ڈاکٹر فاروق شکیل
اجمالی تعارف :
نام : احمد علی، قلمی نام : احمد علی شابؔ ، پیدائش : 22 نومبر 1903 ء ، وفات : 20 اگست 1977 ء ، تعلیم : فارسی اور عربی کی تعلیم والد اور والدہ سے دسویں کامیاب ، کتابیں : (1 ’’تخیل شابؔ‘‘ (ابتدائی کلام ) ، (2 ’’توشۂ آخرت‘‘ (مسائل فقہ) ، (3 ’’تاب شکیب‘‘ (اخلاقی مثنوی) ، (4 ’’کائناتِ شاب‘‘ (دیوانِ اول) ، (5 ’’تخلیقاتِ شاب‘‘ (دیوانِ دوم) ، (6 ’’وجدانیات شاب‘‘ (دیوان سوم) ، (7 ’’تبرکات شاب‘‘ (نعتیہ دیوان ، (8 ’’بو قلموں‘‘ (نظموں کا مجموعہ)، (9 ’’رباعیات شاب‘‘ (مجموعہ رباعیات) ، (10 ’’ندائے ہاتف‘‘ (حصہ اول تا دم ۔ تاریخی قطعات) ، (11 ’’اوامر (جلد اول تا پنجم ۔ مختصر تفسیر قرآن) ، (12 ’’آدم تا ایں دم ‘‘ (تاریخ اسلام ) ، (13 ’’ژالہ برلالہ ‘‘ (مجموعہ قطعات و رباعیات) ، (14 ’’شاب بینی‘‘ (سوانح عمری ) ، (15 ’’ہفت اقلیم جلیل‘‘ (استاد جلیلؔ کے کلام پر تبصرہ)، (16 ’’اصلاح جلیل‘‘ (کلام شاب پرجلیل کی اصلاحیں) ، خطاب : افضل الشعراء ‘‘ (ادبی انجمنوں کی جانب سے) ، تلمذ : فصاحت جنگ جلیل۔
احمد علی شابؔ کو تمام اصناف سخن پر دسترس حاصل تھی۔ کلام میں بھرپور کلاسکیت تھی ۔ 1926 ء میں شابؔ نے علامہ اقبال سے شرفِ تلمذ کی غرض سے انہیں اپنی ایک نظم ’’چشم تر‘‘ ارسال کی اور حلقۂ تلامذہ میں شامل کرنے کی گزارش کی لیکن علامہ اقبال نے جواباً انہیں لکھا‘‘ اس خدمت سے معاف فرمایئے کہ میں بہت عدیم الفرصت ہوں اور مشورہ دیا کہ اس زبان کو اب نظم سے زیادہ نثر کی ضرورت ہے۔ چنانچہ احمد علی شابؔ نے شاعری کے علاوہ اردو ادب میں نثری تخلیقات کا بھی اضافہ کیا ۔ ان کا حلقہ تلامذہ بھی وسیع تھا چند اہم تلامذہ میں معلم عبیدی، الہام واحدی، خیرالدین وکیل، عبدالسلام روحی، فریدا لدین عطاؔ، حبیب الدین قدسیؔ، عزیز الدین فطرت، الہام واحدی نے اپنے استاد کی شخصیت اور فن پر مقالہ تحریر کر کے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
منتخب اشعار :
سانپ بن جائے ہم نشیں نہ کہیں
مجھ کو ڈس لے یہ آستیں نہ کہیں
جگنو کی طرح شابؔ جو چمکے تو کیا ہوا
شعلہ نہیں ہے آگ نہیں ہے دھواں نہیں
ہے بس فریبِ نظر کچھ بھی آسماں پہ نہیں
زمیں کوچۂ جاناں اگر وہاں پہ نہیں
یکساں ہے مرے حق میں قفس ہو کہ نشین
ائے شابؔ اگر دونوں جہاں قیدِ مکاں ہو
جو بات مرے دل میں ہے وہ کہہ نہیں سکتا
تلوار میں پانی ہے مگر بہہ نہیں سکتا
لٹائے گی صدف کیا ایک گوہر بند مٹھی سے
یہ آنکھیں ہیں کہ منہ جو کھول دیتی ہیں خزانے کا
قطعہ
رنگ اُڑتا ہے بو نہیں جاتی
جان جاتی ہے خو نہیں جاتی
شابؔ جاتے ہیں اس جگہ ہم تو
جس جگہ آبرو نہیں جاتی
غزل
خالی نہیں خامی سے کوئی اہلِ ہنر بھی
تلوار بھی خم رکھتی ہے قاتل کی کمر بھی
بیمار کو مصحف کی ہوا دیتے ہیں اکثر
جن سینوں میں قرآن ہے وہ بنتے ہیں سپر بھی
اس جلوہ گہہ ناز میں کیا چیز ہیں ذرے
بے تاب ہیں بے چین ہیں جب شمس و قمر بھی
کیوں نام سے گرنے کے مرے جاتے ہیں انساں
تارے بھی گرے چرخ سے شاخوں سے ثمر بھی
محروم نہیں عشق کی گرمی سے کوئی شئے
پتھر میں بھی اک قلب ہے اور اس میں شرر بھی
میں آتشِ دوزخ کو بجھادوں گا مگر شابؔ
ہے شرط یہی ساتھ رہے دیدۂ تر بھی