ریلوے بس سرویس مملکت آصفیہ کا ایک اہم کارنامہ

محمد عبدالقیوم
سابق نائب ناظم محکمہ آثار قدیمہ
ہندوستان میں دکن کا حصہ بہ نسبت بقیہ ہندوستان کے زیادہ بلند اور ناہموار اور پتھریلا ہے ۔ چنانچہ 2 اگست حیدرآباد کی سطح بھی 1250 ء سے لے کر 2500 فیٹ سطح سمندر سے بلند ہے جس میں جا بجا پہاڑی سلسلے اور شمال مغرب سے جنوب مشرق کی طرف بہتے ہوئے دریا نظر آتے ہیں ۔ علاقہ مرہٹواڑہ میں جو شمال کی جانب سیاہی مائل بھر بھرے پتھر کی ہے ، اس کی سطح اونچی اور کس قدر ہموار ہے۔ علاقہ تلنگانہ کی زمین بھر بھرے پتھر اور چونے کی ہے ۔ اس کی سطح ڈھلوان اور ناہموار ہے ۔ ریاست حیدرآباد میں زمین کی ناہمواری اور تجرات کی کمی کی وجہ سے مسائل آمد و رفت اتنے وافر نہیں تھے جتنے برطانوی ہند کے بعض صوبوں میں تھے لیکن پھر بھی بڑے بڑ ے مقامات پر سڑکیں اور ریالیاں موجود تھیں اور سر کار عالی کو ان کی ترقی و اصلاح کی خاص فکر رہی۔
ریاست فرخندہ بنیاد حیدرآباد دکن میں ریلوے لائن کی تعمیر کا مسئلہ سب سے پہلے 1860 ء میں اٹھایا گیا اور اہل دکن کو ہوائی رفتار کی طرح اس پر دوڑتے پھرنے کا شوق ہوا تو سکندرآباد اور واڑی کے درمیان (117) میل لمبی لائن 9 اکتوبر 1874 ء کو جاری کردی گئی اور اس کا پورا انتظام چار سال تک جی آئی پی ریلوے کے تحت رہا ۔ اس کے چھ سال تک ایک اور اسٹیٹ ریلوے ایجنسی کے تحت رہا ۔ جنوری 1885 ء سے نظام گیارنٹیڈ ریلوے نے اس خدمت کو ادا کیا ۔ اس دوران ریلوے کی ترقی کیلئے نہایت نمایاں کوششیں کی جاتی رہیں جو نہایت کامیابی کے ساتھ پوری بھی ہوئیں۔ یہاں تک کہ آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی تحت نشینی 1911 ء کے بعد پورنا ہنگولی لائن کا اہم اسکیم بھی میدان عمل میں آکر پورا ہوگیا جس کا بڑا مقصد برطانیہ کے ہند کی میٹر گیج کی تمام ریلوں میں اتصال قائم کرنا تھا ۔ اسی زمانہ میں سکندرآباد تا کرنول ، کرنول تا ڈورناچلم اور قاضی پیٹھ و بلہار شاہ کی لائینیں بھی قائم کی گئیں۔ اس کا افتتاح خود نفس نفیس نواب میر عثمان علی خاں بہادر آصفجاہ سابع نے 16 ڈسمبر 1928 ء کو فرمایا۔
ریاست حیدرآباد کی ریلوے کی تا ریخ میں ایک خاص امتیازی امر ریل اور سڑک کے مابین حمل و نقل کے باہمی تعاون عمل کا ہے جو کہ سارے ہندوستان بھر میں ایک نئی نرالی چیز تھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرکار عالی کی ریلوے نے ہندوستان کی دوسری ریلوں کی رہنمائی کی ہے ۔ اس نیک اقدام سے بڑی حد تک ریلوے اور روڈ سرویس کی رقابت کا خوف ہمیشہ کیلئے جاتا رہا ۔ چنانچہ جون 1932 ء میں آزمائشی طور پر بس سرویس کی بعض مخصوص راستوں پر ابتداء کی گئی ۔ اس پا لیسی کے مالی نتائج اتنے حوصلہ افزاء ثابت ہوئے کہ روڈ سرویس میں مزید اور مسلسل توسیع کی حکمت عملی آصف سابع نے قبول کی ۔ چنانچہ مملکت نظام سرکار عالی کی قریب قریب تمام شاہراہوں پر مسافروں کے لئے بس سرویس جاری کردی گئی اور بعض منتخب شاہراہوں پر بار برداری کا بھی نہایت معقول انتظام کیا گیا ۔ آصف سابع کی تخت نشینی کی سلور جوبلی کی تقریب (فروری 1937 ء ) تک قریب قریب چار ہزار میل لمبی سڑکوں پر ا ندازہً (350) بسیں جاری کی گئیں و نیز حیدرآباد اور ورنگل میں سودا گروں کے گودام سے ریلوے اسٹیشن تک لانے اور پھر اسٹیشن سے سوداگروں کے مال گودام تک پہونچانے کیلئے ریلوے بس کا آغاز ہوا۔
ریاست حیدرآباد سرکاری عالی کی زبردست سڑکیں ، جدید اصول پر صفائی اور بلدہ حیدرآباد کی شاندار عمارتیں اور ریاست کے طول و عرض میں آبپاشی کے لئے بیشمار پراجکٹ سیاح کے دل پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ نظام کے دور میں ترقی ، یہاں کا مطمع نظر رہا ۔ اس پالیسی کی ایک مزید مثال کے طور پر نظامس اسٹیٹ ریلوے سرکار عالی کی تجرباتی روڈ سرویس ابتداء میں جاری کی ۔ سڑکوں کے ذ ریعہ سے سفر کرنے والی پبلک کو ایسی سہولتیں حاصل ہوئیں جن سے تاحال وہ بڑے بڑے شہروں سے قطع نظر ، سلطنت ہند کے کسی حصہ میں نہیں تھی ۔ ان سرویس کا منشاء یہ تھا کہ اضلاع کے باشندوں کیلئے قریب ترین ریلوے اسٹیشن یا بڑے شہر تک آنے جانے کے آرام دہ اور سستے ذرائع پیدا کئے جائیں ۔
15 جون 1932 ء سے عام طور پر نظامس اسٹیٹ ریلوے کی روڈ میکانیکل ٹرانسپورٹ سرویس کا آغاز ہوا ۔ مضافاتی سرویس سکندرآباد اور مچھلی کمان کے مابین جاری ہوئی۔ سکندرآباد اسٹیشن سے مچھلی کمان تک پانچ آنہ سکہ عثمانیہ کرایہ مقرر کیا گیا ۔ شہر میں ملک پیٹ ، کاچی گوڑ ہ اور نام پلی اسٹیشنوں کے مابین بسیں متواتر دوڑتی رہیں اور مضافاتی ٹرینوں کے مسافر ان بسوں کے باعث مذکورہ اسٹیشنوں پر ہر وقت ارزاں بس سرویس حاصل کرنے لگے۔
ملک پیٹ اور حیدرآباد (کاچی گوڑہ ) کے اسٹیشنوں سے شہر (مچھلی کمان) تک کرایہ فی کس صرف ایک آنہ رکھا گیا ۔ بسوں کے ٹھہرنے کے لئے بعض مقامات پر جب تجویز کوتوال بلدہ اشارات قائم کئے گئے ۔ مراحل کرایہ کے اشارات سرخ حرفوں میں اور معمولی مقامات و قوف کے اشارے سیاہ حرفوں میں تجویز ہوئے ۔اضلاع کی بس سرویسوں میں بھی جو 15 جون سے جاری ہوگئیں ، بسیں حیدرآباد سے نلگنڈہ تک براہ نارکٹ پلی جاری ہوئیں جہاں ایک ڈپو قائم کیا گیا اور الحاقی سرویسوں کا سلسلہ بھونگیر اور کھمم میٹ پر مشتمل تھا۔
بسوں کے مسافروں کی سہولت کیلئے نارکٹ پلی پر آرام دہ ویٹنگ روم اور ریفریشمنٹ ہال تیار کئے گئے ۔ حیدرآباد سے روانہ ہونے والی تمام بسیں نارکٹ پلی پر دس منٹ ٹھہرتی تھیں اس طرح بارش سے بچتے ہوئے مسافر الحاقی گاڑ یوں کا انتظار کرتے اور فوراً ان میں اپنی نشست حاصل کرلیتے ۔ الحاقی سرویسوں کے او قات کی ترتیب اس طریقہ پر قائم کی گئی کہ براہ راست سفر کرنے والوں کو کسی تاخیر کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ بسوں کی روانگی ٹھیک اوقات پر ہوتی تھی اور عوام سے یہ التماس کیا گیا کہ وہ بسوں کے مقام وقوف پر ٹائم ٹیبل کی پابندی کریں۔ اوقات ایسے مقرر کئے گئے کہ جن سے پبلک کامل طور سے استفادہ کرنے لگی ۔ اضلاع کی بسوں میں کرایہ کی شرح فی میل ایک آنہ کے حساب سے مقرر تھی لیکن حیدرآباد تا نلگنڈہ سیکشن اور نارکٹ پلی ڈپو کی الحاقی سرویسوں میں کرایہ کی شرح ہر مسافر کیلئے فی میل صرف نصف آنہ تھی ۔ مسافروں کو فی کس دس سیر تک وزنی سامان ہمراہ رکھنے کی اجازت دی گئی ۔ زائد وزن کے سامان کا کرایہ نہایت معمولی رکھا گیا جس کی شرح مابین حیدرآباد و نلگنڈہ ، بھونگیر و نلگنڈہ ۔ نارکٹ پلی ، سوریا پیٹ ، سوریا پیٹ و کھمم میٹ فی من صرف 8 آنے رکھی گئی ۔ اس طرح پبلک کے لئے یہ ممکن ہوا کہ حیدرآباد سے صبح کے وقت (پہلی بس 8 بجے) نلگنڈہ جاکر اسی دن سرشام بلدہ واپس پہونچ جائیں۔
ان سرویسوں کے ذریعہ سے وقت میں جس قدر کفایت اور سفر میں آرام ملنے لگا اس کو ملحوظ رکھ کر بعض حلقوں کے کرایہ کی موجودہ شرح میں کوئی حفیف سے اضافہ نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت متعدد اجازت یافتہ سرویسوں سے سخت مقابلہ کی بناء پر کرایہ کی شرح قلیل رکھی گئی ۔
بسیں ، سیلون کے نمونوں پر تیار کی گئیں جن میں آرام دہ نشستیں تھیں اور ان کا رخ سامنے کی جانب تھا ۔ ہر ایک گاڑی میں درجہ اول کی بھی چند نشستیں قائم کی گئیں جن کا کرایہ درجہ سوم سے دگنا رکھا گیا ۔ کسی حادثہ کے موقع پر مسافروں کے لئے ایک احتیاطی دروازہ بھی موجود تھا ۔ ہر ایک گاڑی کے ساتھ دو زائد ٹائر اور پہیئے مہیا رہتے جس کے باعث کسی شگاف یا ٹائیر کی تبدیلی پر چنداں تاخیر نہیں ہوتی ۔ کسی شکستگی کے موقع پر یہ انتظام رہتا کہ فوراً اسپیشل گا ڑ یاں بھیج کر مسافروں کو منزل مقصود تک پہونچایا جاتا ۔ غرض کہ حتی الامکان حوادث سے پبلک کی حفاظت کا ہر طریقے پر خیال رکھا گیا ۔ گا ڑیوں کی رفتار کا پیمانہ ایک خاص حد پر رکھا گیا تاکہ سرویس باقاعدہ جاری اور محفوظ رہے ۔ مضافاتی گا ڑیاں جو حیدرآباد اور سکندرآباد کے رقبتوں پر مشتمل تھیں ۔ مذ کورہ ہر دو مقاموں کے ما بین ڈاک بھی پہونچاتی تھیں۔ جس کے باعث حیدرآباد اور سکندرآباد کی مقامی پبلک کو خطوط کی تقسیم ز یادہ عجلت کے ساتھ ہونے لگی ۔ کاچی گوڑہ میں سرویسوں کی ورکشاپ میں جو مشنری اور آلات مہیا کئے گئے ان کی نظیر … اصفی میں کوئی موٹر ورکشاپ پیش نہیں کرسکتی تھی ۔ کلکتہ ، بمبئی وغیرہ شہروں کے موٹر خانوں کے مقابلہ میں یہ زیادہ اپ ٹو ڈیٹ تھے ۔ مرمت کے کام میں پائیداری کی غرض سے ہر قسم کی تیاریاں کی گئیں اور اس طرح محفوظ گاڑیوں سے سفر کرنے سے پبلک کو بہت کچھ فائدہ حاصل ہوا ۔ سڑکوں پر مرمت کے دوران میں پبلک کو تاخیر کے باعث جو تکلیف برداشت کرنی پڑتی تھی وہ ان ریلوے بس سرویسوں کے افتتاح کے بعد رفع ہوگئی ۔ پبلک کی جانب سے سرویسوں کے متعلق ا صلاحی تجاویز پر ہمدردانہ حیثیت سے غور کیا جاتا تھا ۔
شہر حیدرآباد میں جن مقامات پر بس سرویس جاری کی گئی اعلانات اس طرح کئے گئے ۔
سردست حسب دیل مقامات پر ریلوے موٹر بس جاری ہے ۔
حیدرآباد۔ سکندرآباد
(1 حیدرآباد (کاچی گوڑہ) ریلوے اسٹیشن براہ رزیڈنسی تا سکندرآباد
(2 سکندرآباد براہ دارالفرب (منٹ) روڈ ۔ نام پلی اسٹیشن ۔ رزیڈنسی ۔ گلزار حوض، افصل گنج تا کاچی گوڑہ
(3 کاچی گورہ براہ رزیڈنسی ۔ گلزار حوض ۔ ملک پیٹ تا کاچی گوڑہ
(4 کاچی گوڑہ براہ رزیڈنسی ۔ نامپلی اسٹیشن ۔ فینانس آفس روڈ ۔ رزیڈنسی ۔ گلزار حوض ۔ ملک پیٹ تا کاچی گورہ اسٹیشن ۔ از حیدرآباد (کاچی گوڑہ) اسٹیشن
تا نلگنڈہ براہ نارکٹ پلی 3 گھنٹے
تا بھونگیر براہ نارکٹ پلی 4 گھنٹے
تا سوریا پیٹ براہ نارکٹ پلی 4.5 گھنٹے
تا کھمم میٹ براہ نارکٹ پلی 7 گھنے 20 منٹ
اوقات روانگی از کاچی گوڑہ
صبح 8 بجے ، 9 بجے ۔ سہ پہر 3 بجے اور ساڑھے پانچ بجے۔
سوریا پیٹ جانے والے مسافر 9 بجے والی بس سے سفر کرسکتے مگر نارکٹ پلی میں انہیں دوسری بس میں منتقل کردیا جاتا۔ شادی ، پکنک پارٹی وغیرہ کے واسطے پوری بس (48) گھنٹے پیشتر نوٹس بھیجنے پر ریزرو کی جاتی تھی ۔ اس کے متعلق ڈسٹرکٹ ٹریفک سپرنٹنڈنٹ روڈ ، این ایس ریلوے سکندرآباد سے خط و کتابت کی جاتی تھی ۔
حیدرآباد شہر میں کرایہ موٹر بس سرویس کی شرح اس طرح رہی۔
گلزار حوض سے سکندرآباد اسٹیشن براہ بشیر باغ 5 آنے
افضل گنج سے سکندرآباد اسٹیشن براہ نام پلی 4 آنے
نامپلی سے سکندرآباد اسٹیشن 3 آنے اور اضلاع میں قاضی پیٹ تا ورنگل اسٹیشن 6 آنے ، سوریہ پیٹ تا کھمم میٹھ ایک روپیہ 6 آنے ۔ بھونگیر تا نلگنڈہ ایک روپیہ 6 آنے ۔ کاما ریڈی ۔ بنجا پلی نظام آباد میں کاما ریڈی تا دیوان پلی ، کتا گوڑہ 6 آنے ۔ نظام اباد تا نگرم ، ملارم ، 6 آنے ۔ نظام آباد تا چنتہ کنٹہ 12 آنے ۔ نظام آباد تا موسر 12 آنے ، قا ضی پیٹ تا دھرم ورم 12 آنے ۔ نظام آباد تا برسا پلی 6 آنے ۔ نظام آباد تا جنکم پیٹھ ۔ پوچارم 6 آنے ۔ نظام آباد تا بودھن ایک روپیہ 2 آنے۔
مملکت آصفیہ میں ان تمام مذکورہ بالا انتطامی کاروبار کی نمایاں کامیابی کا سہرا آنریبل نواب سر حدر نواز جنگ بہادر صدر اعظم باب حکومت سرکاری عالی کے سر ہے کہ آپ نے اپنے بڑھتے ہوئے جوش و خروش کے ساتھ سر رشتہ ہذا کی وسعت کی کوششوں سے ملک و مالک کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔