زعفرانی نعرے کی بدبختانہ مہم

ظلمتیں ہیں متحد اور منقسم ہے روشنی
بے بسی سے دیکھتے ہیں ظلمتوں کا رقص ہم
زعفرانی نعرے کی بدبختانہ مہم
ہندوستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کا سلسلہ نیا نہیں ہے لیکن جب سے زعفرانی پارٹی کو سیاسی طاقت حاصل ہوئی دھیرے دھیرے ہندوستانی عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کا ناپاک عمل شدت سے شروع کیا گیا ہے ۔ ہندوتوا کے قائدین نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے، کل تک پروین توگاڑیہ کی زہر افشانی نے سیکولر معاشرہ کو مضطرب کردیا تھا ۔ اب بی جے پی کے ایم پی یوگی ادتیہ ناتھ نے دو مختلف مذاہب کے نوجوانوں میں معاشقہ اور شادی کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے اسے’’ لو جہاد‘‘ کا نام دے کر ایک گمراہ کن مہم شروع کردی ہے ۔ اس طرح کے افراد کی موجودگی سے معصوم اور بے قصور نوجوانوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔ مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت آنے کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ حکومت چلانے کیلئے جن انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوتا ہے ، اس کا دور دور تک پتہ نہیں ہے ۔ کسی بھی معاشرہ میں بہترین نظام وہ ہے جس سے زیادہ سے زیادہ انسانی صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں مگر بی جے پی حکومت میں انسانی صلاحیتوں کا نفرت پھیلانے کیلئے استعمال ہورہا ہے تو یہ معاشرہ کیلئے ایک المیہ سے کم نہیں ۔ لو جہاد کے حوالے سے سیاسی پارٹیاں بھی تذبذب کا شکار معلوم ہوتی ہیں، خود حکمراں بی جے پی نے اس مسئلہ پر اپنے قائدین کے بیانات پر خاموش اختیار کی ہے تو دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔ لو جہاد کے تنازعہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے ، یہ سارا قصہ میڈیا کی ایجاد کردہ ہے ۔ کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے مسلمانوں اور ہندوؤں میں نفرت پھیلانے کا الزام بی جے پی پر عائد کیا ہے۔ ہندوتوا کی تنظیم وشواہندو پریشد نے ’’لو جہاد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں خاص کر مسلم نوجوانوں کو پھانسنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کرنے کے لئے مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنساکر تبدیلی مذہب کیلئے مجبور کر رہے ہیں۔ وشوا ہندو پریشد کو اپنی بقا کیلئے کسی نہ کسی موضوع کا سہارا لینا ضروری ہے ، اس لئے ایسی تنظیموں کی گمراہ کن مہم کا موثر جواب دیا جانا چاہئے۔ بی جے پی کو اب اپنے بوسیدہ اور ناکام حربوں کو ترک کردینا ہوگا کیونکہ مرکز میں ایک ذمہ دار پارٹی کی حیثیت سے حکمران کا فرض ادا کر رہی ہے ۔ اسے اپنے قائدین پر لگام کستی ہوئی جو غیر ضروری بیانات دے کر ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ بن رہے ہیں، اس پر الزام عائد کیا جارہا ہے وہ انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ اس لئے اس طرح کے مسائل اچھال کر سماج کو منقسم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، یہاں پر ایک شہری کو پنی پسند کی زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے ۔ قانون کی حکمرانی بھی موجود ہے تو ہندو پریشد یا زعفرانی ٹولے کو غیر ضروری تنازعہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔ ہندوتوا کے اہم قائدین جیسے بال ٹھاکرے ، ایل کے اڈوانی اور اشوک سنگھل کے گھرانوں کی لڑکیوں نے مسلم نوجوانوں سے شادی کی ہے ۔ مختار عباس نقوی اور شاہ نواز حسین دونوں بی جے پی کے اقلیتی قائدین ہیں، ان کی ازدواجی زندگی کا معاملہ ذاتی و خانگی نوعیت کا ہے تو ہندوتوا گروپ کے افراد دیگر مسلم نوجوانوں کے خلاف تنازعہ پیدا کر کے نفرت کا ماحول بنارہے ہیں تو اس پر فوری کارروائی ہونی چاہئے ۔ لو جہاد کی اصطلاح کا استعمال اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ معاشرہ میں بے چینی پیدا کی جائے۔ بین مذہبی شادیوں پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے ۔ کسی بھی فر دکو تبدیلی مذہب کیلئے زبردستی نہیں کی جاتی کیونکہ مذہب کا انتخاب ذاتی پسند اور مرصی سے ہوتا ہے ۔ لہذا بی جے پی اور اس کی محاذی تنظیموں کو معاشرہ کے اندر نفرت پیدا کرنے کا خ طرناک کھیل فوری روک دینا ہوگا ۔ آر ا یس ایس اور اس کی تنظیموں نے لو جہاد اور ہندو قوم جیسے مسائل اٹھاکر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کا ارادہ کرلیا ہے تو یہ ایک خطرناک کوشش ہے جس کو روکنا معاشرہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے ۔ آزادی کے بعد سے اس ملک میں لو جہاد کا نام نہیں سنا گیا مگر زعفرانی ٹولے نے اپنے سیاسی فائدے کیلئے عوام میں پھوٹ ڈالنے کا نیا حربہ اختیار کیا ہے ۔ ملک کے حالات حاضرہ یعنی قومی معاشری بدحالی کا جو طوفان عامتہ الناس کو گھیرنے جارہا ہے اس سے انہیں بے خبر رکھنے کیلئے زعفرانی طاقتوں نے چند واقاعت کو ہوا دینا شروع کیا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ زعفرانی طاقتوں کا کارواں کتنا پراعتماد اور ہندوستان کے سیکولر عوام کتنے بے بس ہیں ۔