ریاض مشاعرے سے پھر محروم ہوا

کے این واصف
انڈین قونصلیٹ جدہ کے زیر اہتمام جمعرات کی شب حسب روایت ’’یوم آزادی ہند سالانہ مشاعرہ‘‘ کا شاندار پیمانے پر انعقاد عمل میں آیا اور پچھلے چار سال کی طرح اس سال بھی ریاض کے شائقین شعر و ادب اس مشاعرے سے محروم رہے ۔ قبل اس کے کہ ہم اہل ریاض کا مشاعرے سے محروم رہنے کے بارے میں مزید کچھ لکھیں۔ ہم اس یوم آزادی ہند مشاعرے کے ریاض میں آغاز اور اس کے 16 سال تک جاری رہنے پر کچھ روشنی ڈالنا چاہیں گے۔
جدہ میں مختلف سماجی تنظیموں اور خود انڈین قونصلیٹ جدہ کے زیر اہتمام مشاعروں کا انعقاد ایک بہت پرانی روایت ہے لیکن 1998 ء میں جب ہندوستان کی آزادی کے پچاس سال پورے ہوئے تھے اور ہم اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی تقاریب منانے جارہے تھے تو ریاض میں اس وقت کے سفیر ہند برائے سعودی عرب محمد حامد انصاری (موجودہ نائب صدر جمہوریہ ہند) نے ریاض میں آزادی ہند کی گولڈن جوبلی تقاریب کا پورے ایک سال تک منانے کا اعلان کیا اور ریاض کی تمام سماجی تنظیموں کا ایمبسی میں ایک اجلاس طلب کر کے ان سے کہا کہ سال بھر ہر ہفتہ کے اختتام پر ادبی ، ثقافتی یا عوام کی دلچسپی کے کوئی نہ کوئی پروگرام کا اہتمام کیا کرے

اور ان پروگرامس کے انعقاد کیلئے انہوں نے انڈین ایمبسی آڈیٹوریم کے استعمال کی اجازت بھی دی تھی اور اس کے بعد انہوں نے ریاض میں ’’یوم آزادی ہند مشاعرے‘‘ کے انعقاد کا اہتمام بھی کیا اور ہندوستان سے مدعو کئے گئے 15 شعراء کی اس محفل میں انہوں نے یہ اعلان کیا کہ آزادی ہند کے عنوان سے منعقد کیا گیا یہ مشاعرہ اب ہر سال منعقد ہوا کرے گا اور 1998 ء سے یہ سلسلہ 2010 ء تک جاری بھی رہا۔ ہوتا یوں تھا کہ ہر سال 15 شعراء ہندوستان سے مدعو کئے جاتے اور ہفتہ کے اختتام یعنی ایک جمعرات کی شب مشاعرہ جدہ میں منعقد ہوتا اور دوسری جمعرات کو وہی شعراء کا گروپ ریاض میں مشاعرہ پڑھتے تھے ۔ اس طرح جدہ اور ریاض میں رہنے والے ہزاروں شائقین شعر و ادب اس مشاعرے سے لطف اندوز ہوتے لیکن یہ سلسلہ 2010 ء کے بعد منقطع ہوگیا اور آج تک بند ہے۔ 2011 ء میں جب مشاعرہ کا وقت آیا تو اس وقت کے سفیر ہند تلمیذ احمد صاحب اپنی خدمات سے سبکدوش ہوکر ریاض سے جارہے تھے۔ اس لئے انہوں نے اس سال غالباً اپنی جانے کی مصروفیت کے پیش نظر اس سال کے مشا عرے کو ملتوی کردیا اور کہا اکہ اس سلسلے کو آنے والے سفیر صاحب کچھ عرصہ بعد پھر شروع کریں گے ۔ اس سال یوم آزادی ہند سالانہ مشاعرہ جدہ میں تو حسب روایت منعقد ہوا لیکن ریاض میں ان شعراء کو مدعو نہیں کیا گیا اور یہ سلسلہ جو ٹوٹا تو پھر جڑ نہ سکا اور پچھلے چار سال سے اہل ریاض اس سالانہ مشاعرے سے محروم ہیں۔ جس وجہ سے اہل ریاض میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔

ہندوستان کے مختلف شہروں سے کوئی 15 شعراء کا انتخاب کرنا، انہیں یہاں مدعو کرنے، سارے انتظامات وغیرہ کرنا کوئی آسان کام تو نہیں مگر اگر کوئی دلچسپی لے تو یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں ۔ 1998 ء سے 2010 ء تک یہ کام سفارت خانہ ہند ریاض یا جدہ قونصلیٹ کے ایسے افسران کیا کرتے تھے جو اردو سے واقف ہوتے اور شعر و ادب کا ذوق رکھتے تھے ۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ سفارتکاروں کا ہر تین سال بعد یہاں سے تبادلہ ہوجاتاہے لیکن ہر وقت قونصلیٹ یا ایمبسی میں کوئی نہ کوئی سفارتکار ایسا ہوتا ہے جو مشاعرے کے انعقاد کی ذمہ داری نبھا سکتا ہے اور یہ کام پچھلی دو دہائیوں سے جدہ قونصلیٹ بلا رکاوٹ کر رہا ہے اور جدہ قونصلیٹ شعراء کا انتخاب ، ان کے ویزے حاصل کرنے وغیرے جیسے سارے معاملے نمٹالیتاہے تو اب ایمبسی کیلئے صرف شعراء کو جدہ سے ریاض لانا اور یہاں مشاعرے کا انعقاد عمل میں لانے کا کام باقی رہ جاتا ہے ۔ اب اتنے سے کام کیلئے بھی اگر ایمبسی کے پاس افسران مہیا نہیں ہیں تو یہ کام ریاض کی سماجی تنظیموں سے بھی لیا جاسکتا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ حالیہ عرصہ میں ریاض ایمبسی نے نطاقات قوانین کے تحت غیر قانونی قرار پائے لاکھوں ہندوستانی باشندوں کو وطن واپس بھیجنے یا ان کے معاملات قانون کے دائرے میں لانے جیسا بڑا آپریشن کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ۔ اس کام کیلئے ایمبسی نے سینکڑوں ہندوستانی سماجی کارکنوں کی مدد حاصل کی اور اس بڑے آپریشن کو کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ اس بڑے آپریشن کے آگے مشاعرے کا انعقاد ایک بہت ہی چھوٹا کام ہے۔ پھر بھی ایمبسی کا سالانہ مشاعرہ کیوں نہیں ہورہا ہے ، اس راز سے تو ہم واقف نہیں ہیں مگر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ریاض میں شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں بڑی ناراضگی پائی جاتی ہے جس کا ہماری ایمبسی کو نوٹ لینا چاہئے۔

عزت مآب ایم او ایچ فاروق صاحب ریاض میں 2004 ء سے 2009 ء تک سفیر رہے اور ان کے دور میں بھی یہ سالانہ مشاعرہ بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل ہوتا رہا جبکہ فاروق صاحب اردو کا ایک لفظ نہیں بول سکتے تھے مگر ہر سال وہ مشاعرے میں ابتداء سے اختتام تک موجود رہتے اور ظاہر ہے مشاعرے کے انتظام و انصرام میں بھی ان کی کاوشیں شامل رہتی ہوں گی ۔ اردو مشاعرے سے ان کی دلچسپی اور کاوشوں کو ہم سلام کرتے ہیں اور وہ اہل اردو کی جانب سے ستائش کے حق دار بھی ہیں۔

انڈین ا یمبسی ریاض یا جدہ قونصلیٹ مشاعرے کے علاوہ ہندوستانی محکمہ ثقافتی امور کے تعاون سے یہاں دیگر کلچرل پروگرامس بھی منعقد کرتا ہے ۔ مگر مشاعرے کی جو بھاری مانگ اور مقبولیت ہے یا اس میں شرکت کیلئے دعوت نامے کے علاوہ ہندوستانی محکمہ ثقافتی امور کے تعاون سے یہاں دیگر کلچرل پروگرامس بھی منعقد کرتاہے ، مگر مشاعرے کی جو بھاری مانگ اور مقبولیت ہے یا اس میں شرکت کیلئے دعوت نامے حاصل کرنے میں جو عوام میں جوش و خروش بلکہ مارا ماری رہتی ہے وہ کسی اور کلچرل پروگرام میں نظر نہیں آتی۔ یہاں کے آڈیٹوریم جہاں یہ مشاعرے منعقد ہوتے ہیں کی گنجائش کوئی ہزار، بارہ سو افراد سے کچھ زیادہ ہوتی ہے لیکن ہمیشہ ہال کی گنجائش سے زیادہ شائقین مشاعرے کیلئے آتے ہیں لہذا انتظامیہ ہمیشہ ہال کے باہر اسکول کے احاطہ میں CCTV کیمرے نصب کرتا ہے جس کے ذریعہ مزید سینکڑوں افراد اسکرین پر مشاعرے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اب اگر ایسا پروگرام کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے تو عوام میں بے شک مایوسی اور ناراضگی پیدا ہوگی ۔ لوگ یہاں مشاعرے یا دیگر کلچرل پروگرامس کیلئے بھی منتظر رہتے ہیں، ا سلئے کہ یہاں اس قسم کے عوامی اجتماعات یا عوامی پروگرامس منعقد نہیں ہوتے کیونکہ مقامی قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ بس انڈین ایمبسی ریاض یا جدہ قونصلیٹ ہی اتنے بڑے پیمانہ پر کلچرل پروگرامس یا مشاعرے و غیرہ منعقد کرسکتے ہیں کیونکہ ہندوستان سے 15 شعراء کو مدعو کرنا اور یہاں اتنے بڑے پیمانے پر مشاعرہ کا انعقاد عمل میں لانا کسی سماجی تنظیم کے بس کا نہیں۔ جب سے یوم آزادی ہند مشاعرے کا سلسلہ شروع ہوا ہر سال 15 یا کبھی اس سے زیادہ شعراء یہاں مدعو کئے گئے اور ہر سال ہندوستان کے مختلف شہروں سے شعراء کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ہر سال نئے شعراء کو مدعو کیا جائے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں شائقین کو نئے شعراء کو سننے کا موقع میسر آتا ہے اور ہما رے ہندوستانی شعراء کو ایک بیرون ملک مشاعرہ پڑھنے کا موقع حاصل ہوجاتا ہے ۔

ایک عرصہ بعد اس جدہ قونصلیٹ نے 15 کے بجائے صرف 13 شعراء کو مدعو کیا ۔ دو اور شعراء کو شامل کرلیا جاتا تو ملک کے دو اور شعراء کو بیرون ملک مشاعرے میں شرکت کا موقع مل جاتا اور عمرہ و زیارت مدینہ منورہ کی سعادت بھی حاصل ہوجاتی۔ نیز دو شعراء کا اضافہ ہوتا تو اردو کے مرکز حیدرآباد سے کم از کم ایک اور شامل ہوسکتا تھا کیونکہ ابتداء سے آج تک ہمیشہ حیدرآباد سے کم از کم دو شاعر مدعو کئے جاتے رہے ہیں ۔ قابل مبارکباد ہیں جدہ قونصلیٹ کے افسران اور خصوصاً قونصل جنرل بی ایس مبارک صاحب جن کا تعلق جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو سے ہے ، نے بھی اس مشاعرے کے سلسلہ کو جاری رکھا اور حسب روایت شاندار پیمانے پر مشاعرے کے سلسلہ کو جاری رکھا اور حسب روایت شاندار پیمانے پر مشاعرے کا انعقاد عمل میں لایا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ جدہ قونصلیٹ نے پچھلے سال نطاقات قوانین کی عمل آوری سے پیدا شدہ ابتر حالات اور لاکھوں ہندوستانی باشندوں کے معاملات نمٹانے کی بے پناہ مصروفیت میں بھی جدہ قونصلیٹ نے اس سالانہ مشاعرے کو حسب روایت منعقد کیا ۔ اس مشاعرے کو اس اہمیت کے ساتھ کیا بھی جانا چاہئے کیونکہ یہ مشاعرہ آزادیِ ہند سے منسوب ہے۔

ریاض ایمبسی میں بھی ایسے سفارت کار موجود ہیں جن کا تعلق اردو سے ہے بلکہ خود عزت مآب سفیر ہند بھی اردو والے ہیں اور ان ہی دور میں مشاعرے کا سلسلہ منقطع ہوا یہ بات کمیونٹی کو زیادہ کھلتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سخن گوئی ، سخن فہمی ، نثر کا لکھنا اور پڑھنا نیز ادبی و شعری محافل کا انعقاد عمل میں لانا یہ سب اردو کی بقاء اور ترقی کی علامتیں ہیں ۔ لہذا انہیں جاری رہنا چاہئے اور یہ مشاعرے تو آزادی ہند سے منسوب ہیں اس کو ہر قیمت پر ہونا چاہئے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات