ریاض میں محفل یاران ادب کا اہتمام احمد سعید باھمام نے میزبانی کی

میر لیاقت علی ہاشمی

زمانہ قدیم سے عرب تجار ، عرب دنیا کے باہر بھی اپنے روابط بڑھائے ۔ برصغیر کے جنوبی ساحل پر بھی ان کی خصوصی آمد و رفت رہی ۔ اسی طرح اٹھارہویں صدی عیسوی میں دکن پر سلطنت آصفیہ کو عروج نصیب ہوا تو عرب قبائل اس جانب بھی رخ کرنے لگے ۔ اس علاقے کی ترقی و خوشحالی اور رعایا پروری اور علم و فن کی قدردانی سے یہاں آئے عرب قبیلے اس سرزمین کا حصہ بننے لگے ۔ حکومت وقت نے اپنی فوج میں عرب ریجمنٹ کی بھی بنیاد رکھی تھی ۔ عربوں نے یہاں نہ صرف بود و باش اختیار کی بلکہ آہستہ آہستہ حیدرآبادی ادب و تہذیب کواپنانے لگے ۔ ان میں کئی ایک اس ادب و زبان کے معمار بھی کہلائے ۔ جب خلیج میں تیل کی دولت دریافت ہوئی تو ان میں سے بعض خاندانوں نے دوبارہ عرب خطے کا رخ کیا اور یہاں سرزمین عرب میں تہذیب دکن بھی ساتھ لائے ۔ انہیں معتبر خاندانوں میں ایک احمد سعید باھمام کا خاندان بھی ہے ۔ گو کہ وہ آج سعودی عرب کی شہریت رکھتے ہیں مگر حیدرآباد دکن سے منسلک اپنا بچپن ، لڑکپن اور تعلیمی سفر کی یادیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔ انہیں یادوں کو تازہ کرتے ہوئے احمد سعید باھمام سے یہاں ریاض میں رواں ہفتہ یاراں ادب کی شایان شان محفل آراستہ کی ۔ اس موقع پر انہوں نے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد کے دوست و احباب سے ملاقات کرکے بے انتہا خوشی محسوس ہوتی ہے یہ ایک فطری چیز ہے ۔ چونکہ زندگی کا قابل لحاظ حصہ کسی خطے میں گذرتا ہے تو یادگار بن جاتا ہے خاص طور پر بچپن ، لڑکپن اور تعلیمی سفر کے احباب یادوں کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ۔ احمد سعید باھمام کی زبان حال سے عیاں ہے کہ زبان اردو کی زلف کا اسیر اس کے سحر سے باہر نہیں نکلتا ۔ اس محفل یاراں ادب کے مہمان خصوصی جناب احمد سعید باھمام کے دیرینہ رفیق حیدرآباد کے ممتاز صنعت کار جناب محمد یسین تھے جو ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں ۔ بعد فراغت عمرہ و زیارت مدینہ منورہ وہ ریاض میں مقیم ہیں ۔ جناب محمد یسین ، حیدرآبادی تہذیب و ادب اور روایات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ بدلتے حالات کے باوجود حیدرآباد دکن اپنی تاریخ اور ورثہ کا امین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ خطہ آج بھی ہند کا سب سے بڑا اردو کا گڑھ ہے ۔ اس موقع پر جناب محمد یسین نے اپنے منظوم احساسات بھی پیش کئے ۔ محفل کی صدارت ریاض کی معروف سماجی شخصیت جناب محمد قیصر صدر تنظیم ہم ہندوستانی نے کی ۔ انہوںنے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو زبان برصغیر کی اپنی روایتی سرحدوں کو عبور کرکے دنیا کے مختلف علاقوں میں بولی اور سمجھی جانے لگی ہے ۔ خلیجی ممالک میں بھی اس کی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں مگر اہل اردو کو چاہئے کہ وہ اپنی اس قیمتی میراث کی حفاظت کیلئے موثر اقدامات کریں ۔ انہوں نے کہا کہ نئی نسل میں اردو زبان و ادب کی منتقلی اور اردو زبان کو زمانے کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کی آبیاری کی جاسکتی ہے ۔ محمد قیصر نے کہا کہ زبان وتہذیب کی بقا اور ترقی کا دار و مدار اہل زبان کی مخلصانہ اور دیانتدارانہ کوششوں پر منحصر ہوتا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اردو رسم الخط کے حسن کی حفاظت بھی اہل اردو کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے اردو داں طبقہ اور شعراء و ادباء کو اس خصوص میں متوجہ ہونے کی اپیل کی ۔ معروف این آر آئی محمد عبدالعلیم بحیثیت مہمان اعزازی شریک محفل تھے ۔ یارانِ ادب کی محفل کا آغاز حافظ و قاری وصی اسلم کی قرأت کلام پاک سے ہوا ۔ انظر حیدرآبادی نے نعت شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کی ۔ مقیم شعراء مسیح دکنی ، طاہر بلال ، اظہار الحق اظہار ، داود اسلوبی ، رفیع شیخ و دیگر نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ۔ راقم الحروف نے نظامت کے فرائض انجام دئے نقی الدین اکرم نے شکریہ ادا کیا ۔