارے لوگوں سے زیاد ہ ہوجائے ( بخاری شریف)