زلزلہ انسانی قابو سے باہر۔ زلزلہ سے محصلہ سبق

ایم اے خسرو
نیپال میں زلزلہ کی تباہی سے انسانی جانوں اور مالوں کا آفت سماوی سے زبردست نقصان ہوا۔ نامور عالم دین ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اس با ت پر روشنی ڈالی کہ ہم کو آف سماوی سے کیا سبق سیکھنا چاہیئے، اور اس پر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیئے۔ وہ جے آئی ایچ ہیڈکوارٹر س پر ’’ زلزلہ اور اس سے حاصل ہونے والا سبق ‘‘ کے عنوان پر 2مئی کو نئی دہلی میں خطاب کررہے تھے۔ فاضل مقرر نے کہا کہ حالیہ زلزلہ میں تقریباً 10ہزار انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ انہوں نے مختلف آفات سماوی میں ضائع ہونے والی انسانی جانوں کے اعداد و شمار پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ سائنسدانوں کے بموجب کرۂ ارض میں سالانہ تین لاکھ 50ہزار مرتبہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جاتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ان زلزلہ کے جھٹکوں کے پیمائش کیلئے ایک پیمانہ ’ ریختر پیمانہ‘ ایجاد کیا ہے۔ اس سے ایک تا 3 درجہ کے زلزلہ کے جھٹکوں کی پیمائش کی جاسکتی ہے لیکن اس سے کوئی نقصان یا ضرر نہیں پہنچتا۔ 4تا6درجہ کا زلزلہ کا جھٹکا تھوڑا نقصان اور ضرر پہنچاتا ہے۔ لیکن 7 درجہ سے زیادہ شدت کے زلزلوں سے زبردست نقصان ہوتا ہے۔ نیپال کے حالیہ زلزلہ کی شدت 7.8 تا 8.1 درجہ تھی۔ اس سے ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔
زلزلہ کی وجہ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ندوی نے کہا کہ زلزلہ کرۂ ارض کے اندر شدید حدت پیدا ہونے سے آتا ہے۔ حدت زمین میں بڑے بڑے قطعات کو متحرک کردیتی ہے جو باہم ٹکراتے ہیں۔ زمین کی یہ حرکت زلزلہ کہلاتی ہے۔ کرۂ ارض کا ایک نقہ ماسکہ ہوتاہے جہاں سے یہ ارتعاش دیگر مقامات کو 14کیلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے منتقل ہوتا ہے۔
زلزلہ پر عوام کے رد عمل پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر ندوی نے کہا کہ جب زلزلہ آتا ہے تو ہمیں عام طور پر چار قسم کے ردعمل دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا بے حسی ہے جس میں لوگ کوئی اثر ہی نہیں لیتے۔ اس تمام حالت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود حسب معمول زندگی گذارتے ہیں۔ دوسرا ردعمل پیشہ ورانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آس پاس موجود ہوتے ہیں ان ہولناک مناظر کی ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی میں مصروف ہوتے ہیں۔ انہیں متاثرین کی مدد کی پرواہ نہیں ہوتی اور نہ وہ بچاؤ کارروائی کرتے ہیں۔ تیسرا ردعمل امپائریکل وجوہات کی وضاحت کرتا ہے۔ زلزلہ کے بعد اخبارات میں مختلف مضامین شائع ہوتے ہیں، رسالوں میں چھپتے ہیں جو زلزلہ کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہیں۔ چوتھا ردعمل اسلامی ردعمل ہے۔
اسلامی ردعمل میں مقرر نے قرآن مجید کی کئی آیات پیش کیں جن میں انسانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ کسی آفت سماوی کی صورت میں ہمیں تیزی سے اللہ سے رجوع ہونا چاہیئے۔ مقرر نے کہا کہ ہمیں نماز ادا کرنی چاہیئے اور گناہوں کی مغفرت طلب کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عذاب الہی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ یہ فیصلہ صرف اللہ اور اس کے رسول ہی کرسکتے ہیں۔