زنا سے حاملہ خاتون سے نکا ح

سوال : ہندہ کے زید سے ناجائز تعلقات رہے اور وہ اس سے حاملہ ہوئی۔ اس کے بعد ہندہ کا بکر سے نکاح ہوا۔ شادی کے چار ماہ بعد معلوم ہوا کہ ہندہ سات ماہ کی حاملہ ہے۔ پھر وہ حمل ضائع ہوگیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندہ کا بکر سے جو نکاح ہوا وہ برقرار ہے یا تجدید نکاح ضروری ہے ؟
محمد افروز، عنبر پیٹ
جواب : جس عورت کو زنا سے حمل ہے اس کا بحالتِ حمل نکاح کرنا شرعاً درست و جائز ہے، مگر وضع حمل تک عاقد کو ایسی عورت سے صحبت نہیں کرنا چاہئے۔ ملا مسکین برحاشیہ فتح المعین جلد 2 ، ص : 22 ۔ کتاب النکاح میں ہے۔ (و) حل تزوج ( حبلی من زنا) ولکن لا یطوْھا حتی تضع حملھا عندھما (لا من غیرہ) أی لا یحل تزوج حبلی من غیر زنا۔
پس صورت مسئول عنہا میں ہندہ کو زید سے زنا کا حمل تھا، بحالتِ حمل ہندہ سے بکرنے جو عقد کیا ، وہ جائز ہے اور اب حمل ضائع ہوجانے کے بعد بکر، ہندہ سے صحبت کرسکتا ہے ، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں۔

نماز گاہ (مصلیٰ )کا حکم
سوال : تحریر خدمت ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مقدس کے مطابق ساری زمین آپ کے لئے مسجد بنادی گئی اور اسی بنیاد کے تحت امریکہ اور یوروپ کے ممالک میں کئی ایک چرچ خریدکر مساجد میں تبدیل کردئے گئے جس میں باضابطہ پانچ وقت باجماعت نمازیں ادا کی جاتی ہیں لیکن افسوس یہاں ہمارے لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ نماز گاہ (مصلیٰ ) یا اور کوئی دوسرے ہال یا عمارتیں مساجد نہیں بن سکتیں۔ لہذا آپ سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں اسلام اور شریعت کی رو سے جو صحیح فتویٰ ہو آپ ہمیں بتلائیں تو لوگوں کی رہنمائی کا باعث ہوگا۔
سید عبدالعظیم رضوی، کینیڈا
جواب : جب مسلمان کوئی زمین خرید کر اس پر مسجد بنادیں اور لوگوں کو نماز کی اجازت دیدیں، تب وہ شرعاً ’’مسجد‘‘ کہلائے گی اور تاقیامت مسجد ہی رہے گی ۔ اس کے برخلاف کوئی ہال کرایہ پر یا مستعار لیں یا اپنے گھر میں کوئی جگہ نماز کے لئے مقرر کرلیں تو شرعاً وہ مسجد نہیں رہے گی بلکہ وہ نماز گاہ کہلائے گی۔ اس میں مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

رکعتوں کی قضاء کرنا
سوال : نماز عشاء کی دوسری رکعت میں ایک شخص جماعت میں شریک ہوا۔ جب امام دوسری اور چوتھی رکعت میں بیٹھے تواس نئے شخص کو اس وقت بیٹھ کر کیا پڑھنا چاہئے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت جو اس کی رہ گئی ہے اس کو کس طرح ادا کرنا چاہئے۔ یعنی سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسرا سورہ ملاکر پڑھنا چاہئے یا نہیں ؟
فردوس خان، مقطعہ مدار
جواب : امام جب قعدہ اولی، میں بیٹھے تو ایسے شخص پر امام کے ساتھ بیٹھنا واجب ہے اور ایسی صورت میں اس کو تین مرتبہ قعدہ کرنا ہوگا جن میں آخری قعدہ فرض اور پہلے کے دو واجب ہوں گے ۔ البحرالرائق ج : 1 ص : 18 میں ہے۔ ’’ فان المسبوق یثلاث من الرباعیۃ بقعد ثلاث قعدات کل من الاولیٰ والثانیۃ واجب الثالثۃ ھی الاخیرۃ وھی فرض ‘‘۔
چونکہ ہر قعدہ میں تشہد پڑھنا واجب ہے اس لئے اس پر ہر ایک قعدہ میں تشہد پڑھنا واجب ہوگا ۔ البحر الرائق کے اسی صفحہ میں ہے ’’ وکل تشھد یکون فی الصلوۃ محض واجب سواء کان اثنین او کثر کما علمتہ فی القعود‘‘ ۔ اور قعدہ اخیرہ میں امام کی پیروی کرتے ہوئے صرف تشہد پڑھنا کافی ہے ۔ درود اور دعاء ماثورہ کی ضرورت نہیں۔ فتاوی عالمگیری ہے۔ ج : 1 ص : 91 میں ہے ۔ ’’ ان المسبوق ببعض الرکعات یتابع الامام فی التشھد الاخیر و اذا تشھد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات ‘‘ اور تشہد کو امام کے سلام پھیرنے تک آہستہ آہستہ پڑھنا چاہئے ۔ چنانچہ اسی مقام ہے۔ ’’ ثم ماذا یفعل تکلموا فیہ والصحیح ان المسبوق یترسل فی التشھد حتی یفرغ عنہ سلام الامام کذا فی الوجیز للکردی، فتاویٰ قاضی خان و ھکذا فی الخلاصۃ و فتح القدیر ‘‘۔ باقی رکعتوں میں قراعت کا یہ حکم ہے کہ امام سلام پھیرنے کے بعد مقتدی جب رکعتوں کی تکمیل کے لئے کھڑا ہوگا تو پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورہ ملاکر پرھے گا جیسے وہ تنہا نماز پڑھنے کے وقت کرتا ہے اور باقی رکعتیں ضم سورہ کے بغیر ادا کرے گا ۔ فتاوی عالمگیری کے ص : 91 میں ہے (و منھا) انہ یقضی اول صلوتہ فی حق القراء ۃ و آخرھا فی حق التشھد‘‘۔

اہلسنت والجماعت
سوال : اہل سنت والجماعت سے مراد کیا ہے، اس کی تشریح اور تحقیق بیان کریں تو مہربانی ہوگی ۔ مجھے اہلسنت والجماعت کے عقائد معلوم ہیں لیکن میں اس کی تاریخ جاننا چاہتا ہوں، کب سے یہ اہل سنت والجماعت کا لفظ مسلمانوں میں عام ہو، اس مذہب کی تائید و حمایت کرنے والے کون رہے۔ براہ کرم مستند کتابوں کے حوالے سے بیان کیا جائے تو عین نوازش ۔
حافظ معین الحق، بھسل بنڈہ
جواب : اہل السنت کے لغوی معنی ہیں : سنت والے لوگ ۔ سنۃ لغوی اعتبار سے راستہ ، عادات ، رسم اور شریعت کو کہتے ہیں۔ اس اصطلاح سے مراد وہ باتیں ہیں جن کے کرنے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً و فعلاً دیا یا ان سے منع فرمایا (تاج ، بذیل مادہ سنۃ) ۔ امام راغب فرماتے ہیں کہ ’’ سنۃ النبی‘‘ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وہ طریق ہے جس پر آپ عملی زندگی میں کاربند رہے۔ سنت کی ضد بدعت ہے۔ سنت میں خلفائے راشدین کی سنت بھی شامل ہے (ابو داؤد، 4 : 281 )۔ حدیث کے الفاظ ہیں: علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (احمد : المسند ، 4 : 126 ، ابو داؤد ، کتاب السنۃ، باب 5 ) ۔
اہل السنت والجماعت کی ترکیب کے بارے میں علماء نے صراحت کی ہے کہ’’ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی طرز زندگی اور طریق عمل کو سنت کہتے ہیں۔ جماعت کے لغوی معنے تو گروہ کے ہیں، لیکن یہاں جماعت سے مراد جماعت صحابہ ہے‘‘۔ اس لفظی تحقیق سے اہل السنت والجماعت کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے، یعنی یہ کہ اس فرقے کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے جن کے اعتقادات ، اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت صحیحہ اور صحابۂ کرام کے آثار ہیں ۔ البغدادی نے ایک حدیث کی بناء پر اہل السنت کی ایک صفت یہ لکھی ہے : الذین ھم ما علیہ ھو و اصحابہ ، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتؐ کے طریقے (سنت) اور آپ ؐ کے اصحاب کے مسلک پر ہیں۔ البغدادی نے اہل السنۃ والجماعۃ ہی کو ’’ فرقۂ ناجیہ‘‘ ۔ قرار دیا ہے۔
مصلحین امت نے ہر دور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ ایسی ہی ایک کوشش اہل السنۃ والجماعۃ کی جامع اصطلاح ہے، جس کے دائرے میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو لانے کی کوشش کی گئی۔ اہل السنۃ والجماعۃ کی اصطلاح لفظی اعتبار سے اگرچہ دیر کے بعد ظہور میں آئی مگر عملی طور پر ملت کی غالب اکثریت آغاز ہی سے اس پر کار بند تھی اور ایسے مصلحین کی بھی کمی نہیں رہی جو ملت کی وحدت کے لئے ہمہ تن سرگرم رہے، مثلاً الاشعری سے پہلے المحاسبی (م 243 ھ / 857 ء) نے اہل سنت کے عقائد کی تا ئید کی اور اس کے لئے علم کلام کو استعمال کیا ۔ ہر کلمہ گو کو تکفیر سے محفوظ رکھنے کا خیال بھی ہمیشہ موجود رہا (الشہرستانی : الملل والنحل ، ص 105)
تیسری / چوتھی صدی ہجری میں اہل السنت والجماعت کی تائید و حمایت کے لئے اور معتزلہ کے ردعمل کے طور پر دو طاقتور تحریکیں اٹھیں۔ ان میں سے ایک تو اشاعرہ کی تحریک تھی، جس کے بانی ابوالحسن الاشعری تھے۔ دوسری تحریک ماتریدیہ کی ہے، جس کے بانی ابو منصور الماتریدی (م 333 ھ / 944 ء) تھے ۔ دونوں تحریکوں کا مقصد ایک ہی تھا، یعنی اہل السنت والجماعت کے عقیدے کی حمایت ۔ الاشعری اور الماتریدی بہت سے بنیادی مسائل میں مکمل اتفاق رکھتے تھے، صرف چند ایک فروع میں اختلاف تھا، مگر یہ معمولی نوعیت کا تھا (ظہر الاسلام ، 4 : 92 ) ۔ الماتریدی کے کلامیہ مسلک کی تائید و حمایت جن ممتاز حنفی علماء نے کی ان میں علی بن محمد البزدوی (م 413 ھ) ، علامہ تفتازانی (م 793 ھ ) ، علامہ نسفی (م 537 ھ) اور علامہ ابن الھمام (م 861 ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح امام اشعری کے کلامیہ مسلک کی تائید میں بھی علماء کی ایک بڑی جماعت میدان میں آئی۔ ان میں امام ابوبکر الباقلانی (م 403 ھ) ، عبدالقاہر البغدادی (م 429 ھ) ، علامہ ابن عساکر (م 492 ھ) ، امام غزالی (م 505 ھ) اور امام فخرالدین الرازی (م 606 ھ) کے نام بڑی اہم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں (ظہر الاسلام ، 4 : 73 )
اہل السنت والجماعت کے عقائد کو خلفا و سلاطین کی حمایت و سرپرستی بھی حاصل رہی۔ عباسی خلفاء میں سے خلیفہ المتوکل علی اللہ کے دور میں اہل سنت کے مسلک کا حکومتی سطح پر فروغ ہوا اور اس مسلک کو سرکاری سرپرستی اور حمایت حاصل ہوئی۔ اسی لئے المتوکل کو محی السنۃ (سنت کو زندہ کرنے والے) کا خطاب ملا (مُرُوج الذھب ، 2 : 369 ) ۔ مصر اور شام میں سلطان صلاح الدین ایوبی (م 589 ھ / 1193ء) اور ان کے وزیر القاضی الفاضل نے مسلک اہل السنت والجماعۃ کو سرکاری مذہب کی حیثیت دی۔ بدعات کو ختم کرنے کے لئے فرمان جاری کئے گئے اور مدارس میں مالکی و شافعی فقہ کی تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ (ظہرالاسلام ، 4 : 97 ) ۔ اسی طرح مغربی افریقہ اور اندلس میں بھی مسلک اہل السنت والجماعت کو سرکاری حمایت حاصل ہوئی۔ محمد بن تومرت (522 ھ / 1128 ء) الموحدون کا سربراہ تھا اور اس نے امام غزالی کی خدمت میں زانوے تلمذتہ کیا تھا ۔ جب خدا نے اسے اقتدار بخشا تو اس نے جو کچھ اپنے استاد سے سیکھا تھا اسے عملی طور پر نافذ کیا (ظہر الاسلام ، 4 : 98 )۔ دولت غزنویہ کے سربراہ سلطان محمود غزنوی نے بھی مسلک اہل السنۃ والجماعت کی پر زور حمایت کی اور اسے سرکاری مسلک کی حیثیت دے کر تقویت و تائید بخشی (ظہرالاسلام ، 4 : 99 )

معذور کا وضو اور نماز
سوال : جب نماز کا وقت شروع ہوتا ہے اور میں وضو بناتی ہوں تو وضو کے دوران مجھے (ریاح) گیس خارج ہونے لگتے ہیں پھر شروع سے وضو کرنا پڑتا ہے اور وضو بناکر نماز کیلئے کھڑی ہوتی ہوں ایک یا دو رکعتوں کے بعد پھر گیسیس خارج ہوکر وضو ٹوٹ جاتا ہے پھر نماز کے درمیان سے اٹھ کر وضو بنانا پڑتا ہے اور باقی دورکعت مکمل کرنا پڑتا ہے اسی طرح نماز کے دوران تین تا چار مرتبہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اکثر فجر کی نماز میں مجھے ڈر رہتا ہے کہ بار بار وضو بنانے میں کہیں فجر کی نماز کا وقت ختم نہ ہوجائے۔برائے کرم شرعی حل بتلائیں۔
سیدہ تسکین فاطمہ، خلوت
جواب : ایسا شخص جسے شرعی عذر لاحق ہو یعنی وہ اس عذر کی وجہ سے اپنی نماز مکمل نہ کرسکتا ہو اور دوران نماز وضو ٹوٹ جاتا ہو تو شرعاً ایسے شحص کو معذور کہتے ہیں۔ مستحاضہ اور ایسا شخص جس کو پیشاب کے خطرے مسلسل ٹپکتے ہوں یا وہ شخص جسے خروج ریح کی بیماری ہو شرعاً معذور ہے ۔ معذور کے لئے شریعت اسلامیہ میں یہ سہولت ہے کہ وہ ہر نماز کے وقت پر وضو بنالیں اور اپنی فرض نماز کے علاوہ جتنی چاہیں نفل نمازیں تلاوت قرآن وغیرہ پڑھ لیں اس درمیان اگر عذر لاحق ہو بھی جائے تو اسے وضو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر اس نماز کا وقت ختم ہوجائے اور دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے تو اسے دوبارہ نیا وضو بنانا ہوگا۔لقولہ علیہ السلام الوضوء عند کل صلواۃ (ابو داؤد ح : 297 ج 1 ص : 135 )