ریتو بندھو اسکیم نے اپوزیشن کو خاموش کردیا!

پی وی کونڈل راؤ
تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی ٹی آر ایس حکومت نے کسانوں کو اُن کے پاس موجود زمین کے اعتبار سے مالی امداد فراہم کرنے کی اسکیم ’’ریتو بندھو‘‘ متعارف کرتے ہوئے اپوزیشن کو یکایک خاموش کردیا ہے۔ ریتو بندھو کے تحت دیہات میں کسانوں میں چیکس کی تقسیم شروع ہوچکی ہے۔ ہر کسان کو اُس کی فی ایکڑ اراضی 4,000 روپئے کا چیک دیا جارہا ہے اور یہ عمل بلاشبہ دیہی عوام کی ریاستی حکومت کے تئیں تائید و حمایت بڑھانے میں کارگر ثابت ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیوں کو فوری طور پر اس کی مخالفت یا اس پر کچھ بھی ردعمل ظاہر کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے دیہات میں سیاسی طور پر پہلے سے پریشان حال اپوزیشن کی امیدیں چکناچور کردیئے ہیں۔ حالیہ سیاسی تبدیلیوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو موجودہ چیف منسٹر کے سی آر وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط تر قائد کے طور پر اُبھرتے رہے ہیں۔ اپوزیشن اب کوئی ٹھوس وجہ ڈھونڈ رہی ہے کہ چیف منسٹر اور اُن کی حکومت کے خلاف کوئی کارگر حملہ کیا جاسکے۔ شمالی تلنگانہ کی یونیورسٹیوں کاکتیہ، شتاواہانا اور تلنگانہ سے وابستہ ریسرچ گروپ کے سروے کا کہنا ہے کہ دیہی حصوں میں اب برسراقتدار ٹی آر ایس کی مخالفت کا رجحان نہیں ہے کیونکہ عوام میں کوئی ناراضگی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔

ضلع جنگاؤں کے اسٹیشن گھن پور حلقہ میں موضع لنگلا گھن پور کے کیسرا یادو ریڈی کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ ہم مکمل طور پر مطمئن ہوگئے ہیں لیکن ہمیں مایوسی بھی نہیں ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگلے الیکشن کی تواریخ سے تقریباً ایک سال قبل ہم نے برسراقتدار پارٹی کی تائید و حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کی رائے حقیقت پر مبنی ہوسکتی ہے کیونکہ عوام کا احساس ہے کہ انھیں پوری طرح مایوسی میں نہیں چھوڑا جارہا ہے اور کئی دیگر کا احساس ہے کہ انھیں برسراقتدار پارٹی نے ایک طرح سے کچھ فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ انھوں نے استدلال پیش کیا کہ برقی کا کوئی بحران نہیں ہے، نا ہی پینے کے پانی کی قلت کا معاملہ درپیش ہے۔ اب ہمیں کاشتکاری کیلئے رقم فراہم کی جارہی ہے، ان حالات میں ہمیں مایوس کیونکر ہونا چاہئے۔ کے یاد وریڈی کا استفسار پر اُلٹا سوال شمالی تلنگانہ کے تقریباً تمام دیہی حصوں کی ہوبہو صورتحال ہوسکتی ہے ۔ یہ خطہ جگتیال کی کسان تحریک سے ہی سرگرم تحریکات کا مرکز رہا ہے۔ اب اپوزیشن پارٹیوں کیلئے معاملہ دوہرا مشکل ہوگیا ہے اور انھیں لوگوں میں بیداری پیدا کرنے میں مزید دقت پیش آرہی ہے۔ اُن کی رائے ہے کہ لوگ اب اُن کے نعروں سے متاثر نہیں ہورہے ہیں حالانکہ حکومت سے ناراضگی کی کچھ گنجائش موجود ہے۔ سیاسی طور پر تغیر پذیر ضلع ورنگل کے صدر کانگریس نائنی راجیندر ریڈی کا کہنا ہے کہ اُن کی پارٹی کسانوں سے متعلق مسائل پر لوگوں کو متحرک کرنے کی فضول کوشش کررہی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کی نئی اسکیم سے پٹے دار فیملیوں کو فائدہ ہورہا ہے اور وہ خاصے مطمئن نظر آرہے ہیں۔ ان حالات میں اپوزیشن کو سوجھ بوجھ کے ساتھ صبر و تحمل سے آگے بڑھنا ہوگا۔

دریں اثناء دیہی تلنگانہ میں ریسرچرس کی جانب سے سروے کے تحت جمع کردہ اعداد و شمار سے انکشاف ہوا ہے کہ پہلی مرتبہ ریاست بھر میں موافق حکومت رجحان لگ بھگ 90 فیصد حلقوں میں بڑھ گیا ہے ۔ سروے میں حصہ لینے والوں کا خیال ہے کہ مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے۔ عام آدمی ہو کہ دیگر لوگ انھیں کے سی آر کی شکل میں مسیحا نظر آرہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چیف منسٹر اب انھںی ترقی کے مخصوص نشانے کی سمت لیجارہے ہیں۔ اگر ہمیں سنہرا تلنگانہ حاصل کرنا ہے تو یہ اسکیم کئی طرح سے شروعات ہوسکتی ہے۔ چھوٹے کسان جو ماضی قریب میں کافی پریشان دکھائی دیتے تھے اُن کا کہنا ہے کہ کے سی آر کا چیکس کا ٹرمپ کارڈ اب اُن کیلئے بقاء کا ہتھیار ہے۔

اب تک ہم بقاء کی جنگ لڑرہے تھے اور جینے کیلئے وسائل اکٹھا کرنا مشکل ہورہا تھا لیکن اب حکومت نے ہمارا ہاتھ تھام لیا ہے۔ موضلع چناپیندیال کے چکا دیوراجو کا کہنا ہے کہ جمعرات کو اُن کے گاؤں میں بھی چیکس کی تقسیم کا عمل منعقد کیا گیا۔ اس اسکیم کی موضع میں ابھی تک کوئی مخالفت نظر نہیں آئی ہے۔ دیوراجو اپنے دوست ہری شنکر کے ہمراہ اپنے محلہ میں لوگوں کے ساتھ جمع ہوا اور چیکس کی تقسیم کے پروگرام میں شریک ہوا۔ اُس کے چہرہ پر بلاشبہ خوشی و شادمانی کے اثرات نمایاں نظر آرہے تھے۔ اُسے اپنی اراضی پر کاشتکاری کیلئے پہلی قسط کے طور پر دو ہزار روپئے مل رہے ہیں۔ یہی کچھ معاملہ تھنگلاپلی بوگولیا کا ہے۔ اُس کی عمر اب 78 سال ہے۔ وہ اپنے بچپن سے زرعی مزدور رہا ہے۔ وہ تیس گنٹے اراضی جٹا پایا ہے۔ یہ اراضی اب اُسے 3,000 روپئے دلا رہی ہے۔ موجودہ حالات میں کسی زرعی مزدور کیلئے تین ہزار روپئے بڑی رقم ہے۔ یہ رقم مفت میں فراہم کی گئی ہے۔ بوگولیا مفت میں مدد ملنے پر بے حد مسرور ہے۔

اس دوران بعض انوکھے قسم کے معاملے بھی سامنے آئے ہیں۔ ریتو بندھو پر عمل آوری کی شروعات کے بعد دیہات میں ظاہر طور پر کوئی مخالفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے دو تین کٹر حامیوں کو بھی حکومت کے ٹھوس اقدامات پر خاموش دیکھا گیا ہے۔ ضلع کریم نگر میں جہاں کالیشورم پراجکٹ کے ثمرات کسانوں تک پہنچنے کا امکان ہے، اور یہی پراجکٹ واحد چیز ہے جس پر اپوزیشن کا انحصار ہے اور وہ برسراقتدار پارٹی کے ناراض ارکان کی حمایت جٹانے کیلئے کوشاں ہے۔ ایک کمیونسٹ لیڈر کا خیال ہے کہ اس ناراضگی کا اندازہ فوری طور پر اسی وقت لگایا جاسکتا ہے جب برسراقتدار پارٹی پنچایت انتخابات کا اعلان کردے، لیکن سروے منعقد کرنے والے یونیورسٹیوں کے محققین کا ماننا ہے کہ اب مستقبل قریب میں موجودہ چیف منسٹر کے سی آر کی تمام اسمبلی حلقوں میں کوئی خاص مخالفت کا امکان نظر نہیں آتا ہے، جن میں کانگریس کے سابقہ گڑھ بھی شامل ہیں۔