ریتو بندھو اسکیم، تہوار کا ماحول ایس سی ایس ٹی محفوظ حلقوں پر کانگریس کی توجہ

محمد نعیم وجاہت
ٹی آر ایس حکومت نے انتخابات عین ایک سال قبل ریتو بندھو اسکیم کا آغاز کرتے ہوئے دیہی علاقوں میں تہواروں جیسا ماحول پیدا کردیا ہے۔ دوسری طرف ٹی آر ایس کیڈر میں بھی ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوگیا ہے۔ تھرڈ فرنٹ کی تشکیل میں مصروف چیف منسٹر کے سی آر اپنی ریاست تلنگانہ میں ایک طرح سے ایک سال قبل ہی عملاً انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے ریاست میں یکایک موضوع بحث بن گئے ہیں اور ریتو بندھو اسکیم کی ملک بھر میں ستائش ہورہی ہے۔ اس اسکیم نے خود بہ خود ٹی آر ایس کو عوام کے درمیان پہونچادیا ہے۔ اراضی سروے ایک جرأتمندانہ اقدام ہے۔ نظام دور حکومت کے بعد کے سی آر نے اراضی سروے کراتے ہوئے ریکارڈ درست کیا ہے۔ کامیاب طریقے سے 90 فیصد سروے مکمل کرنے والے محکمہ مال کے ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ بطور انعام بھی دیا ہے۔ ریتو بندھو اسکیم کے تحت 58 لاکھ کسانوں میں چیکس تقسیم کئے جارہے ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت نے خصوصی منصوبہ بندی کے تحت اس اسکیم کو متعارف کرایا ہے۔ فی ایکر اراضی کے لئے 4 ہزار روپئے کی سرمایہ کاری دی جارہی ہے۔ اس طرح سال میں 2 کاشتوں کے لئے فی ایکر 8 ہزار روپئے سرمایہ کاری کسانوں میں تقسیم کی جارہی ہے جس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے جس سے کسانوں میں حکومت کے لئے تھوڑی بہت ہمدردی کی لہر پیدا ہونا واجبی ہے۔ حکومت اس اسکیم کے لئے بجٹ میں 12 ہزار کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی ہے اور پہلے مرحلہ میں 6 ہزار کروڑ روپئے کسانوں میں بطور سرمایہ تقسیم کی جارہی ہے۔ نئے پٹہ دار پاس بکس اور چیکس حاصل کرنے کے لئے کسان بڑے پیمانے پر حکومت کی جانب سے منعقد کئے جانے والے پروگرامس میں شرکت کررہے ہیں۔ جلسوں کا اہتمام کرنے کے لئے چاہے وہ حکمراں جماعت ہو یا اپوزیشن انھیں بھاری رقم کے ساتھ جلسہ گاہ تک عوام کو پہونچانے کے کلئے سواریوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے لیکن اس پروگرام کے لئے کسان خود اپنے پیروں پر پروگرامس میں پہونچ رہے ہیں۔ ریتو بندھو اسکیم کی حکومت قومی سطح پر تشہیر کررہی ہے۔ قومی ٹیلی ویژن چیانلس اور ملک کے ہر زبان کے اخبار میں صفحہ اول پر اشتہار شائع کرایا گیا ہے۔ عوام کو جمع کرنے کے لئے جو رقم خرچ کرنی پڑتی تھی۔ وہ رقم حکومت پر تشہیر کرتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت کو کسان دوست ہونے کا سارے ملک کو پیغام پہونچارہی ہے۔ اس معاملہ میں ٹی آر ایس نے بازی مار لی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تلنگانہ میں گزشتہ 4 سال کے دوران 4 ہزار سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ مگر چیف منسٹرنے کبھی اس پر افسوس کا اظہار نہیں کیا اور انھیں ان کے ارکان خاندان کو پرسہ دیا ہے۔ کئی وزراء اور ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی نے بھی کسانوں کی اموات پر کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ حالیہ تین سال تک اناج کی پیداوار گھٹی ہے۔ کسانوں کو اپنی کاشت پر اقل ترین قیمت نہیں ملی۔ اقل ترین قیمت فراہم کرنے کا مطالبہ کرنے والے کسانوں پر پولیس نے ضلع کھمم میں احتجاج کیا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور انھیں ہتھکڑیاں لگاکر مجرموں کی طرح عدالت میں پیش کیا گیا۔ حکومت کے خلاف کسانوں میں جو ناراضگی پائی جاتی ہے اس کو دور کرنے میں ریتو بندھو اسکیم کارآمد ہوسکتی ہے۔ یہ ایسی اسکیم ہے چاہ کے بھی اپوزیشن مخالفت نہیں کرسکتی۔ کانگریس نے اسکیم کا خیرمقدم کرتے ہوئے کسانوں کی تائید حاصل کرنے کے لئے اقل ترین قیمت پر 25 فیصد زیادہ رقم دینے کا حکومت سے مطالبہ کیا۔
صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی اتم کمار ریڈی نے کانگریس کے کیڈر میں جوش و خروش پیدا کرنے اور کانگریس کے تمام سینئر قائدین کے متحد ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے لئے پرجا چیتنیہ بس یاترا کا آغاز کیا ہے جو ریاست کے 37 اسمبلی حلقوں کا احاطہ کرچکی ہے۔ بس یاترا سے کانگریس کیڈر میں جوش و خروش پیدا ہوا ہے۔ بس یاترا کے ذریعہ کانگریس کے قائدین حکومت کی ناکامیوں کو آشکار کررہے ہیں۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے بھی بس یاترا پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی اتم کمار ریڈی اصل اپوزیشن کی ذمہ داری نبھانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ مگر انھیں پارٹی قائدین کے تعاون کی ضرورت ہے۔ قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل محمد علی شبیر نے ہی مکمل تعاون کیا ہے۔ رمضان کے آغاز سے قبل تک تمام جلسوں میں شرکت کی۔ تاہم دوسرے اہم قائدین سابق ڈپٹی چیف منسٹر دامودھر راج نرسمہا، سابق صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی پنالہ لکشمیا کے علاوہ دوسرے قائدین بس یاترا میں بہت ہی کم نظر آئے۔ اتحاد کی بہت اہمیت ہے۔ کانگریس کے قائدین بند کمروں کے اجلاس میں ضرورت شرکت کررہے ہیں مگر زمینی سطح پر ان کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ اقتدار کی دعویداری پیش کرنے والی کانگریس کے قائدین کو اس معاملے میں اپنا محاسبہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سابق وزراء اور سینئر ارکان اسمبلی کو صرف اپنے اپنے حلقوں تک محدود رہنے کے بجائے ضلعی سطح پر پارٹی کی ذمہ داریاں قبول کرنی چاہئے۔ تب ہی مقابلے میں برقرار رہ سکتے ہیں۔ ٹی آر ایس کے سروے میں ہی ٹی آر ایس کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ چیف منسٹر بظاہر تمام ارکان اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دینے کا اعلان کررہے ہیں تاہم 20 تا 30 فیصد موجودہ ارکان اسمبلی کو ٹکٹ ملنے کا امکان نہیں ہے۔ ٹی آر ایس حلقوں میں ہی اس پر مباحث چل رہے ہیں۔ کانگریس، تلگودیشم کے علاوہ دوسری جماعتوں سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے 25 ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس کا مقامی کیڈر ابھی تک پوری طرح قبول نہیں کیا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ان حلقوں پر 2014 ء میں ٹی آر ایس کے ٹکٹ پر مقابلہ کرنے والے ٹی آر ایس قائدین اپنے سیاسی مستقبل کو خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ دوسری جماعتوں سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے قائدین ان پر سوار ہوجائیں اور دوسری جماعتوں سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے ارکان اسمبلی انھیں چیف منسٹر کے سی آر کی سرپرستی حاصل ہونے کی انانیت میں وہ مقامی ٹی آر ایس کیڈر کی بے رخی سے لاپرواہ ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ ٹکٹ ان کو ہی ملے گا اور پارٹی قیادت کی ہدایت پر تمام قائدین اور پارٹی کا کیڈر ان کے لئے کام کرے گا۔ یہی سوچ پارٹی میں دوریاں بنارہی ہے۔ کئی موقعوں پر قائدین کے درمیان رسہ کشی بھی دیکھی جارہی ہے۔ 25 ارکان اسمبلی اور ٹی آر ایس کیڈر کے درمیان جو دوریاں پیدا ہوئی ہیں وہ ٹی آر ایس قیادت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے جسے نظرانداز کرنا خطرے کو دعوت دینا ہے۔

کانگریس پارٹی گزشتہ ایک سال سے ریاست کے 31 اسمبلی حلقوں میں پنجاب کے فارمولے پر عمل کررہی ہے۔ ایس سی، ایس ٹی محفوظ حلقوں پر خصوصی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے کام کررہی ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ اگر ان 31 حلقوں میں کانگریس کو 20 تا 25 اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کانگریس کیلئے پلس پوائنٹ ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی گریٹر حیدرآباد کے 24 اسمبلی حلقے حکومت تشکیل دینے میں کسی بھی جماعت کے لئے کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ اگر ان میں پرانے شہر یا مجلس کی نمائندگی والے 7 اسمبلی حلقوں کو علیحدہ بھی رکھا جائے تو 17 اسمبلی حلقے کانگریس اور ٹی آر ایس کو اقتدار کے زینے تک پہونچانے کے لئے سیڑھی کا رول ادا کرتے ہیں۔ مجلس کے 7 حلقوں کو بونس میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اب تک جس جماعت کو بھی اقتدار حاصل ہوا مجلس اُسی جماعت کے ساتھ تعاون کرتی آئی ہے۔ سابق ریکارڈ اس کی گواہی دیتا ہے۔ ٹی آر ایس یہ توقع رکھ کر چل رہی ہے کہ اگر حکومت تشکیل دینے کے لئے کچھ نشستیں کم پڑجاتی ہیں تو مجلس اس کی تائید کرے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ مجلس کچھ بھی کرسکتی ہے۔

کرناٹک میں تشکیل حکومت کی سرگرمیوں کا مرکز اچانک حیدرآباد بن چکا ہے۔ گورنر نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے غیر دستوری طور پر اکثریت نہ رکھنے والی بی جے پی کو حکومت تشکیل دینے کا موقع فراہم کیا ہے۔ جبکہ کرناٹک کے عوام نے کسی بھی جماعت کو اکثریت نہ دیتے ہوئے معلق اسمبلی وجود میں لائی ہے۔ دستور کے محافظ گورنر نے غیر دستوری فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے دستوری فرائض کو داغدار بنادیا ہے۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ دو سال کے دوران بہار، گوا، منی پور اور میگھالیہ میں اُن ریاستوں کے گورنرس نے سب سے بڑی واحد جماعت بن کر اُبھرنے والی کانگریس اور آر جے ڈی کو حکومت کی تشکیل کا موقع فراہم کرنے کے بجائے مابعد اتحاد کرنے والی بی جے پی کو حکومت تشکیل دینے کا موقع فراہم کیا ہے۔ حتیٰ کہ میگھالیہ کی 60 رکنی اسمبلی میں کانگریس کو 21 اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور وہ سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ جبکہ بی جے پی کے صرف 2 اسمبلی اسمبلی منتخب ہوئے مگر وہاں دوسری جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ بی جے پی حکومت میں شامل ہوگئی۔ اس طرح منی پور کی 60 رکنی اسمبلی میں کانگریس 28 حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی، تین نشستوں سے اکثریت سے محروم رہی لیکن 21 حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی کو حکومت تشکیل دینے کا موقع فراہم کیا گیا۔ گوا کی 40 رکنی اسمبلی 17 حلقوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے کانگریس سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری مگر 12 اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی کو حکومت تشکیل دینے کا موقع فراہم کیا گیا۔ بہار میں کانگریس، آر جے ڈی نے تحاد کیا اور آر جے ڈی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری مگر وہاں بی جے پی کے تعاون سے نتیش کمار حکومت چلارہے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی کو 104 حلقوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ کانگریس 78 اور جے ڈی ایس 38 حلقوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور 2 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں مگر کرناٹک کے گورنر نے کانگریس اور جے ڈی ایس کو حکومت تشکیل دینے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے بی جے پی کو تشکیل حکومت کا موقع فراہم کرتے ہوئے بی جے پی کو ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے لئے لائسنس دے دیا ہے۔ ان ناانصافیوں کے خلاف کانگریس پارٹی نے آدھی رات کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ساتھ ہی کانگریس اور جے ڈی ایس نے اپنے ارکان اسمبلی کو محفوظ رکھنے کے لئے انھیں حیدرآباد کی ہوٹلوں میں پہونچادیا۔ جس کے بعد حیدرآباد کرناٹک کے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ بی جے پی کھلے عام کانگریس اور جے ڈی ایس کے ارکان اسمبلی کو خرید رہی ہے۔ مائننگ بدعنوانیوں میں جیل جانے والے گالی جناردھن ریڈی کانگریس کے ارکان اسمبلی کو ٹیلیفون کرتے ہوئے بی جے پی تائید کرنے پر زندگی سنوارنے کا پیشکش کیا جس کے ٹیلیفون ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ بی جے پی گورنرس سے غلط کام کروارہی ہے۔ سیاسی مفاد پرستی کے لئے بازار میں جس طرح جانوروں کی بولی لگائی جاتی ہے اس طرح ارکان اسمبلی کی بولی لگارہی ہے۔ جے ڈی ایس کے قائد کمارا سوامی نے الزام عائد کیاکہ بی جے پی کے قائدین ان کے ارکان اسمبلی کو خریدنے کے لئے 100 کروڑ روپئے کے ساتھ وزارت کا بھی پیشکش کررہے ہیں۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ستور ہند خطرے میں پڑگیا ہے۔ بی جے پی ذاتی مفادات کے لئے دستور اور جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ملک کے دستور کو دنیا میں جو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہ شرمسار ہوجائے گا۔