ریاست کے عوام سعودی عرب میں پریشان ‘ این آر آئی سیل غیر کارکرد

ریاست کے عوام سعودی عرب میں پریشان ‘ این آر آئی سیل غیر کارکرد
حیدرآباد۔ 12؍نومبر (سیاست نیوز)۔ سعودی عرب میں موجود آندھرا پردیش کے شہری بے یار و مددگار مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ انھیں راحت کے حصول کیلئے کیرالا کے این آر آئی سیل یا دیگر تنظیموں سے مدد حاصل کرنی پڑرہی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے غیر مقیم ہندوستانیوں کی بروقت مدد کیلئے چیف منسٹر کی راست نگرانی میں این آر آئی سیل قائم کیا گیا تھا، لیکن جزائر عرب میں موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے آندھرا پردیش این آر آئی سیل غیر کارکرد نظر آرہا ہے جس کے سبب عوام بالخصوص سعودی عرب میں مقیم افراد کو مسائل کا سامنا ہے۔ بیرون ملک برسرخدمت ملازمین کیلئے حکومت آندھرا پردیش نے جی اے ڈی کے حصہ کے طور پر این آر آئی سیل شروع کیا تھا، لیکن سعودی عرب میں سیل کی عدم سرگرمیوں کے باعث آندھرا پردیش کے عوام حکومت کی کارکردگی سے مایوس، کیرالا این آر آئی سیل و دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے ذمہ داران سے مدد حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جدہ، ریاض کے علاوہ دیگر علاقوں میں مقیم عوام نے ان احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیرالا حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کا فائدہ دیگر ریاستوں کے شہریوں کو بھی حاصل ہورہا ہے، لیکن کیرالا این آر آئی سیل میں کیرالا سے تعلق رکھنے والوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ پریشان حال عوام نے حکومت کی جانب سے تاحال کسی قسم کی تفصیلات دریافت نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ حکومت آندھرا پردیش نے اپنے شہریوں کے مشکل وقت میں ان سے کیفیت تک دریافت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے آندھرا پردیش کے عوام کے حالات جاننے کی کوشش کی۔ واضح رہے کہ حکومت کیرالا نے اپنے شہریوں کو جوکہ جزائر عرب سے واپس روانہ کئے جارہے ہیں، انھیں خصوصی پرواز سے نہ صرف مفت واپس کیرالا لانے کا اعلان کیا ہے بلکہ 4 نومبر کے بعد سے آنے والوں کو گھروں تک پہنچانے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ چیف منسٹر کیرالا اومن چنڈی نے جو مثال قائم کی ہے، اگر ریاستی حکومت بھی اسی طرح سے اقدامات کا آغاز کرکے غیر مقیم ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود بالخصوص سعودی عرب کے نئے قانون نطاقہ کے متاثرین کی مدد کرتی ہے اور انھیں معمولی روزگار کی فراہمی کے ساتھ ملازمتوں میں حصہ فراہم کرتی ہے تو ان پریشان حال عوام کو راحت میسر آئے گی۔ سعودی عرب میں مقیم پریشان حال شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری مسئلہ کے حل اور شہریوں کی واپسی یا سعودی عرب میں انھیں ملازمت کی فراہمی کی راہیں ہموار کرنے سفارت خانہ سے رابطہ قائم کرے تاکہ غیر مقیم ہندوستانیوں کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔ نطاقہ کے متاثرین کا احساس ہے کہ انھوں نے اپنے ملک اور افراد خاندان سے دُور رہ کر نہ صرف اپنے لئے ذریعہ معاش تلاش کئے بلکہ ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن آج جب وہ پریشان حال ہیں تو حکومت کی جانب سے این آر آئی سیل ہی غیر کارکرد نظر آرہا ہے۔ ہندوستانی قونصل جنرل متعینہ جدہ جناب فیض احمد قدوائی کے بموجب تاحال ریاض میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس میں ہندوستانی شہریوں اور محکمہ جوازات کے درمیان تناؤ کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستانی سفارت خانہ صورتِ حال پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے اور غیر قانونی طور پر مقیم ہر فرد تک پہنچنے کی کوشش کرکے انھیں قانونی موقف دلانے کوشش کی گئی ہے، لیکن اب بھی کئی ہندوستانی جزائر عرب میں موجود ہیں۔ جناب قدوائی نے بتایا کہ سفارت خانہ اور قونصل خانہ کی جانب سے چوبیس گھنٹے بِلاوقفہ خدمات کی فراہمی سے عوام کو راحت پہنچانے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت سعودی عرب کی مہلت کے دوران کئی غیر قانونی تارکین وطن کے دستاویزات کو درست کیا گیا اور جو لوگ ملک واپس ہونے کے متمنی تھے، انھیں واپس کردیا گیا تھا اور اب ان کیلئے دوبارہ عرب میں قانونی دستاویزات کے ساتھ داخل ہونے کا موقع ہے جبکہ اب جو لوگ سعودی عرب سے نکالے جارہے ہیں، ان کا دوبارہ سعودی عرب میں ملازمت اختیار کرنا دشوار ہے۔ سفارتی عہدیداروں کا استدلال ہے کہ ہندوستانی سفارت خانہ اور حکومت سعودی کے خارجی و داخلی اُمور کے عہدیداروں سے مسلسل میں رابطہ ہیں تاکہ کسی بھی طرح کی ہنگامی صورتِ حال میں بروقت نطاقہ متاثرین کی مدد کو یقینی بنایا جاسکے۔ حکومت کیرالا نے جس مستعدی کے ساتھ اپنے شہریوں کی مدد کی ہے، اگر اسی طرح حکومت آندھرا پردیش بھی فوری این آر آئی سیل کو متحرک کرتی ہے تو جزائر عرب میں پریشان حال شہری سیل سے رجوع ہوکر اپنے گھر بہ آسانی واپس ہوسکتے ہیں۔ حکومت ہند اور حکومت سعودی عرب کے وزارت خارجہ کے عہدیدار بھی نطاقہ متاثرین اور ان کی مکمل تفصیلات کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے رابطہ میں رہنے کی اطلاع ہے، لیکن تاحال حکومت آندھرا پردیش کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں کی گئی جوکہ باعث تشویش ہے۔