زبان حق کو یہاں اختیار تھوڑی ہے

شریعت اسلامی … دنیاوی قانون سے بالاتر
مسلمانوں پر حملے… حکومت خاموش

رشیدالدین
شریعت اسلامی پر پھر ایک بار بری نظریں پڑنے لگی ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دینے اور اس شرعی حق کا استعمال کرنے والے افراد کو سزا دینے کی تیاریاں جاری ہیں۔ شریعت اسلامی کوئی انسانی قانون نہیں کہ کسی پارلیمنٹ یا اسمبلی کی قانون سازی سے تبدیل کردیا جائے۔ یہ دراصل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طئے کردہ قانون ہے جو دنیاوی قوانین سے بالاتر ہے۔ دنیاوی قوانین اور شرعی قوانین میں فرق یہی ہے کہ دنیاوی قوانین کو جب چاہیں کسی ترمیم کے ذریعہ تبدیل کیا جاسکتا ہے اور یہ بسا اوقات حکومت کی مرضی کے مطابق تیار کئے جاسکتے ہیں اور تبدیلی بھی ممکن ہے۔ برخلاف اس کے شرعی قوانین کو کوئی بھی طاقت تبدیل نہیں کرسکتی اور اگر کوئی ڈکٹیٹر اور آمر حکمراں قانون سازی کرتا بھی ہے تو اس کا اطلاق شریعت پر نہیں ہوگا۔ مسلمان شریعت کے پابند ہیں ، نہ کہ دنیاوی قوانین کے۔ جن معاملات میں دنیاوی قوانین شریعت سے ٹکراتے ہیں تو کوئی بھی مسلمان شریعت سے پہلو تہی اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی اولین ترجیح ایمان ہے۔ ڈسمبر میں پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا آغاز ہوگا اور بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اس سیشن میں طلاق ثلاثہ کے خلاف بل پیش کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ اس سلسلہ میں قائم کردہ وزارتی کمیٹی نے مسودہ بل تیارکرلیا ہے جس پر وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنی مہر ثبت کردی۔ پارلیمنٹ کے اجلاس سے عین قبل اس بل کو کابینہ کی منظوری حاصل کرتے ہوئے دونوں ایوانوں میں پیش کردیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ احکامات کی روشنی میں مرکزی حکومت قانون سازی میں عجلت کر رہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکومت کو اس سلسلہ میں قانون سازی کی ہدایت دی تھی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل آوری سے قبل ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی رائے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ویسے بھی سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کو مسلم پرسنل لا کے تحفظ سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ اسلامی شریعت تو ہمیشہ انہیں کھٹکتی رہی ہے۔ اب تو انہیں ایک موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ عدالت کی آڑ میں مخالف شریعت قانون سازی کریں۔ کسی بھی قانون کی تیاری سے قبل ملک میں یہ روایت ہے کہ اگر اس قانون سے قابل لحاظ آبادی متاثر ہوتی ہے تو ان سے مشاورت کی جائے لیکن یہاں تو معاملہ کچھ الٹا ہی ہے۔ سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ مقدمہ کی سماعت کے دوران غیر محسوس طریقہ سے مخالف اسلام تنظیموں نے ملک بھر میں مہم چلائی اور بعض نام نہاد اور روشن خیال مسلمانوں کی تائید حاصل کی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی زندگی میں شریعت کا کوئی دخل نہیں۔ ایسے افراد ٹی وی اور اخبارات میں شریعت اسلامی کی تشریح کرتے دیکھے گئے۔ بی جے پی کے ایجنڈہ میں ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ طویل عرصہ سے شامل ہے اور یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شریعت کے خلاف مجوزہ قانون سازی دراصل یکساں سیول کوڈ کی سمت ایک قدم ہے۔ شریعت کے خلاف قانون سازی کے مرحلہ تک پہنچنا دراصل ہماری خاموشی اور کمزوری کا نتیجہ ہے۔ حکومت بھلے ہی مخالف شریعت ہو لیکن ہم نے بھی تو اپنی آواز نہیں اٹھائی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ ہی اگر ہم خواب غفلت سے بیدار ہوتے تو شاید حکومت کو قانون سازی کی ہمت نہیں ہوتی۔

اگر یہی بے حسی جاری رہی تو مستقبل میں اس طرح کی مزید قانون سازیوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ شاہ بانو کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ ہی مسلمانوں نے بلا لحاظ مسلک ایمانی حرارت کا ثبوت دیا تھا اورحکومت کو دستوری ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ کے احکامات کو بے اثر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آج ہمیں دوبارہ اسی طرح کی ایمانی حرارت کے مظاہرہ کی ضرورت ہے۔ شریعت کے تحفظ کے لئے پھر ایک بار مسلمانوں کیلئے امتحان کی گھڑی آ پہنچی اور یہ ایمان کا اصلی امتحان ہے۔ شاہ بانو مقدمہ کے وقت ملک میں مسلمانوں کی جو قیادت تھی ، آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہی۔ قیادت تو ہے لیکن وہ ایمانی حرارت اور جذبہ دکھائی نہیں دیتا کہ جن کی ایک آواز پر حکومتوں کے ایوان لرز جاتے تھے۔ آواز میں اس طرح کی طاقت کیلئے اخلاص اور للٰہیت ضروری ہے۔ آج وہ بے لوث قیادت کہاں کہ جس نے شریعت کے تحفظ اور ملک میں مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے اپنی آخری سانس تک قربانیوں کی مثال قائم کی تھی۔ پارلیمنٹ آئندہ ماہ شریعت مخالف بل کی منظوری کی تیاری کر رہا ہے اور دوسری طرف مسلم پرسنل لا بورڈ جس پر شریعت کے تحفظ کی ذمہ داری ہے ، اپنا اجلاس فروری میں طلب کیا ہے۔ جس طرح ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ملک کے حالات اس قدر سنگین ہیں کہ پرسنل لا بورڈ کو روزانہ کی اساس پر اجلاس طلب کرنا چاہئے۔ مخالف شریعت قانون سازی کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل ہی ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے اور حکومت پر واضح کردیا جائے کہ شریعت کے خلاف کوئی بھی قدم قابل قبول نہیں ہوگا۔ فروری میں اجلاس تک حکومت اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوجائے گی اور اس اجلاس کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ حکومت بھلے ہی مخالف ہو لیکن ہم اپنے حوصلوں کو پست نہ کریں بلکہ تمام جمہوری طریقے اختیار کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرے اور اس طرح حکومت کو جھکایا جاسکتا ہے۔ عوام کے آگے کوئی بھی حکومت بے بس ہوتی ہے، شرط یہ ہے کہ احتجاج موثر اور احتجاج کرنے والے بے لوث ہوں۔ حکومت کو جان لینا چاہئے کہ کوئی بھی سرکاری حکمنامہ شریعت کو کالعدم نہیں کرسکتا۔ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق دیا ہے۔ لہذا حکومت کی قانون سازی دستور کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مخالف شریعت قانون کی تیاری ایک سنگین مسئلہ ہے اور یہ مسلمانوں کے تشخص سے مربوط ہے۔ اس کے لئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے مدلل انداز میں ان کوششوں کا جواب تو دیا لیکن ضرورت پرسنل لا بورڈ کے ایکشن کی ہے۔ دستور میں 1950 ء سے آج تک 101 ترمیمات کی جاچکی ہیں۔

ایک طرف شریعت کے خلاف سازشیں جاری ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کو مذہب اور نسلی امتیاز کی بنیاد پر نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں تک گائے کے نام پر گاؤ دہشت گردوں نے معصوم و بے قصور مسلمانوں کا خون بہایا اور اب تازہ ترین واقعہ میں دینی مدارس کے علماء کو اترپردیش جانے والی ٹرین میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عدم رواداری کے جذبات پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا رویہ افسوسناک ہے۔ خاص طور پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں زعفرانی دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتوں کی سرپرستی میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گاؤ رکھشکوں نے اب تک جن مسلمانوں کو نشانہ بنایا ان میں سے ایک پر بھی الزام ثابت نہ ہوسکا کہ وہ گائے کو کاٹنے کیلئے لے جارہے تھے۔ اخلاق ، پہلو خاں اور حافظ جنید کے بعد اب اترپردیش میں دینی مدارس کے علماء شرپسندوں کا نشانہ بنے ہیں۔ ان کا محض قصور یہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور اپنی شناخت داڑھی اور سر پر ٹوپی کے ساتھ ہیں۔ رات کی تاریکی میں اشرار نے انہیں ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کرلی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ہندوستان میں اب ٹرین کا سفر بھی محفوظ نہیں رہا ہے، حالانکہ ریلوے پولیس کے عہدیدار ٹرین میں سیکوریٹی کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ ملک میں گزشتہ تین برسوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جذبہ جس شدت کے ساتھ پروان چڑھا ہے یہ ملک کی یکجہتی اور ترقی کیلئے اچھی علامت نہیں۔ عالمی تجارتی ادارے عدم رواداری کے واقعات کے بعد سے ہندوستان کو حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ گائے کے نام پر انسانوں کا خون بہایا گیا اور شاید سنگھ پریوار کو اس پر اطمینان نہیں ہوا، لہذا مسلمان کی شناخت رکھنے والوں کو بھی چن چن کر نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد دراصل مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا ہے، انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی جارہی ہے ، جیسے وہ ملک میں دوسرے درجہ کے شہری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا جتنا حق ہے ، مسلمانوں کا بھی برابر کا حصہ بنتا ہے۔ ویسے بھی مسلمانوں نے ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا۔ اس طرح مسلمان ہندوستان میں کسی کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ اپنی قربانیوں اورمرضی سے ہیں۔ جن طاقتوں کو مسلمانوں کی حصہ داری پر اعتراض ہے ، ان کے پاس ملک کے لئے قربانیوں کی کوئی تاریخ نہیں۔ برخلاف اس کے کہ سنگھ پریوار نے جدوجہد آزادی میں انگریزوں کے لئے جاسوسی کا کام کیا تھا۔ عدم رواداری اور حملوں کے بڑھتے واقعات پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی افسوسناک ہے۔ وہ خود کو مخصوص طبقات کا وزیراعظم تصور کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ تمام 125 کروڑ عوام کے وزیراعظم ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں میں اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شیعہ پرسنل لا بورڈ کو مسلم پرسنل لا بورڈ میں ضم کرتے ہوئے تحفظ شریعت کے لئے متحدہ مہم چلائی جانی چاہئے۔ ملت میں انتشار کیلئے کوئی گنجائش نہیں اور اتحاد کے ذریعہ ہی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات پر حیدر علوی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے۔
فرشتوں کی ہے یہ بستی سیاسی لوگ ہیں یہ
زبان حق کو یہاں اختیار تھوڑی ہے