زمانہ میری ضرورت پہ طنز کرتا ہے

رشیدالدین
کوئی شخصیت ہو کہ پارٹی وہ زائد عرصہ تک خود کو مخفی نہیں رکھ سکتے اور کسی نہ کسی دن اصلیت کا پول عوام کے روبرو کھل جاتا ہے ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین کا کچھ یہی حال ہے۔ پارٹی کی پالیسی پر آر ایس ایس کے اثرات اور قائدین کو سنگھ پریوار کی ذہن سازی کسی نہ کسی دن تو بے نقاب ہونی تھی لیکن اقتدار ملتے ہی چند دن میں ہی یہ ذہنیت آشکار ہوجائے گی، کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ دراصل گزشتہ 10 برسوں کی محرومی کے بعد اقتدار کے حصول نے بی جے پی قائدین کو بے قابو کردیا ہے۔ ترقی اور بہتر حکمرانی کے نعرے کے ساتھ انتخابی مہم چلانے والی بی جے پی اور اس کے قائدین حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی اپنی اوقات پر اتر آئے ہیں۔ بی جے پی کا خفیہ ایجنڈہ اور حساس موضوعات پر دوہرا معیاران رائے دہندوں کیلئے باعث حیرت ہے جنہوں نے ترقی کے نعرے پر بھروسہ کرتے ہوئے 30 برس بعد بی جے پی کو اقتدار کیلئے درکار اکثریت سے نوازا۔

یوں تو رام مندر، یکساں سیول کوڈ اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دستور کی دفعہ 370 کی برخاستگی ، اس وقت بھی بی جے پی کے ایجنڈہ کا حصہ تھی جس وقت اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے لیکن بی جے پی کی حکومت حلیف جماعتوں کی تائید پر ٹکی ہوئی تھی اور وہ خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری کے سلسلہ میں مجبور تھی ۔ اب جبکہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی لوک سبھا میں اپنے نشانہ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئی تو قائدین خفیہ اور نفرت پر مبنی ایجنڈہ پر عمل کرنے میں بے قابو دکھائی دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نفرت اور جارحانہ فرقہ پرستی کی علامت سمجھے جانے والے نریندر مودی کو اپنے ساتھیوں کے جذبات کو روکنے اور قائدین پر کنٹرول میں دشواری محسوس ہورہی ہے۔ مودی اپنی گجرات کی شبیہہ کو درست کرتے ہوئے دامن پر لگے داغ دھوکر وزارت عظمیٰ پر واجپائی کا ریکارڈ توڑنا چاہتے ہیں۔ لہذا وہ بظاہر خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری میں عجلت اور تیزی کے حق میں نظر نہیں آتے لیکن سنگھ پریوار کیسے خاموش رہ سکتا ہے کیونکہ اس کے پیش نظر ہندو راشٹر کا نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت تو بظاہر نریندر مودی کی ہے لیکن اس کی باگ ڈور سنگھ کے ہاتھ ہے۔ نریندر مودی نے 26 مئی کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ کا حلف لیا اور پہلے ہی دن سے دنیا کی نظروں میں خود کو اعتدال پسند قائد کے طور پر متعارف کرنے کی کوشش کی ۔ پاکستان سے خوشگوار تعلقات کے سلسلہ میں اٹل بہاری واجپائی کی تقلید کے تحت سارک کے تمام رکن ممالک کے سربراہوں کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی

، حالانکہ اصل نشانہ تو پاکستان تھا۔ بی جے پی نے سمجھا تھا کہ شاید نواز شریف دہلی نہیں آئیں گے اور انتخابی مہم کی طرح بی جے پی کو مخالف پاکستان مہم آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا ۔ دنیا بھر میں مودی کی واہ واہی اور پاکستان کی مذمت ہوگی لیکن وزیراعظم کے عہدہ پر طویل تجربہ رکھنے والے نواز شریف نے دعوت قبول کرتے ہوئے معاملہ الٹ دیا ۔ جو لوگ کل تک پاکستان کے خلاف کہنے سے نہیں تھکتے تھے ، وہ نواز شریف کی میزبانی اور خاطر تواضع میں مصروف دیکھے گئے ۔ حکومت کے جائزہ لیتے ہی مخالف اقلیت پالیسی عیاں ہونے لگی جو پارٹی انتخابی مہم میں مساوی انصاف اور ترقی میں برابر کی حصہ داری کے وعدوں کے ذریعہ اقلیتوں کی دل جوئی میں مصروف تھی، اقتدار ملتے ہی اسے اقلیتوں کے مراعات کھٹکنے لگے ہیں۔ جو قوم دلت سے زیادہ پسماندہ ہے، جس کا ثبوت سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات ہیں۔ اس کو دیگر پسماندہ طبقات کی طرح تحفظات فراہم کئے گئے تو بی جے پی اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔ اقلیتی امور کی وزیر اور مرکزی حکومت میں واحد مسلم چہرہ اس قدر بھیانک ہوگا، کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ نجمہ ہبت اللہ نے وزارت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی اقلیتوں کو تحفظات کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ مسلمانوں کو اقلیت تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ۔ ان کی نظر میں صرف پارسی طبقہ ہی اقلیت ہے۔ مودی کابینہ کی سب سے ضعیف العمر وزیر شاید یہ بھول رہی ہیں کہ انہیں مسلم کوٹہ کے تحت وزارت میں شامل کیا گیا۔ اگر وہ اس زمرہ کے تحت نہیں ہیں تو پھر انہوں نے یہ قلمدان کیوں قبول کیا۔ ان کی وزارت کا نام تو دراصل ’’بہبودیٔ پارسی طبقہ‘‘ ہونا چاہئے اور مسلم اور دیگر اقلیت کیلئے کسی اور وزیر کو نامزد کیا جائے۔ بعض انسان ضعیف العمری میں سٹھیا جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے وزارت میں 70 سال سے زائد عمر والوں کو شامل نہیں کیا۔ پتہ نہیں کس طرح نجمہ ہبت اللہ اس شرط سے بچ گئیں ؟ انہیں جان لینا چاہئے کہ وہ جن مسلمانوں کیلئے تحفظات کی مخالفت کر رہی ہیں، ان سے نسبت کے طفیل میں مودی نے تحفظات کے تحت ہی انہیں کابینہ میں جگہ دی اور عمر کی حد میں رعایت دی گئی۔

مسلمانوں کے نام پر وزارت کا حصول اور پھر اسی قوم سے غداری۔ واہ رے قوم کے رہنما ۔ عوام کی یادداشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ وہ نجمہ ہبت اللہ کو بھول جائیں۔ جس وقت وہ کانگریس میں نائب صدرنشین راجیہ سبھا کے عہدہ پر فائز تھیں تو مسلمانوں کی پسماندگی پر مگرمچھ کے آنسو خوب بہائے۔ کانفرنسوں اور سمینارس میں کی گئی ان کی تقاریر آج بھی عوام کو یاد ہیں جس میں انہوں نے مسلمانوں کی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے مراعات کا مطالبہ کیا تھا ۔ کانگریس میں رہتے ہوئے انہوں نے کبھی بھی تحفظات کی مخالفت نہیں کی۔ پھر بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ ہی اچانک یہ تبدیلی کیوں؟ آج تحفظات کی مخالفت تو ہوسکتا ہے کہ کل اقلیتوں کیلئے دستور میں دی گئی مراعات کے خاتمے اور اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس کی ترویج کے حق کی بھی وہ مخالفت کریں گی۔ اس طرح بی جے پی کو یکساں سیول کوڈ کی تائید میں نجمہ ہبت اللہ جیسا ایک چہرہ مل جائے گا۔ جن کی رگوں میں کانگریس کا خون دوڑ رہا ہے اور جو مولانا ابولکلام آزاد سے نسبت رکھتی ہیں، ان کی یہ رائے اس عظیم قائد کی توہین اور اس خاندان پر کلنک کی طرح ہے۔ مولانا آزاد نے نامساعد حالات کا سامنا کیا لیکن آخری سانس تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی آواز اٹھانے کیلئے الزامات اور رسوائی کی پرواہ نہیں کی اور اظہار حق سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اگر کوئی کم تعلیم یافتہ یا ’’12 ویں جماعت‘‘ تک تعلیم یافتہ اس طرح کی بات کرے، پھر بھی قابل معافی ہے لیکن نجمہ ہبت اللہ نے تو ماسٹر ڈگری کی حامل اور پانچ کتابوں کی مصنف ہیں، جن کا شمار اسکالرس میں ہوتا ہے۔ عمر کے اس حصہ میں اس طرح کے خیالات دماغی خلل کے سوا کچھ نہیں۔ کیا نجمہ ہبت اللہ واقعی بی جے پی کی وفادار ہیں کہ پہلے ہی دن انہوں نے حکومت کی شبیہہ کو بگاڑ دیا یا پھر خوشامد اور چاپلوسی کی تمام حدوں کو پار کردیا ہے۔ بی جے پی جو نہیں کہہ سکی اس نے نجمہ ہبت اللہ سے ان باتوں کو دہرانے کا کام لیا ۔ وزیر سماجی انصاف تھاور چند گہلوٹ نے اقلیتوں کو تحفظات کو غیر دستوری قرار دیدیا۔ مرکز کی یو پی اے حکومت نے ڈسمبر 2011 ء میں اقلیتوں کیلئے 4.5 فیصد تحفظات کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ آندھراپردیش میں 4 فیصد تحفظات برقرار ہیں۔ یہ دونوں معاملات سپریم کورٹ میں زیر دوران ہیں کیونکہ مرکزی حکومت نے تحفظات کے حق میں حلفنامہ داخل کیا ہے ۔ اب اندیشہ ہے کہ بی جے پی حکومت سپریم کورٹ میں تحفظات کا دفاع نہیں کرے گی کیونکہ اس کی پالیسی تحفظات کے خلاف ہے۔ اس طرح تحفظات پر خطرہ منڈلانے لگا ہے۔
وزیراعظم کے دفتر میں مملکتی وزیر جتیندر سنگھ نے دفعہ 370 پر پہلے ہی دن تنازعہ کھڑا کردیا ۔ اس مسئلہ پر تائید اور مخالفت میں بیان بازی شروع ہوگئی ۔ اس طرح بی جے پی اپنے ایجنڈہ میں شامل ایک حساس موضوع کو زیر بحث لانے میں کامیاب ہوگئی ۔ اس مسئلہ پر جموں و کشمیر کے چیف منسٹر عمر عبداللہ نے ووٹ بینک کی سیاست شروع کردی ۔ حالیہ انتخابات میں عوامی تائید سے محرومی کے بعد انہیں سیاسی مقصد براری کا ایک مسئلہ مل گیا۔ دفعہ 370 کو ہندوستان سے جموں و کشمیر کی علحدگی سے جوڑنا اسی طرح غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ اس طرح مرکزی وزیر نے اپنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ دفعہ 370 کی برقراری کیلئے نیشنل کانفرنس کو دستوری اور قانونی طور پر جدوجہد کا اختیار حاصل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 370 رہے یا نہ رہے، کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ رہے گا اور کوئی حکومت اسے اس خصوصی موقف سے محروم نہیں کرسکتی۔ نریندر مودی نے اپنی وزارت میں مظفر نگر فساد کے اہم ملزم سنجو بلیان کو مملکتی وزیر زراعت کے طور پر شامل کیا۔ اسی طرح بابری مسجد کی شہادت پر رقص کرنے والی خاتون کو وزارت میں جگہ دی گئی جبکہ اسی خاتون نے بی جے پی سے ناراضگی کے دور میں مودی کو ’’وکاس پرش نہیں بلکہ وناش پرش‘‘ قرار دیا تھا۔ وزیر داخلہ کا حلف لیتے ہی راجناتھ سنگھ آر ایس ایس قائدین کے دربار میں پہنچ گئے۔ کیا یہ بی جے پی کی حقیقی ایجنڈہ پر واپسی کی علامتیں نہیں ہیں؟ ہندو توا کا مکھوٹا لگائے کئی قائدین مودی کی حلف برداری کے موقع پر بے نقاب ہوگئے۔ مہاراشٹرا میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو میچ کھیلنے اور کسی فنکار کو پروگرام کی اجازت نہ دینے والی شیوسینا کے سربراہ اودھو ٹھاکرے حلف برداری تقریب میں موجود تھے جبکہ پاکستانی وزیراعظم کی موجودگی میں شیوسینا کے وزیر نے حلف لیا۔ دن رات پاکستان کو دھمکیاں دینے والے اشوک سنگھل اور مودی کو ووٹ نہ دینے پر پاکستان بھیج دینے کا اعلان کرنے والے گری راج سنگھ راشٹرپتی بھون میں مودی اور نواز شریف کی ملاقات پر مسکرا رہے تھے۔ ہندوستان کے ایک سپاہی کے سر کے بدلے 10 پاکستانی سپاہیوں کے سر قلم کرنے کا اعلان کرنے والی سشما سوراج کو نواز شریف کی مہمان نوازی میں مصروف دیکھا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا لیکن راشٹرپتی بھون میں جس وقت دونوں قائدین ملاقات کیلئے بڑھ رہے تھے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے دو بچھڑے ہوئے دوست ملاقات کر رہے ہوں۔ اجمیر شریف کے خانگی دورہ پر آنے والے وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کی بریانی سے تواضع کرنے پر سلمان خورشید اور کانگریس کو بار بار تنقید کا نشانہ بنانے والے نریندر مودی نے دو دن تک نواز شریف کی مہمان نوازی کی۔ ظاہر ہے کہ دو دن میں یقیناً بریانی بھی ضیافت کا حصہ رہی ہوگی۔ مودی دور حکومت کے آغاز پر اقلیتوں کو درپیش مسائل کے سلسلہ میں معراج فیض آبادی کا یہ دعائیہ شعر یاد آگیا ؎
مرے کریم مجھے بھی قلندری دیدے
زمانہ میری ضرورت پہ طنز کرتا ہے