زندگی کا سفر تو ایک حسیں سفر ہو

ڈاکٹر مجید خان
1950 ء کے اوائل میں میں میٹرک کے امتحان کی تیاریاں کررہا تھا ۔ یہ میری زندگی کا سب سے فیصلہ کن امتحان تھا ، مجھے اس کا پورا احساس تھا ۔ پولیس ایکشن ہوئے دو سال کا عرصہ ہورہا تھا اور مسلمانوں کے معاشی حالات انتہائی خستہ ہورہے تھے ۔ لوگ پاکستان بھاگ رہے تھے ، مستقبل تاریک نظر آرہا تھا گوکہ عام زندگی میں ہندو مسلم میل ملاپ اور دوستی میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا مگر فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے لوگ اپنی مسلم دشمنی کو اعلانیہ ظاہر کررہے تھے ۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب یکدم سے کم تو نہیں ہوا تھا مگر مسلمانوں کیلئے نئی ملازمتوں کے مواقع بند ہوگئے تھے ۔

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے میٹرک میں اچھے درجے سے کامیاب ہونا ضروری تھا جو میں کرسکا۔ اتفاق سے میرے قریبی ساتھی زیادہ غیرمسلم تھے اور محنتی تھے ۔ مسلم طلبا کی تعلیمی دلچسپیاں کم ہونے لگی تھیں ، ہندو دوستوں کے ساتھ میں بھی محنت سے پڑھااور ان کا مقابلہ کرتا رہا اس کے بعد انٹرمیڈیٹ میں عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کیا۔ اس زمانے میں انٹرمیڈیٹ یونیورسٹی ہی میں ہوا کرتا تھا ۔ یونیورسٹی میں میری دوستی ایک سردارجی لڑکے سے ہوئی ، اُن کے والد فوج میں بڑے عہدے پر تھے اور پولیس ایکشن میں جنرل جے این چودھری کی فوج کے ساتھ حیدرآباد آئے تھے ۔ یہ لڑکا انتہائی ملنسار تھا اور میری اُس سے گہری دوستی ہوگئی تھی ، میرے گھر آیا کرتا تھا اور حیدرآبادی پکوان کا دلدادہ تھا ۔ اس سے آج تک بھی گہرے مراسم ہیں ۔ خیرلکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس زمانے میں موثر رسوخ کی تلاش لگی رہتی تھی ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُس زمانے کے ذی اثر ہستیوں تک کسی کی پہنچ تھی تو ملازمت کے مواقع روشن ہوا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں اس کو ’’رِگّا ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ مشرق وسطیٰ میں اس کو واسطہ کہا جاتا ہے ۔ بہرحال میرا وسیع غیرمسلم احباب کا حلقہ بہت کارآمد ثابت ہوا ۔ مجھے تو کوئی ’’رِگّے ‘‘ کی ضرورت نہیں تھی مگر میں اپنے تمام تر رسوخ دوسروں کیلئے استعمال کیاکرتا تھا ۔ تمام مسائل بغیر کسی رشوت بازی کے ہوجایا کرتے تھے ۔ عوامی منتخب شدہ نمائندے بھی اپنی مدد کیلئے کوئی رقمی مطالبات نہیں کیا کرتے تھے ۔

سیکل رکشا میں بیٹھکر ہمارے ساتھ سکریٹریٹ یا دوسرے دفاتر جایا کرتے تھے ۔ بہت کم لوگوں کے یہاں ذاتی سواری تھی ، میرے ذہن میں یہ تمام حالات سماتے گئے ۔ میرے سردارجی دوست کے والد کا تبادلہ دہلی ہوگیا اور وہاں پر اُن کو لودھی روڈ پر ایک شاندار کوٹھی ملی اور وہ میجر جنرل کے عہدے پر مامور ہوگئے تھے ۔ حیدرآباد کے ایک معمولی سے طالب علم کی پہنچ فوج کے ایک میجر جنرل تک تھی تو کوئی اُس کو یقین نہیں کرتا تھا ۔ میرے دوست نے مجھے دہلی آنے کی دعوت دی اور میرے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا تھا ۔ چونکہ والد صاحب کا تعلق ریلوے سے تھا اس لئے میں پندرہ دن اُن کا مہمان بنا اور دہلی کی خوب سیر کی ۔

دوست کے والد فارسی دان تھے اور نہ صرف بہترین اشعار سناتے تھے بلکہ اُن کی تشریح بھی کیا کرتے تھے ۔ بیٹے سے زیادہ وہ اور ان کے گھر والے زیادہ مہمان نواز تھے ۔ سب کے سب میرے استقبال کیلئے دہلی اسٹیشن آئے تھے ۔ وہ مجھے پہلے حضرت نظام الدین اولیاء کی زیارت کروائے یہ کہکر کہ چونکہ میں پہلی دفعہ دہلی آیا ہوں اس لئے میرے سفر کی پہلی منزل یہی ہونی چاہئے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں بھی فرقہ واریت کا زہر اتنا نہیں پھیل گیا تھا جتنا کہ آج دیکھا جارہا ہے ۔ لوگوں میں بھائی چارگی اور میل ملاپ تھا ۔ فرقے واریت آہستہ آہستہ بہت ہی منظم انداز میں پھیلائی گئی اور آج ویسا ماحول باقی نہیں رہا ۔ میرے لئے انھوں نے عارضی طورپر ایک مسلمان باورچی کا بھی اہتمام کیا تھا چونکہ مفت سفر کی سہولت تھی اس لئے میں نے شمالی ہند کے آخری اسٹیشن کا ریزرویشن کروایا تھا ۔ دہلی کے بعد ارادہ چند دنوں مسوری جو وہاں کا مشہور ہل اسٹیشن ہے جانے کا تھا ۔ میرے میزبان مجھے چھوڑنے کیلئے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن آئے تھے جہاں سے ٹرین دہرہ دون جاتی تھی ۔ باورچی نے مجھ سے کہا کہ صاحب میں نے آپ کے لئے بہترین مرغ کی بریانی پارسل بنا کے دی ہے ٹرین میں لطف اُٹھائیے ۔ ظاہرہ ہے یہ فراخدلانہ انعام کا نتیجہ تھا ۔ ٹرین کو نکلنے صرف 15 منٹ باقی تھے ۔ میرا ریزرویشن جس ڈبے میں تھا اُس کے سامنے سادھوؤں اور گیرو لباس پہنے ہوئے سر منڈھائے ہوئے پجاریوں کی بھیڑ تھی ۔ ہمارے میزبان پریشان ہوگئے ۔ اس زمانے میں فرسٹ کلاس میں صرف چار برتھ ہوا کرتے تھے دو نیچے اور دو اوپر ۔ میرے دوست کے والد فوج کی وردی میں تھے اور اُن کے ساتھ کچھ سپاہی بھی تھے اور میں بمشکل اپنی جگہ پہنچ سکا ۔ باہر میرا نام اور سوامی سدانندجی کا نام تھا ۔ اس صورتحال کو دیکھ کر میرے دوست بہت پریشان نظر آرہے تھے ۔ میں جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو مد مقابل قوی ہیکل سوامی جی براجمان تھے اور اُن کے خدمتگار اُن کے پیر دبا رہے تھے ۔ سب کی نظریں اس مسلمان بانکے نوجوان پر مرکوز تھیں جس کو سرداجی لوگ چھوڑنے آئے تھے ۔ ظاہر ہے ان کے لئے یہ ایک عجیب معمہ تھا ہوگا ۔

اُن کے خدمتگاروں کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے کیونکہ میرا سوامی جی کی طرح اپنی سیٹ پر لیٹنا غالباً اُن کو بدتمیزی یا توہین نظر آرہا تھا ۔ چونکہ حیدرآبادی تہذیب مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے غیرارادی طورپر میں بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ سر کو کافی جھکائے ہوئے سوامی جی خدمت میں سلام بجا لایا ۔ بزرگوں کا احترام کرنا یہ ہماری تربیت تھی مگر اس کا جادوئی اثر ہوتا ہوا نظر آرہا تھا ۔ اسی وقت ٹرین کے روانہ ہونے کی تیز سیٹی بجی مگر اس کے ساتھ ہی ڈبے کا دروازہ دھماکے کے ساتھ کھلا اور میرے دوست کے والد اُن کے وردی پوش سپاہی اور ریلوے کے انسپکٹر گھس پڑے اور میرا ساز و سامان اکٹھا کرنے لگے ۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ آخر کیا ہورہا ہے ’’وہ کہہ رہے تھے کہ میرا انتظام کسی اور ڈبے میں کروادیا گیا ہے‘‘ ۔ میں نے کہاکہ گاڑی رخصت ہورہی ہے تو انسپکٹر نے کہا کہ آپ کو منتقل کرنے کے بعد گاڑی روانہ ہوگی ۔

میں ٹس سے مس نہیں ہوا ۔ میں نے کہا کہ میں سکون سے ہوں اور میں اپنی جگہ کسی غیرضروری ڈر و خوف کی وجہ سے بدلنا نہیں چاہتا ہوں۔ وہ لوگ حیرت زدہ تھے اور روانہ ہوگئے۔ سوامی جی اور ان کے لوگ اس مسلمان کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے ۔ چھپ چھپاکر جب میری نظریں سوامی جی کے چہرے پر پڑیں تو ایک انتہائی مشفقانہ مسکراہٹ نے میرا استقبال کیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے خدمت گار ان کی خدمت میں چاندی کے بڑے گلاس میں دودھ پیش کئے ۔ سوامی جی نے اُن کو اشارہ سے کہا کہ مجھے بھی پیش کیا جائے اور میں نے دوسرے چھوٹے سلام سے نہ کیا ۔ مجھے فکر اس بات کی لگی ہوئی تھی کہ کیسے اپنا مرغ کی بریانی کا توشہ سوامیوں کے سامنے کھولوں۔ پھر میں نے سوچ لیا کہ آنے والے جنکشن پر باہر جاکر کھاؤنگا ۔ سوامی جی نے اصرار کیا کہ میں دودھ پی لوں تو پینا ہی پڑا جس کے بعد بھوک جاتی رہی۔ پھر سوامی جی مجھ سے میرے سفر کی تفصیلات پوچھنے لگے تو میں نے کہا کہ میں گرما گذارنے کیلئے تفریحی مقام جارہا ہوں ۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے ہردوار کا نام سنا ؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔

پھر انھوں نے کہا کہ جس طرح سے مسلمانوں کیلئے مکہ اور مدینہ شریف مقدس مقامات ہیں اسی طرح ہردوار ہندوؤں کیلئے ہے ۔ انھوں نے کہاکہ بہت ہی پرفضا مقام ہے اور دریائے گنگا کے کنارے اور ہمالیہ کے دامن میں بسا ہوا ہے ۔ آپ کے لئے یہ بھی ایک بہترین تفریحی مقام ہے ۔ آپ کو میں دعوت دیتا ہوں جتنے دن آپ کا دل لگے گا آپ میرے مہمان خانے میں رہیں ، میں تو رہا تفریحات کا دلدادہ اور اس سے شاندار موقع کسی نوجوان لڑکے کوکہاں ملتا ہے ۔ ہمالیہ کی خوبصورت پہاڑیاں ، مشہور خطرناک جنگل ، صاف شفاف سیدھے برفانی پہاڑیوں سے نکلی ہوئی گنگا اور پھر وہاں کے صدر سوامی کی دعوت ۔ میں نے قبول کرنے کو تو قبول کرلیا مگر دل دھک دھک کرنے لگا تھا ۔

صبح کے چار بجے ٹرین ہردوار پہنچی ۔ یہی وہ ہردوار ہے جو آج کل بابارام دیو کے نام سے جوڑا جاتا ہے ۔ خیر میں تو بغیر توشہ کھائے سوگیا تھا۔ جب ہردوار آیا تو میں گہری نیند میں رہنے کا ڈھونگ کیا یہ سمجھ کر کہ سوامی جی زبردستی تو مجھے نہیں لے جائیں گے ۔ مگر سوامی جی نے مجھے ہلاہلاکر بیدار کیا اور لامحالہ مجھے اُترنا ہی پڑا ۔ جیسے ہی میں آنکھیں ملتے ہوئے پلیٹ فارم پر اُترا تو گیروئی لباس کے سادھووں کا سمندر اُن کو لینے آیا تھا اور فلک بوس منتروں اور نعروں اور اشلوکوں سے اُن کا استقبال شروع ہوا ۔ میری جب پوری آنکھیں کھلیں تو میں ہیبت کھاگیا کہ یااﷲ یہ کدھر اور کس مصیبت میں میں آپھنسا ۔ یہاں سے نکلنے اور بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی ۔ میں نے انپا سامان لیکر واپس ٹرین میں جلدی سے چڑھنا چاہ رھا تھا مگر میرا سامان سوامی جی کے خدمتگار اپنے قبضے میں لے چکے تھے ۔ چلتی ٹرین میں سامان کو چھوڑکر داخل ہونا چاہ رہا تھا مگر کر نہیں پایا ۔

پورا پلیٹ فارم گیرو کے کپڑے پہنے ہوئے لوگوں سے بھرا تھا ۔ میں اکیلا رنگیلے بش شرٹ اور ٹروزر میں تھا ۔ سوامی جی مجھے کھینچکر اپنے بازو میں لے لئے اور دھڑا دھڑ اُن کے عقیدت مند اُن کے پیر چھو رہے تھے ۔ اور میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بعد میں میرے پیر بھی چھونے لگے تھے۔ پہلے تو میں نے پیروں کو کھینچا مگر پھر عادی ہوگیا ۔ زندگی میں پہلی مرتبہ کسی نے میرے پیروں کو چھونے کے قابل سمجھا اور وہ بھی کٹر ہندو لوگ ۔ چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں ہونگی کیونکہ یہ دُم چھلہ کہاں سے آگیا ؟ خیر وہاں سے پیدل یہ قافلہ نکلا اور اُن کا آشرم اسٹیشن سے قریب دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے ۔ کئی منزلہ عمارت اس خوبصورتی سے بنائی تھی کہ پہلی منزل میں گنگا کا پانی داخل ہوتا ہے اور موجوں کے ساتھ چلا جاتا ہے ۔ انتہائی خوبصورت نظارہ تھا ۔ سوامی جی نے اپنے سکریٹری سے میرے رہنے کے تعلق سے فلاں فلاں مہمان خانے کی نشاندہی کی اور بہت ہی خاموشی سے انھوں نے کہا کہ بابو میں جانتا ہوں کے آپ مسلمان ہیں ! آپ کسی اور سے مت بولئے ۔ بعض جاہل اور نادان لوگ ہوتے ہیں جو ممکن ہو آپ کے دل کو ٹھیس پہنچائیں گے ۔ میں خاموش رہا ۔ میرا ارادہ تھا کہ ایک دن کسی نہ کسی طرح گذارکر دوسرے ون وہاں سے نکل بھاگنا چاہئے ۔

اس کے ساتھ میں نے دیکھا کہ لوگ گنگا میں کود کر ڈبکیاں لے رہے ہیں اور سنا کہ ہردوار پہنچنے کے بعد یہ سب سے اہم فرض ہے۔ میں خاموشی سے وہاں سے سٹک گیا اور یہ دلچسپ تماشہ دیکھنے کیلئے مجمع چیرتے ہوئے سب کے سامنے گنگا کے کنارے پہنچ گیا ۔ سردی کڑاکے کی ہورہی تھی ۔د انت بج رہے تھے اور میں قہقہے بھی مار رہا تھا کیونکہ ویسا ماحول تھا اور سردی سے کپکپا رہا تھا ۔ اچانک کسی شرارتی نے مجھے بھی دریا میں ڈھکیل دیا اور میں چیخ مارا ۔ جب تک سوامی جی کو اطلاع پہنچ گئی تھی کہ میں پانی میں ڈوب رہا تھا ۔ اُن کی شیر کی جیسی للکار کے ساتھ ہی کئی لوگ مجھے باہر نکالے۔ مجھے بڑے بڑے توالوں میں لپیٹ کر میرے کمرے تک پہنچادیا گیا ۔

کئی خدمتگار میری سربراہی میں تھے ۔ ناشتے میں گرم دودھ ، جلیبیاں ، پوری اور … دوپہر میں ترکاری کی بریانی اور رات میں کشمیری پلاؤ ۔ اُن کا ڈرائیور مجھے ہمالیہ کے دامن میں جہاں بھی گاڑی جاسکتی وہاں پر تفریح کیلئے لیجاتا رہا۔ بہرحال مست دن گذرنے لگے ۔ میں زیادہ وقت بھیڑ سے دور گنگا کے دامن میں بیٹھ کر اپنا سفر نامہ لکھ کر والدہ کو بھجواتا تھا ۔سوامی جی سے 5:10 منٹوں تک شام میں بات ہوا کرتی تھی ۔ 3 دن کے بعد میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہونے کی اجازت چاہی مگر اُن کا اصرار تھا کہ میں کم از کم ایک ہفتہ اُن کا مہمان رہوں میں تو تیار ہی تھا ۔ ایک ہفتے کے بعد انھوں نے مجھے بلاکر گلے لگایا اور کافی دعائیں دی اور میرے اور خاندان کے سارے افراد کیلئے تحفے تحائف دیئے اور تحفتاً ایک لفافے میں کچھ روپئے بھی دیئے ۔ میرے احتجاج کو نذرانداز کیا گیا ممکن ہو احتجاج کمزور تھا اور میں وہاں سے زندگی کے بہترین تجربے کے ساتھ روانہ ہوا ۔ کیا ایسا بھائی چارہ آج ممکن ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کے میرا حیدرآبادی سلام یہ سب کرشمہ دکھایا ۔ میں جانتا ہوں کہ کافی لوگ ریلویز میں ملازم ہیں مگر شاید ہی کوئی نوجوان لڑکا ہوگا جو مفت سفر کا پوری طرح سے فائدہ اٹھایا ہوگا۔

سفر زندگی کا بہترین تجربہ ہوا کرتا ہے… زندگی کا سفر ایک حسین سفر ہے … ہر کسی کو کسی نہ کسی کی تلاش ہے … کسی کے پاس منزل ہو تو راہ نہیں … اور کسی کے پاس راہ ہو تو منزل نہیں …