ریاست حیدرآباد کے عظیم سپوت مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ

ڈاکٹر ضامن علی حسرت
سرکشن پرشاد شادؔ 18 شعبان 1280ھ میں حیدرآباد کے سورج بنسی راجاؤں کے اعلی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ کشن پرشاد کو اپنی نجابت اور عظیم الشان وراثت پر ہمیشہ فخر رہا اور انہوں نے اپنی وراثت کا ذکر اکثر اپنی تحریروں میں کیا ہے ۔ سرکشن پرشاد شادؔ دولت آصفیہ کے اعلی ترین عہدوں پر فائز رہے اور اپنی دانشمندی و صلاحیتوں سے ریاست حیدرآبادکا نام سدا اونچا رکھا ۔ 1903 ء میں سرکشن پرشاد شادؔ ریاست آصفیہ کے وزیراعظم مقرر ہوئے اور بے شمار خطابات سے نوازے گئے جن میں قابل ذکر خطابات راجہ بہاد ر، راجہ راجایاں ، یمین السلطنت ، سی آئی سی ، جی سی آئی سی آئی ای ، بھارت بھوشن ، ایل ایل ڈی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
کشن پرشاد نے ہندو اور مسلمانوں دونوں ہی مذہب کی عورتوں سے شادیاں کیں ، ان کی اولادوں میں ہندو اور مسلمان موجود ہیں ۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ شادؔ ایک سیکولر اور غیر جانبدار ذہن کے مالک تھے ۔ وہ ہندو اور مسلمانوں دونوں کو یکساں طور پر عزیز رکھتے تھے کبھی انہوں نے بھید بھاؤ کا نظریہ نہیں اپنایا ۔ شاد کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے وہ ریاست حیدرآباد میں سب اعلی عہدوں جیسے صدر المہام فوج، وزیر افواج ، یمین السلطنت پر فائز رہے ۔ انہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا مثلاً اردو ، فارسی ، عربی ، سنسکرت ، جنوبی ہندوستان کی تقریباً تمام زبانوں کے علاوہ انگریزی زبان سے مکمل طور پر واقف تھے ۔ شاد کو یوروپ کی مشہور زبانوں سے بھی واقفیت تھی ۔ وہ علم رمل اور جیوتشی کے بھی ماہر تھے ۔ کسی فرد واحد میں اتنی ساری خوبیوں اور صلاحیتوں کی موجودگی کسی کو بھی حیرت میں ڈال سکتی ہے ۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ کشن پرشاد شادؔ ایک سحرانگیز شخصیت کے مالک تھے ۔ شاد ایک بہترین منتظم سلطنت کے علاوہ ایک بہترین شاعر بھی تھے ۔ اردو اور فارسی میں شاعری کیا کرتے تھے ۔ شاعری کے علاوہ شاد بہترین نثرنگار بھی تھے ۔ نثر میں لگ بھگ ان کی 70 کتابیں موجود ہیں ۔ جن میں سے بہت ساری کتابیں آج عدم دستیاب ہیں ۔ ان کی مشہور تصانیف میں پریم درپن ، نذر عقیدت ، پیمانہ عقیدت اور ہندو مسلم اتحاد کے نام شامل ہیں ۔ شاد نے ’’دیوان حسن سحری‘‘ کو اپنی نگرانی میں طبع کرواکے فارسی ادب پر ایک احسان عظیم کیا ہے ۔ اپنے مذہبی اور سیاسی افکار و خیالات و احساسات سے قطع نظر شاد خدمت ادب اور خدمت قلم کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ شاد ایک شاعر و ادیب ہی نہیں تھے وہ شاعر پرست اور ادب نواز شخصیت کے مالک تھے ۔ اس دور کے راجہ مہاراجہ ، دیوان شاعر ، مشائخین ، واعظ ، مدیران اور فلاسفر و دانشور سب کے سب آپ کے علم و ایثار اور خداداد صلاحیتوں سے بے حد متاثر تھے اور دل سے آپ کی قدر کرتے تھے ۔
شاد کو تاریخ میں ایک بہترین مہمان نواز شخصیت کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا ۔ آپ کو مہاراجہ بیکانیر ، مہاراجہ دھولپور ، نواب صاحب خیرپور ، نواب لوہارو ، سرمرزا اسماعیل ، سرتیج بہادر سپرو ، ڈاکٹر انصاری ، مولوی باسط حسن ، پنڈت دین دیال ، سررابندر ناتھ ٹیگور جیسی مثالی شخصیتوں کی میزبانی کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور شعراء میں شاد اقبال سے بے حد متاثر تھے اور انہیں علامہ اقبال کی شخصیت سے ان کی شاعری سے ایک قلبی لگاؤ تھا ۔ اس بات کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو شاد نے اقبال کو لکھے تھے ۔ حضرت خواجہ حسن نظامی حضرت کلیسی شاہ کا اکثر آپ کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ پنڈت جگت پرشاد کو پانچ روپیہ یومیہ دے کر آپ نے مہینوں اپنی بارہ دری میں ٹھہرایا تھا ۔ شاد کو اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی شریعت سے بے پناہ لگاؤ تھا ۔ اکثر شاد اپنی تحریروں میں قرآن و حدیث کے حوالے پیش کیا کرتے تھے اور مشکل و کٹھن حالات میں پیران پیر سے رجوع ہوتے تھے ۔ ان کی مشہور تصنیف ’’روزنامچہ گلبرگہ‘‘ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ انہیں بزرگان دین اور اولیائے کرام سے قلبی لگاؤ تھا اس بات کا اندازہ ان کے قصائد سے ہوتا ہے جو انہوں نے بندہ نواز کی شان میں لکھا تھا اس قصیدے کے چند شعر ملاحظہ کریں
خواجہ ما خواجہ بندہ نواز
در جہاں دارد لقب بندہ نواز
من بہ بزمت چوبی نہ رقصم ساقیا
مستم و عشق دارم سوز وساز
دست من محکم بگیرائے دستگیر
چوں کف محمود شہ زلف ایاز
درشب وصل آمدی ائے ماہ مبیں
از درازی ہاوچوں زلف ایاز
بردر تو شادؔ چوں حاضر شود
حاجتش برآراے بندہ نواز
قصائد کے علاوہ سرکشن پرشاد شادؔ نے غزلیں ، حمد ، نعت ، منقبت میں بھی اپنے سخن کا جلوہ دکھایا ہے ۔ ان کے اشعار میں ایک روحانی کیف و سرور کا جذبہ پوشیدہ ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حال و قال کی لذتوں میں شرابور ہے ۔ خواجہ غریب نواز کے تعلق سے اپنے اشعار میں لکھتے ہیں ۔
کیوں مجھے اتنا ستائے ہو ارادہ کیا ہے
کچھ تو فرماؤ خدا کے لئے منشا کیا ہے
میں تڑپتا ہوں شب و روز زیارت کے لئے
پوچھتے کیوں نہیں آخر سبب اس کا کیا ہے
بے نیازی کی اداؤں کے تصدق جاؤں
شان یہ سب سے انوکھی مرے آقا کیا ہے
اتنی دور آکے زیارت سے رہوں میں محروم
یہ ستم مجھ پہ نیا ائے میرے مولا کیا ہے
دوسرے غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
پلا مجھ کو ساقی میں ہوں پینے والا
مرے منہ سے جلدی لگادے پیالہ
کلیم سمیع یہ دونوں صفت ہیں
وہی کہنے والا وہی سننے والا
رہے دین و دنیا میں ائے شاد دائم
سجق محمدؐ ترا بول بالا
اسی طرح کی روحانی اور قلبی جذبات کا اظہار خیال ان کے قطعات اور رباعیات میں بھی ہوتا ہے ۔ شاد کے چند مشہور قطعات 1915 میں نامی پریس کانپور اترپردیش سے شائع کئے گئے رباعیوں کی کل مقدار لگ بھگ 425 ہے ۔ رباعیوں کے عنوانات سے ان کی اسلام سے عقیدت اور محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ چند عنوان کے نام درج کئے جاتے ہی ںمثلاً توحید ، تصوف ، منقبت عزائے سیدنا امام حسین علیہ السلام ، امیر خسرو ، تاسف برزندگان ، انجام زندگانی وغیرہ ۔ تقریباً 100قطعات میں موجود ہیں اور ان کا تعلق ریاستی حالات ، واقعات اور شاہ دکن کی نجی مصروفیات اور تفریحات سے ہے ۔ شاد کی زیادہ تر شعری تخلیقات رسالہ ’’زمانہ‘‘ میں شائع ہوتی تھیں ۔ جس طرح اقبال اور مخدوم لازم و ملزوم تھے اسی طرح شاد زمانہ سے وابستہ تھے ۔ مدیر ’’زمانہ‘‘ دیا نرائن نگم کی نگاہوں میں ان کا اعلی مقام و مرتبہ تھا اسی وجہ سے دیا نرائن شاد کی ہر تخلیق کو اپنے پرچے میں چھاپتے تھے ۔ ’’زمانہ‘‘ 1903 سے 1948 تک شائع ہوتا رہا ۔ شاد کی موت 4 مئی 1940 ء میں ہوئی ۔ ان کی موت کے بعد بھی رسالہ مذکورہ میں ان کی غزلیں اور قطعات تبرکاً شائع کرتا رہا ۔ زمانہ میں شائع شدہ غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں ۔
راستی تو جہاں میں سے سلطان
راستی تو ادت کی ہے خاقاں
راستی کچھ کجی نہیں تجھ میں
راستی تو نہیں ہے مثل
تیری عادت مطابق سنت
تیرا شیوہ موافق قرآن
شادؔ کے دل کو تو نے شادؔ کیا
بول کرے تر ایزداں
سرکشن پرشاد شادؔ کی فارسی غزلوں کی اہم خوبی یہ ہے کہ موضوع چاہے جیسا بھی ہو اشعار میں تغزل و ترنم برقرار رہتا ہے ۔ یہ فن اس دور کے دوسرے فارسی داں شعراء مثلاً شبلی نعمانی اور محمد حسین آزاد کی فارسی غزلیں روایتی قسم کی ہیں ۔ اس میں وہ حسن وہ لذت اور کیف و سرور نہیں ہے جو شاد کی فارسی غزلوں میں ہے چند اشعار ملاحظہ کریں ۔
نیرنگ صبا ہست زہر رنگ ہویدا
توقیر وفا گر نہ کنی بس غضب است ایں
درکسوت پوشیدہ باناز نہانی
در صورت انسان بہ نیازے است ایں
در مظہر کل صورت زیبائے تو ظاہر
پنہاں زنظر ہم چوں شمیمی عجب است ایں
ایں محفل رند انست نہ ایں محفل واعظ
اے شادؔ بادہ کہ بزم طرب است ایں
نظم طباطبائی کی وفات پر شاد کی تعزیتی نظم شعر و سخن کے اعلی معیار کو پیش کرتی ہے اس میں انہیں کے مرثیہ کا زور بیان اور حسن تغزل موجود ہے چند اشعار ملاحظہ کریں
تیغ الم سے آج مرا دل فگار ہے
خون جگر سے دیدہ دل اشکبار ہے
مضطر ہے قلب جان حزیں بے قرار ہے
مخلوق نوحہ خواں ہے جہاں سوگار ہے
دامن شکیب و صبر کا اشکوں سے بھر گیا
اونچا ہوا یہ پانی کہ سر سے گذر گیا
واحسرتا کہ نظم جہاں سے گذر گئے
حکم خدا سے سوئے قضا و قدر گئے
مرنے سے ان کے علم و کمالا مرگئے
خون جگر سے دیدہ نمناک بھرگئے
سرکشن پرشاد شادؔ کا علمی اثاثہ نہایت وسیع اور مختلف النوع ہے ان کی سینکڑوں نگارشات کی کوئی سمت مقرر نہیں ہے اور نہ ہی ان میں کسی مقصد یا پیغام کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نظم و نسق کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد تھیں ان ہی وجہ سے ان کی بیشتر تحریروں سے کسی عمل یا پیغام کی توقع رکھنا مناسب نہ ہوگا ۔ ان تمام باتوں کے باوجود شاد کی تخلیقات نظمی و نثری زبان میں ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سرکشن پرشاد شادؔ ریاست حیدرآبادکا ایک ایسا کوہ نور ہے جس کی چمک آنے والی صدیوں میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ برقرار رہے گی ۔