امن تیرا بھارت خطرے میں ہے!
محمد غوث علی خاموش
ATS (Anti Terrorism Squad) مہاراشٹرا نے 10 اگست کو تین زعفرانی دہشت گرد ویبھو راوت، شرد کلاسکر اور سدھانوا دھوندلکر کو ملک کے اندر دہشت و شورش کی تیاری کرنے بھاری مقدار میں دھماکو مادہ ہتھیار وغیرہ کے ساتھ گرفتار کرکے بیداری کا بہترین ثبوت دیتے ہوئے اپنی مستعدی کا لوہا منوایا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہندودہشت گرد ملک کے اندر زعفرانی انقلاب لانے کی جدوجہد میں لگے ہیں کہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا جائے۔ اسی کوشش میں سناتن سنستھا تنظیم کا اصلی چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے اور اے ٹی ایس مہاراشٹرا نے سناتن سنستھا تنظیم کے کارکنوں کو بم دھماکوں کی تیاری اور دہشت پھیلانے کے منصوبوں کے ساتھ گرفتار کرکے ہندوتوا علمبردار دہشت گرد تنظیموں کا خوفناک و خطرناک چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ اے ٹی ایس کاپال گھر۔نالاسوپارہ۔ ممبئی۔ شولا پور۔پونا سے سناتن سنستھا کے دہشت گردوں کو یوں خطرناک بم دھماکوں کی سازش کے تحت گرفتار کرنا اور ان کے ہاں سے بھاری مقدار میں دھماکو مادہ برآمد ہونا ملک کے امن پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ کیوں کہ مرکزی حکومت کی گائو رکھشکوں سے دہشت گرد ہندو تنظیموں تک معنی خیز خاموشی ہندو۔ راشٹر کی راہ ہموار کرنے میں مدد کررہی ہے۔ اس کے لیے چاہے ملک کا امن غارت کیوں نہ ہوجائے اس کا واضح ثبوت خود سناتن سنستھا کے کارکنوں کا گرفتار ہونا ہے۔ پھر بھی نہ مرکز حرکت میں آئی اور نہ میڈیا کے حلق سے سچائی کی آواز بلندی کے ساتھ نکلتی ہے۔ اب فرقہ پرست سیاستداں میڈیا کی آواز پر بھی اپنی حکومت کرنے لگے ہیں۔ اسی لیے تو کھلے عام میڈیا پر سیاسی دبدبہ نظر آرہا ہے اور اگر ملک تباہی کے دہانے پر آکھڑے ہوا تو اس کی ذمہ دار میڈیا بھی رہے گی، جوسیاسی دبدبہ سے اپنی ذمہ داری بھول بیٹھی ہے۔ جبکہ کوئی مذہب کا دہشت گرد کیوں نہ ہو اسے میڈیا جڑ سے ختم کرنے تک اپنا رول ا دا کرتی ہے لیکن موجودہ حالات کچھ برعکس ہوتے جارہے ہیں۔ میڈیا بھی زعفرانی سیاستدانوں کے خطرناک عزائم کو پورا کرنے میں معاون رول ادا کررہی ہے جس کے سبب ملک کے اندر شورش کی چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں جو کہیں شعلہ بن کر سارے ملک کے امن کو جلا نہ ڈالے! 2009ء میں گوا کے بم دھماکوں کے بعد وہاں کے IG کے ڈی سنگھ نے صاف رپورٹ دے دی تھی اور 2011ء میں مہاراشٹرا اے ٹی ایس نے بھی سناتن سنستھا سے متعلق دہشت گردی کی مستند رپورٹ تیار کرکے حکومت کو خبردار کیا تھا اور تب کے وزیر اعلی مسٹر پرتھوی راج چوہان نے اس رپورٹ کو مرکز کے حوالے کرکے سناتن سنستھا تنظیم پر امتناع عائد کرنے کی مانگ کی تھی۔ مگر ایسا ہرگز نہ ہوسکا۔ ابھینو بھارت اور سناتن سنستھا گو میں ہر سال ہندو راشٹر سمیلن کا انعقاد کرتے آرہی ہیں جس میں صرف ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ سال 2012ء NIA (National Investigation Agency) کی رپورٹ بھی ان دہشت گردوں کے پھیلے نیٹ ورک کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ تنظیمیں مہاراشٹرا کے پربھنی۔ پورنا۔ ناندیڑ اور گوا کے بم دھماکوں میں شامل رہی۔
اس کے ساتھ ساتھ اجمیر شریف دھماکے، مکہ مسجد بم دھماکے میں بھی ان تنظیموں کے تار ملنے کے واضح ثبوت ہیں۔ پھر بھی افسوس کہ اتناسب کچھ ہونے کے باوجود سناتن سنستھا ہندوجاگرن سمیتی جیسی زعفرانی دہشت گرد تنظیموں پر امتناع کی جرأت نہیں کی جارہی ہے۔ اگر یہی کارستانی کسی مسلم تنظیم کے کارکنوں سے ہوتی تو ملک بھر کے تمام ٹیلی ویژنوں پر یہی ایک خبر نشر ہوتی اور چینل چیخ چیخ کر مسلم دہشت گردی کی خوب تشہیر کرتے نظر آتے! سیاسی طاقتوں کے آگے میڈیا یوں بے بسی کا مظاہرہ کرکے تاریخی خطا کررہی ہے۔ اس لیے کہ ہمارا ملک جمہوری ملک ہے یہاں اقتدار پر سیاستداں آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ ان آنے اور جانے والوں سے میڈیا اگر دبائو میں آتی رہی تو پھر عوام کا صحافت پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا! جبکہ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ اکثریتی طبقہ کو سچ کا آئینہ دکھائے، فرقہ پرست سیاسی جماعتوں اور زعفرانی دہشت گردوں کے مشن ہندوراشٹر کے نام پر دیئے جارہے دھوکے اور بربادی سے آگاہ کروانا، ملک کے امن کو خطرے سے باہر نکالنا چاہئے لیکن اگر میڈیا ہی سیاسی آغوش کی تمنائی رہے تو پھر ملک کا مستقبل کیا ہوگا…؟ دہشت گرد مسلم ہو کہ غیر مسلم میڈیا انہیں کیفر انجام تک پہنچانے میں زبردست رول نبھاسکتا ہے اور ان سے ملک کو نجات دلاسکتا ہے۔ ملک کی سلامتی کے لیے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا جاسکتا ہے تاکہ ملک کے امن کو برقرار رکھا جاسکے، دہشت گرد، تنظیموں کے سروں پر اس طرح حکومت کا ہاتھ رہے گا تو شورش ہمارا مقدر بن جائے گی۔ مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے ایماندار و جانباز آفیسر مسٹر ہیمنت کرکرے جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، انہوں نے 2008ء کے مالیگائوں دھماکوں کے بعد زعفرانی دہشت گردوں کو بے نقاب کیا تھا۔ جس سے سادھوی پرگیہ ٹھاکر، سوامی اسیمانند، کرنل پروہت، مہنت دیانند پانڈے اور کئی خطرناک دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا۔ یہ تمام اہنیو بھارت تنظیم کے کارکن تھے۔ مگر افسوس کہ جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ 2014ء میں بی جے پی کے اقتدار سنبھالتے ہی ان تمام زعفرانی دہشت گردوں کے مقدمات کا رنگ ہی بدل گیا اور پھر زعفرانی رنگ کی جیت ہوگئی۔ کیوں کہ عدالتوں کو دہشت گردوں سے متعلق ٹھوس ثبوت اصل حالت میں پیش نہ کیے جاسکتے۔ پھر بھی 10 اگست کو مہاراشٹرا اے ٹی ایس نے یہ ثابت کردیا کہ اْ بھی اے ٹی ایس ملک کی سلامتی کے لیے متحرک و چوکس ہے۔ اسی لیے تو ایکبار پھر اے ٹی ایس کے ہاتھ دہشت گردوں کی گردنوں تک پہنچ گئے۔ مگر مرکز کو یہ زعفرانی دہشت گردی نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ اسی لیے تو خطرناک عزائم کا پردہ فاش ہونے کے بعد بھی سناتن سنستھا پر کوئی پابندی نہ لگی اور نہ اس تنظیم کے عزائم سے ملک کی عوام کو صد فیصد آگاہ کروایا گیا۔ مرکز کی نظراندازی پر سکیولر ذہن کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کررہی ہے کہ دہشت گردوں کے سروں پر آج بھی زعفرانی حکومت کا ہاتھ ہے۔ اور میڈیا بے چاری بے بس ہے…! گوری لنکیش جیسے دیانتدار صحافی ماردیئے جاتے ہیں اور پنیا پرسن باچپائی جیسے صحافی نکال دیئے جاتے ہیں۔ سیاسی طاقتوں نے میڈیا کی حد کا شاید دائرہ کھینچ رکھا ہے۔ اسی لیے تو میڈیا جھکی جھکی نظر آرہی ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں کے مالکان پر بھی سیاسی دباؤ صاف نظر آتا ہے کہ کہیں ہمارا چینل کا ٹی آر پی نہ کم ہوجائے۔ اسی لیے تو سچے صحافی اپنی سچائی لیے ایک چینل سے دوسرے چینل کو بھٹک رہے ہیں۔ اور کچھ راج دیپ دیسائی اور راوش کمار جیسے نڈر و بیباک صحافی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کامل طریقہ سے میڈیا اگر صداقت کا دامن پوری طاقت کے ساتھ تھام کر یہ عزم کرلے کہ ملک کی آغوش سے شورش، فرقہ پرستی، ظلم، دہشت گردی جڑ سے ختم کرنا اور ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنانا ہی مقصد عین ہے تو پھر زعفرانی دہشت گرد تنظیموں کے سروں سے سیاستدانوں کے ہاتھ اٹھ سکتے ہیں اور سناتن سنستھا، ہندو راشٹریہ سینا، رام سینا، ہندو جاگرن سمیتی، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، درگا واہنی، شری رام سینا، ابھینو بھارت جیسی فرقہ پرستی کا زہر اگلنے، دہشت پھیلانے والی، ملک کا امن تباہ کرنے والی تنظیمیں اور ان کے تمام دہشت گرد سلاخوں کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔ ضرورت ہے ملک کی سالمیت اور امن کو برقرار رکھنے کی۔ زعفرانی طاقت تو ملک کی فکر نہیں کررہی ہے اسے تو فقط اقتدار کی فکر ہے اور مذہبی جنون کو شباب پر رکھنے کی حتی الامکان کوشش کررہی ہے۔ جبکہ اب تک ہی خراب فیصلوں سے ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے اب ا من بھی درہم برہم ہوجائے تو پھر ملک کا امن قصہ کہانیوں میں ہی رہ جائے گا۔ انقلابی شاعر جناب حبیب جالب نے بھی کیا خوب کہا ہے !
فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر