زعفرانی حکومت میں جنگل راج کی بدترین مثال

محمد شارب ضیاء رحمانی
بھگوا راج میں جنگل راج کی بدترین مثالیں سامنے آرہی ہیں ۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں دلتوں کا استحصال ، گجرات کی پٹیل تحریک اور جے این یو کے ڈرامہ کے پس منظر میں غنڈہ راج کے بعد ملک سنگھیوں کے ’من کی بات‘ سمجھ چکا ہے ۔ جاٹ آندولن میں پورا ہریانہ جل رہا ہے ، ٹریفک اورآبی وسائل بری طرح متاثر ہیں ، جو بی جے پی کے جنگل راج کی کھلی مثال ہے ۔ ہر انصاف پسند یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ جن سے سپریم کورٹ کے حکم کی حفاظت نہ ہوسکی اور جو لوگ ذیلی عدالت کو سیکورٹی مہیا نہ کراسکے ، ان کے ہاتھوں میں ملک کتنا محفوظ ہے ؟ڈکٹیٹرشپ جمہوری حکومت میں ناقابل قبول ہے ۔ اظہار رائے کی آزادی ، اداروں کی خود مختاری اور عدالتوں کا احترام سیکولر ملک کی ضرورت ہے ۔ ادھرکے دنوں میں جس طرح بھگوا رنگ کوملک پر مسلط کرنے کی پوری کوشش ہورہی ہے  ۔حیدرآباد یونیورسٹی سے لے کر دہلی یونیورسٹی اور اب جے این یو میں بھگوا طبقہ ماحول بگاڑنے میں مصروف عمل ہے ۔ پارلیمانی سیشن میں بنیادی سوالات پر اپوزیشن سے بچنے اور کمیونسٹوں کو چھیڑ کر بنگال الیکشن کو متاثر کرنے کیلئے جے این یو کا فکس ڈرامہ رچا گیا ہے ۔ ایسے میں بہت ضروری ہے کہ اپوزیشن کی توجہ ان بنیادی سوالات سے ہرگز نہ ہٹے جن کو بی جے پی دبانا چاہتی ہے ۔ حیدرآباد یونیورسٹی کے دلت اسکالر روہت کی روح کی آواز کو کمزور کرنے کیلئے جے این یو کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہے کیونکہ سرکار اس موضوع پر بیک فٹ پر جاچکی تھی ۔ وزیر داخلہ نے جے این یو کے مبینہ واقعہ کے اگلے ہی دن یہ بیان دیا تھاکہ اس نعرے بازی میں لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے ۔ ظاہر ہے کہ وزیر داخلہ ایک ذمہ دار شخص ہوتا ہے جو بغیر ثبوت اور احساس ذمہ داری کے کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دے سکتا، لیکن دہلی کے پولیس کمشنر نے اپنے سربراہ راج ناتھ سنگھ کے دعوے کے خلاف کہا کہ لشکر کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے ۔ اب حکومت سے جواب ضرور طلب کرنا چاہئے کہ وزیر داخلہ اور پولیس کمشنر میں سے سچ کون بول رہا ہے ۔ اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر کنہیا مجرم ہے تو بسّی نے ضمانت کی مخالفت سے انکار کیوں کیا ؟ اب جب کہ کنہیا پر حملہ کی میڈیکل رپورٹ بھی آچکی ہے تو پولیس کمشنر اب تک یہی فرمارہے ہیں کنہیا پر حملے کا الزام غلط ہے ۔

کشمیر کی پی ڈی پی افضل کو شہید مانتی ہے ، لہذا پی ڈی پی کی حمایت کرنے والی ، اس کی حمایت سے سرکار چلانے والی بی جے پی خود اپنے اصول کے مطابق ملک کی قیادت نہیں کرسکتی ۔ یہ نہیں معلوم کہ دوسروں کو پاکستان بھیجنے کا ویزا دینے والی پارٹی کے سربراہان پاکستان کیوں گھوم آئے ؟ لہذا امیت شاہ اینڈ کمپنی کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے ساتھ سرکار چلانے کی وجہ سے وہ اس فہرست سے باہر نہیں ہیں ۔ سبرامنیم سوامی ، جیٹلی اور امیت شاہ اپنی پارٹی کے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کیا دیش سے معافی مانگیں گے اور کیا پی ڈی پی کے ساتھ سرکار بنانے سے اب اسے توبہ نہیں کرنی چاہئے؟ ۔ پی ڈی پی کے ساتھ سرکار چلانے ، اس کے لیڈروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے پاپ کو دھوتے ہوئے اسے حب الوطنی کی سند پیش کرنی ہوگی لیکن حب الوطنی پر سند دینے کی ان کی اہلیت نہیں ہے ۔ ساتھ ہی محبوبہ مفتی سے بھی مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ افضل پر اپنے موقف کو واضح کریں اور بیان دیں ۔ بی جے پی نہ صرف بھلر جیسے دہشت گردوں کی ہمدرد پارٹی اکالی دل کے ساتھ ، ریاستی حکومت میں شامل ہے بلکہ بادل پریوار مرکزی کابینہ میں بھی موجود ہے ، کیا بی جے پی ، اپنی دیش بھکتی ثابت کرنے کیلئے انہیں کابینہ سے نکالنے اور پنجاب الیکشن اکالی دل کے بغیر لڑنے کی ہمت کرسکتی ہے ؟ بابا رام دیو نے کہا ہے کہ دیش دروہی سے یاری بھی غداری ہے ، گویا بابا نے بھی بی جے پی کو دیش دورہی کہہ ہی دیا ۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں یہ بنیادی سوال اٹھانا چاہئے ۔ وقت آگیا ہے کہ ملک بھر میں اس پر بحث ہونی چاہئے ، گو,سے کے پجاریوں سے دیش بھکتی کا سرٹیفیکٹ مانگا جائے اور ملک کو سنگھی تاریخ سے واقف کرایا جائے ۔

پوری طرح کنفیوژن پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے ، معاملہ کو ادھر سے ادھر جوڑا جارہا ہے ۔ یہ جتنا دیش بھکت بننے کی جھوٹی کوشش کررہے ہیں ، ان کی غداری وطن اور کھل کر سامنے آرہی ہے ۔ جس ویڈیو کے سہارے معاملہ کو گرمایا گیا ، اس کی پول کھل چکی ہے ۔ ملک مخالف نعرہ کی آڈیو 9 فروری کی ہے ، جسے کنہیا کی 11 فروری کی تقریر کے ساتھ ملایا گیا ہے ۔ چنانچہ ویڈیو کو ایڈیٹ کرکے میڈیا ٹرائل کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کچھ طلبہ نے بالفرض جے این یو کے احاطہ میں ملک مخالف نعرے بازی کی تو ضرور انہیں سزا ملنی چاہئے ، ملک کے وقار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ، اولاً یہ کہ پہلے اس کی تحقیق ہو کہ کیا یہ نعرے بازی کرنے والے باہر کے لوگ تھے ، اے بی وی پی کے لوگ تھے یا کوئی اور ۔ بھگوا پریوار تو یہ کہہ رہا ہے کہ جے این یو کو بند کردینا چاہئے یہ ملک مخالف عناصر کا اڈہ ہے۔ یہ مطالبہ تو ٹھیک ایسا ہی ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ وکلاء نے بدتمیزی کی تو وکالت کے پیشے کو ختم کردیا جائے ، ارون جیٹلی ، روی شنکر پرساد اور سبرامنیم سوامی جو خود پیشے سے وکیل ہیں ، ان پر پابندی لگنی چاہئے کہ عدالت کے احاطہ میں اب بی جے پی کے وکلاء نہیں جائیں گے ۔ اسی طرح بی جے پی ایم ایل اے اوپی شرما نے عدالتی احاطہ کے قریب غنڈہ گردی کی تھی تو کیا اب یہ کہا جائے کہ پوری بی جے پی کے لیڈران کو عدالت کے پاس پھٹکنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ سپریم کورٹ نے پہلے پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی نگرانی کی اور پولیس کو حکم دیا کہ سخت حفاظتی انتظامات کئے جائیں ۔ وکلاء اور میڈیا اہلکاروں کی کم از کم تعداد میں داخل ہونے کا حکم دیا لیکن پہلے تو پیشی کے وقت کنہیا پر حملہ کیا گیا ، پھر جب عدالت عالیہ نے چھ رکنی وکلاء کا وفد پٹیالہ ہاؤس کورٹ بھیجا تو انہیں بھی پاکستانی ایجنٹ کہا گیا  ،ان پر بھی حملہ کی کوشش کی گئی ۔ یعنی عدالت پر بھی ان سنگھیوں اور اصل دیش دروہیوں کو بھروسہ نہیں ہے ۔ میڈیا اہلکاروں نے کون سے نعرے لگائے تھے ، جو ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ۔ ان غنڈہ گروپوں پر عدالت عظمی نے سخت نوٹس لیتے ہوئے پولیس کمشنر کو بری طرح پھٹکار لگائی تھی ۔ قانون ، عدالت اور قومی نظام پر بھروسہ نہ رکھنے والوں اور کھلم کھلا عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کی دیش بھکتی کی اصل تصویر یہی ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے ایم ایل اے اوپی شرما اور وکیل وکرم سنگھ جیسے غنڈوں کو کن کی سرپرستی حاصل ہے ۔ اگر کسی نے قصور کیا بھی ہے اور وہ عدالتی کارروائی کا سامنا کررہا ہے تو اس سے شرمناک مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ قانون کے رکھوالے قانون ہاتھ میں لے کر عدالت کے حکم کی دھجیاں اڑائیں ۔ ان ایم ایل اے اور وکلاء کی صرف معطلی مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ ان پر غداری وطن کا کیس درج کرکے انہیں جیل رسید کیا جانا چاہئے ۔ صحافی ، میڈیا ، عدالتی نمائندے ، طلبہ ، تعلیمی ادارے عدم تحفظ کے شکار ہیں  ۔ بس آپ ظلم کو ظلم نہ کہیں ، جو وہ کرنا چاہتے ہیں ، انہیں کرنے دیں  ۔اگر سنگھیوں کے عزائم کے خلاف کوئی آواز اٹھائی گئی تو غداری کے زمرہ میں آجائیں گے ۔ آئین کو نہ ماننے والے اور ہندوستان کے آئین پر یقین نہ رکھنے والے ، یوم جمہوریہ پر ’’کالا دیوس‘‘ مناتے ہیں ، لیکن یہ غداری کے زمرہ میں نہیں ہے ؟ بہت ممکن ہے کہ اب جے این یو کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے ، کیونکہ معاملہ بی جے پی کے ہدف سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور اسے کنٹرول کرنے کا بس ایک ہی طریقہ اس کے پاس ہے کہ اسے مذہبی رنگ دیا جائے ، حدمت گزار میڈیا اس کی اس کوشش میں مصروف ہوچکا ہے ۔

اپوزیشن کو اہم بنیادی سوالات کو ہرگز نظر انداز نہیں ہونے دینا چاہئے ، روہت کی موت پر پردہ ڈالنے کی جو سازش ہورہی ہے اسے ناکام بنایاجائے ۔ ان تمام اہم پہلوؤں کو پوری مضبوطی کے ساتھ اٹھایا جائے کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے اس ماحول کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ وزیراعظم نریندر مودی بارہا اندرا گاندھی کے ذریعہ لگائی گئی ایمرجنسی پر کانگریس کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن آج ان کے راج میں ملک اسی صورتحال سے دوچار ہے ۔ ایک بار پھر اداروں کی خودمختاری کو متاثر کرکے ، طلبہ ، خواتین ، صحافیوں  ، اقلیتوں اور کمزوروں کی آواز دبا کر خوف کا ماحول پیدا کرکے سنگھی نظام نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ جمہوریت اور آئین کو بچانے کیلئے ملک کے سیکولرازم کے تحفظ کی مضبوط آواز تعلیمی اداروں سے اٹھی ہے ۔ ڈکٹیٹرشپ کے خلاف متحد ہو کر سیکولرازم کی حفاظت کی ذمہ داری ہر ذمہ دار شہری محسوس کررہا ہے جس سے ملک کے سیکولرازم کے بچنے کی تھوڑی سی امید ضرور جاگی ہے ۔