ثریا جبین
بچپن سے ہی وہ دیکھتی آرہی تھی کہ امی ہمیشہ اس کے چھوٹے بھائی عارف کو اس پر ترجیح دیتی ہیں ۔ اس کے ساتھ کبھی مساویانہ سلوک نہیں کیا جاتا ۔ عارف کی ہر خواہش پوری کی جاتی ۔ وہ جب کھلونوں کے لئے ضد کرتی تو ماں اسے بہلادیتیں ۔ زیادہ ضد کرتی تو ڈانٹ کر خاموش کرادیا جاتا ۔ عارف پتنگ اڑانے کے لئے امی سے پیسے مانگتا تو سخی حاتم بن جاتیں ۔ ہر نئی چیز پر عارف کے نام کی مہر لگ جاتی ۔ وہ رو دھو کر خاموش ہوجاتی ۔ عیدین کے موقع پر جب نئے کپڑے بنوانے کی بات ہوتی تو پہلے عارف کی پسند سے اس کے دو دو جوڑے کپڑے سلوائے جاتے جب شائینہ احتجاج کرتی تو گھور کر دیکھتیں اور کہتیں ’’بھائی کی برابری کروگی؟‘‘
’’آخر میرے ساتھ ہی ناانصافی کیوں ہوتی ہے؟ کیا میں آپ کی اولاد نہیں‘‘
’’اولاد تو ہو لیکن لڑکی ہو ‘‘ ماں کہتی
’’کیا لڑکی ہونا جرم ہے‘‘ ۔ وہ غصے سے کہتی
’’بات یہ ہے کہ تم کل کو پرائے گھر چلی جاؤگی ۔ میری دیکھ بھال تو میرا بیٹا کرے گا ۔ میرا داہنا ہاتھ ۔ میرے بڑھاپے کا سہارا‘‘ ۔ شائنہ خاموش ہوجاتی ۔ یہ بات نہ تھی کہ وہ بھائی کو نہ چاہتی ہو ۔ وہ تو صرف ماں کی محبت اور توجہ کی محتاج تھی ۔
دن گذرتے گئے ۔ شائنہ اب MSc کرچکی تھی ۔ چھوٹا بھائی عارف انٹر سکنڈ ایر میں تھا ۔ اس دوران اس کے والد کا انتقال ہوگیا ۔ اب گھر کی ذمہ داری شائنہ پر آپڑی تھی ۔ اس نے ملازمت کے لئے دو تین جگہ درخواستیں دیں اور پھر ایک پرائیوٹ کالج کے مینجمنٹ نے اسے تقرری کا پروانہ دے دیا ۔ وہ بڑی خوش ہوئی ۔ اس نے ماں سے کہا اب آپ کوئی فکر نہ کریں عارف کی پڑھائی میرے ذمے ہے ۔ جب تک وہ پڑھ لکھ کر نوکر نہیں ہوجاتا ۔ اب وہ گھر کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ عارف کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ۔ اتنی محبت دیتی کہ اسے باپ کی کمی کا احساس نہ ہوتا ، اس نے اپنی تمام خواہشات کو قربان کردیا تھا ۔ اسے ایک ہی بات کی دھن تھی کہ اس کا بھائی زندگی میں اونچا مقام حاصل کرے ۔
شائنہ کی عمر بڑھتی جارہی تھی ، کئی رشتے آئے لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کئے بغیر شادی کرنا نہیں چاہتی تھی ۔ دیکھتے دیکھتے عارف نے ایم بی اے کرلیا اور ایک اچھی کمپنی میں اسے ملازمت مل گئی ۔ شائنہ کی عمر اب 28 سال ہوچکی تھی ۔ اس کی دوست نے اسے مشورہ دیا کہ اب تو تمہاری ذمہ داری ختم ہوچکی ہے اب کسی اچھے لڑکے کو دیکھ کر شادی کرلو ۔ لیکن شائنہ کیا کرتی ۔ زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے رشتے بھی آنا کم ہوگئے تھے ۔ بہرحال اس کی سہیلی نے ایک رشتہ اپنے کسی واقف کار کا بتایا اور پھر بات طے ہوگئی ۔
ملازمت کے دوران شائنہ نے اپنی تنخواہ سے کچھ پس انداز کرکے 200 گز کا ایک پلاٹ خریدا تھا ۔ اس کی تمنا تھی کہ اس کا ذاتی گھر ہو تاکہ وہ ہر ماہ کرائے کی خطیر رقم دینے سے بچ جائے ۔
شائنہ کی ماں اب بیمار رہنے لگی تھیں۔ شائنہ انہیں آفس سے آکر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ۔ اب چونکہ اس کی شادی ہوچکی تھی اس لئے بار بار ماں کے پاس آنا مشکل تھا ۔ ادھر ماں کی خواہش تھی کہ گھر میں بہو آجائے تاکہ وہ گھر سنبھال لے اور ماں کا بھی خیال رکھے ۔ شائنہ بھی یہی چاہتی تھی اس نے زور شور سے لڑکیاں دیکھنا شروع کیں ۔ بھائی کی شادی کے دن وہ بہت خوش تھی ۔
لڑکی پڑھی لکھی تھی لیکن بہت لئے دئے رہتی تھی ۔ زیادہ کسی سے بات نہ کرتی ۔ چند دن اچھے گزرے ۔ لڑکی ماں کی خدمت تو دور ان کے پاس دو گھڑی بیٹھنا بھی گوارا نہ کرتی ۔ عارف کی ماں کبھی اپنے بیٹے سے بہو کی شکایت نہ کرتیں ۔ مبادا کہ بیٹے کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور گھر کا ماحول خراب ہو ۔
دن گذرتے گئے اب عارف اپنی ماں کی طرف سے لاپروا ہوتا گیا ۔ آفس سے آتا بیوی سے بات چیت کرتا پھر شام میں دونوں کہیں گھومنے نکل جاتے ۔ رات کو آتے اور سوجاتے ۔ نہ ماں کی خیریت پوچھی جاتی نہ ان کے کھانے پینے کی فکر تھی ۔ ماں اپنے کمرے میں پڑی اس کا انتظار کرتی ۔ بیٹے کی لاپرواہی اور اپنی تنہائی کو بڑے صبر و تحمل سے جھیلتی رہی ۔ محبت اور اپنائیت کے دو بول کے لئے ترس جاتی ۔ لیکن اب عارف پر ماں کے بجائے بیوی کی محبت غالب آگئی تھی ۔
ایک دن وہ کمزوری اور نقاہت سے بستر سے نہ اٹھ سکی ۔ شائنہ ہر ہفتہ آکر ماں کی خیریت دریافت کرتی ۔ اس روز جب وہ ماں کے پاس آئی تو دیکھا ماں کو بخار ہے ۔ اس نے عارف کی بیوی سے پوچھا امی کو بخار ہے انہیں ڈاکٹر کو دکھایا ؟ ۔ ’’معمولی بخار ہے ایک دو گولیوں سے ٹھیک ہوجائے گا‘‘ ۔ اس نے لاپرواہی سے کہا ۔ شائنہ فوراً ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی ۔ ماں نے بتایا تین روز سے بخار آرہا ہے ۔ عارف کو فرصت نہیں ۔ اچھا ہوا تو آگئی ۔ پھر ایک دن آفس میں بیٹھی تھی کہ عارف کی بیوی کا فون آیا کہ امی کی طبیعت خراب ہوگئی ہے انہیں ہاسپٹل لے جایئے ۔ شائنہ فوراً رخصت کی درخواست لکھ کر ماں کے پاس آئی ۔ ماں کی حالت دیکھ کر اسے بہت افسوس ہوا ۔ وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھیں ۔ اس نے عارف کو فون کیا ۔ اس نے کہا کہ وہ بہت مصروف ہے ، بہتر ہے آپ خود ہاسپٹل لے جائیں ۔ ہاسپٹل پہنچی تو ڈاکٹر نے دو تین ٹسٹ لکھ دئے اور کہا ان کی غذا کا خیال رکھئے ۔ دودھ اور فروٹس استعمال کرائیں ۔
امی کو لے کر وہ گھر آئی ۔ شام کو بھائی بھی آچکا تھا۔ اس نے سختی سے پوچھا ’’امی کے علاج میں غفلت کیوں برتی گئی؟‘‘
’’باجی میرے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ماں کا علاج کراؤں ۔ پوری تنخواہ گھر میں خرچ ہوجاتی ہے پھر مزید دواؤں کے لئے کہاں سے پیسے لاؤں؟‘‘ وہ بولا
’’لیکن یہ فرض تو تمہارا ہے ۔ امی گھر سے الگ تو نہیں ہیں ۔ کیا تم ان کی خدمت بھی نہیں کرسکتے؟ ۔ لاوارثوں کی طرح ڈال رکھا ہے‘‘ ۔ شائنہ بولی
’’باجی مجھے آفس کے کام ہوتے ہیں اتنا وقت ہی نہیں ملتا‘‘ ۔ ’’تمہاری بیوی تو گھر میں ہوتی ہے کیا وہ امی کا خیال نہیں رکھ سکتی؟‘‘
’’میرا نام نہ لیں ۔میں نے ایسے کام کبھی نہیں کئے ۔ اگر آپ کو ماں کی خدمت ہی کروانا تھا تو کسی غریب کی لڑکی بیاہ کر لاتیں۔ اور اپنی ماں سے اتنی محبت ہے تو اپنے گھر کیوں نہیں رکھ لیتی؟‘‘ ۔ رضوانہ نے تیزی سے کہا
شائنہ نے بات آگے بڑھانا ٹھیک نہ سمجھا اور ماں کو لے کر اپنے گھر آگئی ۔ ماں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی ۔ چند دنوں میں وہ صحتیاب ہوگئیں ۔
شائنہ نے ملازمت کے دوران 200 گز کا پلاٹ خریدا تھا اب اس نے ارادہ کیا کہ جلد ہی بینک سے قرض لے کر مکان کی تعمیر شروع کردے گی ۔ ایک دن وہ اپنا پلاٹ دیکھنے گئی ۔ وہاں پہنچ کر اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ وہاں تو مکان کی تعمیر جاری تھی ۔ اس نے معلوم کیا کہ یہ تعمیر کس نے شروع کی ہے تو اسے پتہ چلا اس کے چھوٹے بھائی عارف نے اس کی اطلاع کے بغیر اس کی زمین پر قبضہ کرلیا اور وہی مکان بنوارہا ہے ۔ غم و غصہ سے اس کا برا حال ہوگیا ۔ وہ فوراً عارف کے پاس پہنچی اور پوچھا ’’کس کی اجازت سے تم مکان بنارہے ہو؟ یہ زمین تو میں نے خریدی تھی‘‘۔ ’’باجی اب تو آپ کی شادی ہوچکی ہے آپ اپنے لئے دوسرا مکان بناسکتی ہیں‘‘ ۔ عارف نے ڈھٹائی سے کہا۔
شائنہ نے غصہ میں آکر اسے خوب صلواتیں سنائیں لیکن عارف کہنے لگا ۔ ’’اب تو یہ گھر میرا ہے ۔ زمین تو میرے نام ہے‘‘ ۔’’تم کیسے گھر بناسکتے ہو؟‘‘ شائنہ غصہ سے بولی ’’اپنے نام کرانے میں کیا دیر لگتی ہے؟‘‘ ۔ وہ بے غیرتی سے بولا ۔
’’میں تمہارے خلاف قانونی کارروائی کروں گا ۔ تمہیں میری زمین ہڑپ کرنے کا کوئی حق نہیں‘‘ ۔
’’کس بناء پر آپ دعوی کریں گی؟‘‘۔ سارے کاغذات تو میرے پاس ہیں ۔ وہ تمسخرانہ لہجہ میں بولا ۔
شائنہ نے بڑی ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھا اور کہنے لگی ’’تم نے میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیا ہے ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن یاد رکھو میں اپنا حق چھوڑنے والی نہیں‘‘ ۔
دکھ اور صدمے سے بے حال وہ گھر آئی ۔ ماں سے تمام حالات بیان کئے اور کہا ۔ ’’اب میں اسے نہیں چھوڑوں گی ۔ اپنا حق لے کر رہوں گی ۔ میں نے اس کے لئے کتنی قربانیاں دیں ۔پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ وہ عزت سے جی سکے ۔ لیکن اس نے میرے ساتھ کیا کیا ۔ اتنا بڑا دھوکہ ! میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی‘‘ ۔
’’جانے دو بیٹی ۔ صبر کرو ۔ اللہ تمہیں بہت دے گا‘‘ ۔ ماں نے سمجھایا ۔ ’’اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی آپ مجھے صبر کرنے کو کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’زندگی میں صبر ہی تو کیا ہے ۔ اپنی محنت کی کمائی سے زمین خریدی تھی وہ بھی اس نے ہتھیالی‘‘ ۔ وہ روتی رہی ۔ شائنہ وکیل کے ذریعے بھائی کو نوٹس بھجوانے والی تھی ۔ لیکن ماں کی حالت دیکھ کروہ خاموش ہوگئی ۔
رات کو ماں کی حالت زیادہ خراب ہوگئی تو شائنہ نے انہیں ہاسپٹل میں شریک کردیا ۔ ماں کی حالت دن بہ دن گرتی گئی ۔ شائنہ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ۔ ایکدن شائنہ ان کے پاس بیٹھی تھی کہ ماں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کہنے لگی ’’بیٹی مجھے معاف کردو ۔ میں نے تمہاری بہت حق تلفی کی ہے ۔ میں سمجھتی تھی کہ میرا بیٹا میرے ناتواں بازوؤں کا سہارا بنے گا ۔ لیکن افسوس میں غلطی پر تھی ۔ پتہ نہیں کیوں اس کا خون سفید ہوچکا ہے ۔ وہ مجھے دیکھنے بھی نہیں آیا ۔
ادھر وہ دونوں ، بیٹا بہو ماں کی یاد سے غافل ہوتے گئے ۔ اب عارف کو کبھی ماں کی یاد نہیں آتی تھی ۔
ماں کا علاج کافی عرصہ چلتا رہا ۔ پھر شائنہ انہیں اپنے گھر لے آئی ۔ دن گذرتے رہے ۔ ایک دن بیٹا بہو کسی دعوت سے واپس ہورہے تھے کہ راستے میں ایک گاڑی نے انہیں ٹکر دے دی ۔ عارف اچھل کر دور جا گرا ۔ بیوی کو معمولی چوٹیں آئیں لیکن عارف کے دونوں پیروں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اسے ہاسپٹل پہنچایا گیا ۔ ماں کو جب پتہ چلا تو وہ بیٹے کو دیکھنے بے چین ہوگئی ۔ لیکن بہو نے بیٹے سے ملانے سے انکار کردیا ۔
دو تین مہینے علاج چلتا رہا ۔ پھر ڈاکٹر کی ہدایت پر ڈسچارج کردیا گیا ۔ اب عارف دونوں پیروں سے معذور تھا ۔ اس کی بیوی اس کی دیکھ بھال کرتے کرتے تنگ آچکی تھی ۔ بات بات پر عارف سے خوب جھگڑتی ۔ جلی کٹی سناتیں ۔ لاچار عارف بے بس تھا ۔ اس کی لعن طعن برداشت کئے خاموش پڑا رہتا ۔
اب وہ اپنی بیوی کا محتاج ہو کر رہ گیا تھا ۔ کوئی بھی کام کرنے سے قاصر تھا ۔ جب بیوی کھانے دیتی کھالیتا ۔ بعض وقت بھوکا ہی رہتا ۔ اس کی بیوی روزانہ تیار ہو کر باہر نکل جاتی ۔ شام کو آتی ۔ بچا کچا کھانا سامنے رکھ دیتی ۔ اسکے ساتھ وہ طنز کے تیر برساتی کہ وہ لہولہان ہوجاتا ۔
ایک دن وہ اسکے پاس آئی غصہ سے بولی ’’اب میں اور تمہاری بیماری نہیں جھیل سکتی ۔ سارا دن اس بدبودار ماحول میں رہ کر میرا دم گھٹنے لگا ہے ۔ تم تو کسی قابل نہیں ہو ۔ زندگی بھر کے لئے معذور ہوچکے ہو ۔ میں اب تمہاری کوئی تیمارداری نہیں کرسکتی ۔ اور نہ تمہارے ساتھ رہ سکتی ہوں ۔اپنی ساری زندگی تم جیسے معذور کے نام نہیں کرسکتی ۔ میں اپنے گھر جارہی ہوں ۔ مجھے طلاق چاہئے‘‘ ۔
’’طلاق ۔ طلاق ۔ طلاق‘‘ عارف کے دماغ پر یہ الفاظ ہتھوڑے کی طرح لگے ۔ وہ سکتہ کے عالم میں بیوی کو دیکھنے لگا جو اسے نفرت انگیز نظروں سے گھورتے ہوئے باہر نکل رہی تھی ۔
عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے