کلدیپ نیر
یہ بدبختی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) غیر سرکاری تنظیموں کو ہراساں کررہی اور شکاری کتوں کی طرح ان کا پیچھا کررہی ہے ۔ غالباً پارٹی قائدین کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ اس کے کئی ارکان خود بھی ماضی میں غیر سرکاری تنظیمیں چلا چکے ہیں ۔ جب مسز اندرا گاندھی کے آمرانہ طرز حکمرانی کی کامیاب مزاحمت کرتے ہوئے جن سنگھ جنتا پارٹی میں ضم ہوئی تھی تو وہ انسانی حقوق کی سربلندی کے لئے جد وجہد کا ایک حصہ تھی جسے اس وقت کی برسراقتدار پارٹی کانگریس نے بے رحمی سے کچل دیا تھا ۔ یہی لوگ اب غیر سرکاری تنظیموں کے دشمن کیسے ہوسکتے ہیں ؟
رضاکارانہ تنظیموں کے حسابات کی باقاعدگی سے وزارت فینانس کی جانب سے جانچ کی جاتی ہے ۔ تمام بیرون ملک عطیہ جات سرکاری ذرائع سے ان غیر سرکاری تنظیموں کو حاصل ہوتے ہیں ۔ کسی بھی گول مال کا بہت کم کوئی امکان ہے ۔ طریقہ کار کی یہ تبدیلی ہراسانی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ سابق حکومتیں اس شعبہ کے لئے جس میں کارکن سرگرم ہوتے ہیں فوری طور پر ضروری رقومات کے غیر مختتم انتظار کی تکمیل کے لئے وسائل کی منظوری دیا کرتی تھیں ۔
مجھے حیرت ہے کہ بی جے پی گاندھی امن فاؤنڈیشن کے خلاف تحقیقات کو کیسے بھول گئی جس نے 1980 میں مسز گاندھی کے برسراقتدار آنے کے بعد کالے دھندے کرنے کی بنا پر جانچ کا سامنا کیاتھا ۔ اس وقت کے جن سنگھ کارکنوں پر غیر ضروری پابندیاں عائد کی گئی تھیں ۔ بی جے پی جن سنگھ کا صرف نیاروپ ہے جس نے آزادی تقریر اور آزادی کے انفرادی حق کے اظہار کے لئے تحریکوں میں حصہ لیا تھا۔
میں تیتسا سیتلواد اور جاوید آنند دونوں سے واقف ہوں ۔ یکجہتی کے سلسلہ میں دونوں کا کردار بے داغ ہے ۔ فرقہ وارانہ طاقت کے خلاف ان کی انتھک جد وجہد سیکولرازز کی کتاب کا درخشاں باب ہے ۔ بی جے پی کا ہندو نظریہ کی سمت جھکاؤ بدبختانہ ہے ۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ تنگ نظری کے خلاف جد و جہد کررہے ہیں ، وہ ہمارے دستور کے سیکولر جذبہ کی اہمیت سمجھتے ہیں ۔ ایسا سمجھنا غلط فہمی ہوگی ۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد دستور ساز اسمبلی نے حکمرانی کے کئی طریقوں کے بارے میں بحث کی لیکن سماج کے تمام گوشوں نے سیکولر سیاست کی تائید کی ۔ اس کی مخالفت کا مطلب ان قربانیوں کا مذاق اڑانا ہوگا جو لاکھوں عوام نے ایک جمہوری سیکولر جمہوریہ کے قیام کے لئے دی ہیں ۔ مبینہ طور پر وزیراعظم نریندر مودی گجرات فسادات کے پس پردہ تھے جس میں ہزاروں مسلمان ہلاک ہوئے خود انھوں نے مذہبی خطوط پر معاشرہ کی تقسیم کرنے کے خطرات محسوس کرلئے ہیں ۔ یہ ایک صحت مند تبدیلی ہے کہ خود مودی نے برسرعام کہا ہے کہ ’’سب کی سرکار ، سب کا وکاس‘‘ (حکومت سب کی ، ترقی سب کی) ۔ بغیر سوچے سمجھے چند بی جے پی ارکان جو آر ایس ایس کے زیر اثر ہیں اقلیتی طبقے کے ارکان کے دشمن ہوگئے ہیں ۔ اس حد تک کہ انھوں نے گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی ہے اور ’’گھر واپسی‘‘ کے بہانے تبدیلی مذہب میں ملوث ہورہے ہیں ۔ مودی کو کسی نہ کسی مرحلہ پر مداخلت کرکے انھیں ہندوستان کو بدنام کرنے سے روکنا ہوگا جس کی رواداری کے جذبہ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے احساس کی ستائش کی جاتی ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ یہودیوں کا ایک وفد مجھ سے ملاقات کے لئے آیا تھا جبکہ میں لندن میں ہندوستان کا ہائی کمشنر تھا ۔ یہ وفد مجھ سے اظہار تشکر کرنا چاہتا تھا اور احسان مندی ظاہر کرنا چاہتا تھا کیونکہ ہندوستان رواداری کے لئے مشہور تھا ۔ انھوں نے کہا کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہودیوں کو کسی بھی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ اس وقت تک حکومت ہند نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا پھر بھی وہ اسے کوئی مسئلہ بنانا نہیں چاہتے تھے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ سیکولرازم جس کی جڑؤں کو اب تک کافی گہرائی تک اتر جانا چاہئے تھا ، ایسا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے ۔ہندوستان نے معاشی اعتبار سے ترقی کی ہے جیسا کہ آزادی کے ساٹھ سال بعد اس کو کرنا چاہئے تھا ۔ غالباً تیز رفتار معاشی ترقی ہی اسکا جواب ہے ۔ اس پس منظرمیں دیہاتوں کی پسماندگی ہماری ناکامی کا ثبوت ہے ۔ کاشتکار ہندوستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ لیکن وہی سب سے زیادہ مصائب کا شکار ہیں۔ ملک گیر سطح پر ان کی خودکشیاں اسکا اشارہ دیتی ہیں کہ ان تک پیداوار کا فائدہ نہیں پہنچا ۔ بنیادی ضرورت جیسے پینے کا صاف پانی بھی ان کے لئے ایک سراب ہے ۔
خوشحال ریاست مہاراشٹرا میں ایک اورکسان نے خودکشی کرلی ہے ۔ مارچ سے اب تک یہ نویں خودکشی ہے ۔ دیگر ریاستوں سے وصول ہونے والی خبریں بھی پریشان کن ہیں ۔ یہ کسان اپنی زرعی پیداوار کی زیادہ قیمت حاصل نہیں کرسکے ۔ جبکہ لاگت میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ راجستھان کے ایک کسان کی ایک جلسہ عام میں خودکشی جو ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہوئی ۔ میرے خیال سے یہ موت ہر ایک کے دل کے تاروں کو جھنجھوڑ کررکھ دے گی ۔ قوم سنجیدگی سے اس بات کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے گی کہ کاشتکاروں کی حالت کیسے بہتر بنائی جائے ۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں غلطی پر تھا ۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا ، بالکل درست ۔ وزیراعظم مودی نے بھی اظہار رنج کیا لیکن اس کے فوری بعد حسب معمول کاروائی شروع ہوگئی ۔ کاشتکار کو بھلادیا گیا ۔ کاشتکاروں کی قسمت کیسے بدلی جائے میں اس کا خاکہ پیش کرنے سے قاصر ہوں ۔ درحقیقت پارلیمنٹ میں حصول اراضی قانون کی پیشکشی ظاہر کرتی ہے کہ کارپوریٹ شعبہ من مانی کررہا ہے ۔کاشتکاروں کے اندیشے ایک لازمی شرط تھے جنھیں مسترد کردیا گیا ۔ معاملہ کو پس منظر میں ڈھکیل دیا گیا ۔ یہاں تک کہ اپوزیشن کا جلوس جس کی قیادت صدر کانگریس سونیا گاندھی نے کی ، داستان ماضی بن گیا ۔ مجھے یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ ملک کے 67 فیصد افراد کھیتوں پر انحصار کرتے ہیں جو اب قاتل زمینیں بن گئے ہیں ۔
کارپوریٹ شعبہ بے شک ملازمتیں فراہم کرتا ہے لیکن اسے زرعی شعبہ پر ترجیح دینا جنگ آزادی کی اقدار کی خلاف ورزی ہوگا ۔ گاندھی جی نے دیہی عوام کو مرکز توجہ بنایا تھا ۔ شور و غل سے بھرپور شہر سے ایک چھوٹے سے مقام واردھا منتقل ہوگئے تھے جو بعد میں ایک اہم قصبہ بن گیا ۔ این جی اوز گاندھی جی کا کام آگے بڑھارہے ہیں ۔ 900 این جی اوز پر منظوری سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے کیونکہ انھوں نے اپنے حسابات مناسب انداز میں نہیں رکھے ہیں ۔ ان کی آمدنی کی جانچ کا مقصد بحیثیت مجموعی ان رقومات کا پھیلاؤ ہونا چاہئے ۔ ان سے حساب کتاب رکھنے کی توقع غلط ہے لیکن آخری پیسہ کا خرچ کا بھی حساب طلب کرنا غلط ہے ۔ یہ انتہا ہے ۔ کیونکہ ان تنظیموں کے کارکن دن رات جد و جہد میں مصروف رہتے ہیں ۔
تیستا اور آنند آزمائش میں مبتلا کردئے گئے ہیں ۔ انھیں حکومت کے نظریہ سے جوڑنا نہیں چاہئے کیونکہ نظریاتی اعتبار سے ان میں بعد المشرقین ہے ۔ ایک جامع معاشرہ کا نمائندہ ہے جبکہ دوسرا ایک انتشار پھیلانے اور تقسیم کرنے کی مہم میں مصروف ہے ۔ دونوں کا بقائے باہم ناممکن ہے ۔ آزادی سیکولر جمہوری معاشرے کے لئے حاصل کی گئی تھی اور اس معاشرے کو اپنے اس مقصد کے ساتھ قائم رہنا چاہئے ۔