شہانہ اقبال
بیگم احسن ایک ہمدرد اور بے لوث خدمت کرنے والی خاتون تھیں ۔ ان کی پرکشش شخصیت سے لوگ بہت جلد متاثر ہوجاتے تھے ۔ وہ جہاں بھی جاتیں اپنی دلنشین گفتگو سے لوگوںکو گرویدہ بنالیتیں ۔ معاشی طور پر وہ اتنی خوشحال نہ تھیں کہ ذاتی طور پر کسی کی مدد کرپاتیں لیکن مدد خواہ کو مددگار تک پہنچانے کے فن میں بہت ماہر تھیں۔
بیگم احسن کے پڑوس میں ایک فیملی کرائے سے رہنے آئی تو وہ اپنی فطرت سے مجبور دوسرے ہی دن ان کے پاس جاپہنچیں ۔ بڑے خلوص سے ان سے بات چیت کی اور کہا ’’نئی جگہ آکر آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں اور نہ ہی تنہا محسوس کریں ۔ کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو آدھی رات کو بھی میرے دروازے آپ کو کھلے ملیں گے ۔ آپ کی مدد کرکے مجھے بڑی خوشی ہوگی‘‘ ۔
پہلی ملاقات میں بیگم احسن نے اپنے پڑوسیوں کے بارے میں ساری معلومات حاصل کرلیں کہ ان کے گھر تین بیٹیاں تھیں کوئی بیٹا نہ تھا ۔ بڑی بیٹی راحیلہ تھی جس کا ناک نقشہ معمولی اور رنگت گندمی تھی ۔ بی ایس سی ، بی ایڈ تھی ، کسی سرکاری اسکول میں معلمہ تھی ۔ عمر تیس سال کے قریب پہنچ چکی تھی ، اس لئے رشتہ ملنا دشوار تھا ۔ اسکی چھوٹی بہنیں بھی گریجویٹ تھیں ۔ رنگ روپ میں بھی بہتر تھیں اس لئے رشتوں کی کمی نہ تھی لیکن راحیلہ کے والدین چاہتے تھے پہلے راحیلہ کی شادی ہوجائے تاکہ چھوٹی بہنوں کی شادی سے اس کے جذبات مجروح نہ ہوں اور نہ ہی رشتہ ملنے میں مزید دشواری ہو ۔ بیگم احسن کو راحیلہ پر بڑا ترس آیا ۔ رشتہ کے انتظار میں بیٹھی راحیلہ کے چہرے سے ساری شادابی رخصت ہوچکی تھی ۔ آنکھیں ویران ویران سی اور ہونٹ جامد سے ہو کر رہ گئے تھے ۔ اس کے سارے وجود سے تھکن کے آثار نمایاں تھے ۔
ایک دن ایک خوبرو لڑکے کا رشتہ لے کر بیگم احسن راحیلہ کے ہاں پہنچیں ۔ رضوانہ نے انھیں باز رکھنے کی بہت کوشش کی یہ کہہ کر کہ اسے ایک خوبصورت لڑکی کی تلاش ہے ،لیکن بیگم احسن نے ایک نہ سنی اور کہا کہ شاید اللہ تعالی اس لڑکے کے دل میں نیکی ڈال دے اور یہ رشتہ طے ہوجائے ۔ وہی ہوا جس کا رضوانہ کو یقین تھا ۔ لیکن انھوں نے ہار نہ مانی اور وہ ایک کے بعد ایک ، چار رشتے لیکر راحیلہ کے گھر گئیں لیکن طے ایک بھی نہیں ہوا ۔ رضوانہ کے بار بار منع کرنے کے بعد بھی وہ اپنی مہم پر ڈٹی رہیں ۔ یوں لگتا تھا جیسے راحیلہ کے والدین نے ہار مان لی اور ان کی جگہ بیگم احسن نے کمر کس لی ہو ۔
آخر کار بیگم احسن کی مراد بر آئی ۔ ان کی ایک واقف کار خاتون نے بتایا کہ ان کے ایک دیور سعودیہ سے ایک ماہ کی چھٹی پر آئے ہیں اور شادی کرکے جانا چاہتے ہیں ۔ کوئی رشتہ ہو تو بتایئے؟ ۔ بیگم احسن کی جیسے مراد بر آئی اور وہ دوڑی دوڑی رشتہ لے کر راحیلہ کے گھر پہنچیں ۔ بیگم احسن کی آٹھ دس دن کی بھاگ دوڑ کے بعد رشتہ طے ہوگیا ۔ طے یہ ہوا کہ شادی کے بعد راحیلہ ملازمت کی وجہ سے اپنے والدین کے پاس رہے گی ۔ فی الوقت لڑکے کی تنخواہ اتنی نہیں کہ اسے فیملی ویزا ملے ۔ دوسری جگہ کوشش چل رہی ہے اچھی ملازمت کے حصول کے بعد فیملی ویزا بھی مل جائے گا تب لڑکا راحیلہ کو سعودیہ بلوالے گا ۔ اس وقت تک لڑکا آتا جاتا رہے گا ۔ رضوانہ کو جب پتہ چلا تو اس نے بیگم احسن کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اتنی بڑی ذمہ داری مت لیجئے ۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو سب آپ کو دوش دیں گے ۔ دراصل اسے راحیلہ کو ساتھ نہ لے جانے والی بات ہضم نہیں ہورہی تھی ۔ بیگم احسن کہاں بات ماننے والی تھیں ،کہنے لگیں ، جن لڑکوں کوفیملی ویزا نہیں ملتے آخر وہ بھی تو شادیاں کرتے ہیں ۔ خدا سے اچھی امید رکھنی چاہئے ۔ ہوسکتا ہے اگلے ہی ماہ لڑکے کو اچھی ملازمت اور فیملی ویزا مل جائے اور وہ راحیلہ کو بلوالے ۔ بہرحال شادی ہوگئی ۔ دولہا میاں نے پندرہ دن کی رخصت اور بڑھالی ، سسرال والوں نے خوب آؤ بھگت کی ۔ گن گن کر دل کے سارے ارمان پورے کئے ۔ راحیلہ بھی یوں نکھری نکھری نظر آنے لگی جیسے سوکھے کھیت تیز بارش سے دوبارہ جی اٹھتے ہیں ۔ مایوسی اور انتظار کی گھڑیاں چاہے جتنی لمبی ہوں لیکن منزل ملتے ہی یوں لگتا ہے جیسے ناامیدی کا وہ دور پلک جھپکتے میں گذر گیا ہو ۔ دلہے میاں نے بھی ایک مثالی اور سعادت مند داماد کی طرح اپنے سسرال والوں کا دل جیت لیا ۔ دلہن کو تو اتنا پیار اور توجہ دی کہ اسے اپنی خوش بختی پر یقین ہی نہیں آتا تھا ۔
ڈیڑھ ماہ گذار کر دولہے میاں خیر خوبی سے رخصت ہوئے تو بیگم احسن نے خدا کے حضور شکرانے ادا کئے ۔ راحیلہ اور اسکے والدین کی ہر سانسبیگم احسن کے لئے دعائیں لئے ہوتی ۔ شادی کے پہلے سال راحیلہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی ۔ بیٹا تین ماہ کا ہوا تو اسکے ابو اسے دیکھنے آئے ۔ بیٹے کی پیدائش پر خوب بڑا جشن منایا ۔ ایک بار پھر راحیلہ خوشیوں کے جھولے میں جھولنے لگی ۔ داماد کی موجودگی میں راحیلہ کے والدین نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی کردی ۔ شادی کے انتظامات میں بڑے بہنوئی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ایک بیٹے کی طرح والدین کی ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھایا ۔ راحیلہ تو اپنی شادی کے دن سے زیادہ بہنوں کی شادی میں جگمگارہی تھی ۔ میاں کے وجود نے اسے ایک نرالا نکھار دیا تھا کہ جو دیکھتا ، دیکھتا ہی رہ جاتا ۔ ماں بننے کی خوشی نے اسے ایسی شادابی بخشی تھی کہ چاند بھی شرما جاتا ۔ بیگم احسن کی خوشیوں کا تو ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔ راحیلہ کی زندگی کے اس خوش کن تغیر کو وہ اپنی اب تک کی انجام دی ہوئی خدمات کا شاہکار سمجھ کر مسرور ہورہی تھیں ۔دوسرے سال راحیلہ کے ہاں ایک چاند سی بیٹی ہوئی ۔ بیٹی کی ولادت پر مبارکباد کا فون آیا تھا پھر اس کے بعد فونوں کا سلسلہ دھیرے دھیرے کم ہونے لگا ۔ایک سال گذر گیا ، لیکن نہ بچوں کے ابوجی کے فون آئے اور نہ خود ابوجی ۔ بیٹا اپنے باپ کی تصویر لئے میلے ابو ، میلے ابو کہتا سارے گھر میں گھومتا ۔ راحیلہ اداس اور ویران آنکھوں سے دروازے کو تکا کرتی ، جس سے گذر کر اس کی امیدیں بھی رخصت ہوچکی تھیں ۔بیگم احسن کو جب اس بات کا پتہ چلا تو وہ دوڑی دوڑی راحیلہ کے پاس آئیں اسے تسلی دی ، اسکے والدین کو دلاسہ دیا کہ ہوسکتا ہے آفس کے کام سے کہیں دور چلے گئے ہوں ۔
ایک دن پتہ نہیں رضوانہ کہاں سے یہ خبر لے آئی کہ اب نہ تو راحیلہ اپنے میاں کے پاس جائے گی اور نہ وہ راحیلہ کے پاس آئے گا ،کیونکہ وہ پچھلے آٹھ سال سے ایک اچھی خاصی پوسٹ پر کام کررہا ہے ۔اپنی بیوی اور دو عدد بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گذار رہا ہے ۔ یہ خبر سن کر بیگم احسن کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے لیکن ایک امید قائم تھی کہ شاید رضوانہ کی بتائی خبر غلط ہو اور ایک دن راحیلہ کا میاں آکر اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لے جائے ۔
بیچاری راحیلہ جہاں سے چلی تھی وہیں کھڑی ہوگئی ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے وہ تنہا تھی ، لیکن اب بیٹا ،بیٹی اسکی ذات کے دو حصے اس کے ساتھ تھے ۔ ان کی ننھی ننھی معصوم شرارتیں دیکھ کر سوچتی اگر اس کی زندگی میں سو پریشانیاں بھی آئیں تو وہ سینہ سپر ہو کر اپنے بچوں کے لئے ڈٹ جائے گی۔ دن ، مہینے اور سال گذرتے گئے ۔ راحیلہ کے میاں کو نہ آنا تھا نہیں آیا ۔ بیگم احسن کو جب بھی پتہ چلتا ان کے شناساؤں میں سے کوئی سعودیہ سے آیا ہے تو اڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتیں اور کچھ اس دکھ اور تڑپ سے راحیلہ کے میاں کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتیں جیسے وہ ان کی اپنی بیٹی ہو ۔ اس دوران راحیلہ کا باپ بیٹی کے صدمے سے فوت ہوگیا ۔ اور ماں بھی بستر سے جالگی ۔ بیگم احسن ان کا حال دیکھتیں تو اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہراتیں ۔ وقفہ وقفہ سے ان کے گھر جاتیں اور انھیں حوصلہ دلاتیں کہ اللہ تعالی بڑا مہربان اور کارساز ہے ۔ دیکھ لینا اس کے رحم و کرم سے وہ ایک دن ضرور واپس آئے گا ۔
بیگم احسن کی ایک عزیز یاسمین برسوں سے سعودیہ میں مقیم تھیں ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ راحیلہ کے میاں کے بارے میں معلومات کریں گی ۔ یاسمین کے سعودیہ جانے کے بعد بھی بیگم احسن کا زیادہ تر وقت دعاؤں میں گذرتا ۔ راحیلہ اور اس کے معصوم بچوں کے چہرے ان کی آنکھوں میں گھومتے ، اٹھتے بیٹھتے ان کے لبوں پر یہی دعا ہوتی کہ راحیلہ کے بارے میں جتنی افواہیں سننے میں آئی ہیں ان میں کوئی سچائی نہ ہو ۔ ایک بڑی ہی خوشگوار شام کو یاسمین کے فون کال نے ناخوشگوار بنادیا ۔ جب اس نے بتایا کہ راحیلہ کے میاں کے بارے میں جو کچھ سنا تھا وہ لفظ بہ لفظ درست تھا ۔
بیگم احسن جو جب حقیقت کا پتہ چلا تو وہ بہت روئیں ، بہت تڑپیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ راحیلہ کا سامنا کس طرح کرپائیں گی۔ انھیں رضوانہ بھی بہت یاد آئی جس کے مسلسل منع کرنے کے باوجود بھی انھوں نے یہ غلطی کی تھی ۔ دوسرے دن بیگم احسن راحیلہ کے پاس گئیں ان کے تھکے تھکے وجود اور مغموم چہرے کو دیکھ کر راحیلہ بہت کچھ سمجھ گئی تھی ۔ بیگم احسن اسے گلے لگا کر بہت روئیں اور ہاتھ جوڑتی ہوئی بولیں ’’مجھے معاف کردو بیٹی ۔ خدا گواہ ہے ، میں نے جان بوجھ کر تمہارا برا نہیں کیا ۔ سب کچھ انجانے میں ہوگیا ، جس کے لئے میں بہت شرمندہ ہوں‘‘ ۔
’’نہیں آنٹی مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ۔ میں تو آج بھی آپ کی احسان مند ہوں ۔ آپ کی وجہ سے سہاگن بنی ۔ دو بچوں کی ماں بنی ۔ مجھے اور کیا چاہئے‘‘ ۔ راحیلہ نے بھیگی آنکھوں اور درد بھری مسکراہٹ سے کہا تو بیگم احسن کو کچھ ڈھارس بندھی ۔ پھر بھی دکھی لہجہ میں بولیں ’’بنا شوہر کے دو دو بچوں کی پرورش کیسے کروگی؟‘‘ ۔ ’’کرلوں گی آنٹی آپ پریشان نہ ہوں ۔ ان کی دیکھ بھال میں میری باقی زندگی گذر جائے گی ۔ آپ نے مجھے جینے کا مقصد دیا جس کے لئے میں آپ کاجتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے اور پھر آپ ہی کی وجہ سے میری دونوں چھوٹی بہنوں کی شادی ہوئی اور میرے والدین نے سکھ کا سانس لیا‘‘ ۔
راحیلہ کی زبان سے یہ باتیں سن کر بیگم احسن کے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے ۔ وہ سوچ رہی تھیں اتنی نیک لڑکی کی زندگی میں اتنا بڑا المیہ کیوں پیش آیا ؟۔ راحیلہ اپنی جگہ سے اٹھ کر بیگم احسن کے پہلو میں آبیٹھی ۔ ان کے دونوں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر بولی ’’آنٹی میری عمر کی ان گنت لڑکیاں ابھی تک مناسب رشتوں کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہورہی ہیں ۔ ان سے میں قسمت والی ہوں کہ میری شادی بھی ہوئی اور اللہ نے بیٹا اور بیٹی دونوں سے نوازا ۔ یہ سب آپ کی کوشش سے ہوا پھر آپ دکھی کیوں ہوتی ہیں ۔ آپ نے مجھ پر وہ احسان کئے ہیں کہ میں اپنی آخری سانس تک آپ کو دعائیں دوں تو بھی کم ہے‘‘ ۔ راحیلہ نے ان کے دونوں ہاتھوں پر بوسہ دیا اور اپنی آنکھوں سے لگالیا ۔
بیگم احسن کو خلاف توقع راحیلہ کا حسن سلوک دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ انھوں نے راحیلہ کی آنکھوں میں جھانکا وہاں صرف سچائی ، خلوص اور تشکر آمیز جذبات موجزن تھے ۔ طمانیت کا ایک سرور آمیز احساس ان کی روح اور سراپا میں دور دور تک سرایت کرگیا ، جیسے اللہ تعالی نے انکی زندگی بھر کی ریاضت قبول کرلی ہو ۔