ریاست حیدرآباد کی رواداری اور سیکولر کردار

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
مرہٹہ حکمراں اور اہم تاریخی شخصیت شیواجی کے نام سے منسوب اداروں کی سابق ریاست حیدرآباد کی جانب سے امداد ایک چونکا دینے والی بات معلوم ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ریاست حیدرآباد نے اپنی رواداری اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ شیواجی ہائی اسکول کیلئے امداد منطور کی بلکہ شیواجی ملٹری اسکول کیلئے امداد کی منظوری میں بھی پس و پیش نہیں کیا ۔ اس سے ریاست حیدرآباد اور خاص کر اُس کے حکمراں میر عثمان علی خان آصف سابع کی کشادہ قلبی کا اظہار ہوتا ہے ۔ کسی تعصب یا کسی تحفظ ذہنی کو اس ریاست اور اُس کے حکراں نے اپنے پاس پھٹکنے نہ دیا ۔ اس کے علاوہ دیگر بیرونی اداروں کو بھی ان کی تہذیبی اہمیت ، افادیت اور دوسری لائق قدر و منزلت وابستگیوں کا خیال کرتے ہوئے امداد منظور کی گئی ۔ شہرہ آفاق شاعر ، ماہر تعلیم اور سماجی مصلح رابندر ناتھ ٹیگور کے نام سے قائم کردہ میموریل فنڈ کے عطئے کی منظوری کے علاوہ آصف سابع نے گرودیو ٹیگور کیلئے اچھے اور پسندیدہ خیالات کا اظہار کیا ۔

اس مضمون میں شیواجی کے نام سے اسکولوں کے علاوہ چند اور بیرونی اداروں کو ریاست حیدرآباد کی جانب سے مالی امداد دینے کیلئے سلسلے میں جو سرکاری کارروائیاں ہوئی تھیں ان کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں ۔ صدر المہام ( وزیر ) فینانس سر اکبر حیدری نے کاظم جنگ کے نام اپنے مکتوب مورخہ 8 مئی 1934 ء کے ساتھ بمبئی کے ایچ او ایچ (Help our Hospitals) فنڈ کو عطیہ دینے کے بارے میں کابینہ کے اراکین کی رائے منسلک کرتے ہوئے لکھا کہ اس حقیقت کے پیش نظر یہ عطیہ دینا ضروری ہے کہ بمبئی میں ریاست کی اہم جائیدادیں موجود ہیں اور ریاست کے عوام بمبئی میں دواخانوں میں مہیا کی جانے والی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ حج کے موقع پر یہ ایسا معاملہ ہے جس کی عاجلانہ یکسوئی ضروری ہے ۔ کیونکہ اطلاع ملی ہے کہ فنڈ جلد ہی بند ہونے والا ہے ۔ اس لئے ہمارا عطیہ فنڈ کے بند ہونے سے قبل پہونچ جانا چاہئے ۔ اس فنڈ میں عطئے کی تجاویز کے بارے میں سر اکبر نے لکھا کہ انہوں نے کم از کم تین ہزار اور زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپئے کے عطئے کی تجویز پیش کی ہے ۔ مہدی یار جنگ نے پانچ ہزار اور سر رجرڈ ٹرنچ نے تین تا پانچ روپئے کے عطئے کی سفارش کی ہے ۔ جس سے عقیل جنگ نے اتفاق کیا ہے ۔ انہوں نے مکتوب کے آخر میں لکھا کہ اگر ہز اگزالٹیڈ ہائنس سفارش کردہ رقموں کا اوسط یعنی چار ہزار روپئے منظور فرمائیں تو یہ رقم بذریعہ تار منی آرڈر روانہ کی جاسکتی ہے ۔ آصف سابع کے پیشی کے دفتر سے کاظم یار جنگ نے دوسرے ہی روز سر اکبر حیدری کو اپنے مکتوب کے ذریعہ اطلاع دی کہ اُن کا ( سر اکبر حیدری ) مکتوب آصف سابع کے ملاحظے میں پیش کیا گیا تھا جس پر انہوں نے ایچ او ایچ فنڈ بمبئی کیلئے چار ہزار روپئے منظور کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔ اس بارے میں عنقریب فرمان جاری ہوگا ۔ اس سلسلے میں آصف سابع کا فرمان مورخہ 29 محرم 1353 ھ 14 مئی 1934 صادر ہوا جس میں ایچ او ایچ فنڈ کیلئے چار ہزار روپئے کلدار یکمشت ارسال کرنے کا حکم دیا گیا ۔

مہاراجا کولہاپور نے شیواجی ملٹری اسکول پونا کی امداد کی نسبت آصف سابع کے نام اپنے مکتوب مورخہ 27 ڈسمبر 1935 ء میں لکھا کہ وہ شری شیواجی میموریل کمیٹی کے صدرنشین ہیں ۔ کمیٹی نے شیواجی کے نام کو دائمی بنانے کیلئے پونا میں شیواجی ملٹری اسکول کھولا ہے ۔ جس کا سنگ بنیاد پرنس آف ویلز نے رکھا جبکہ وہ ہندوستان کے دورے پر تشریف لائے تھے ۔ کرنل ایم سی کوٹ Col M.C.Coote اس اسکول کے پرنسپل ہیں اور وہ عنقریب کمیٹی کی جانب سے ملک کے چند ممتاز و الیان ریاست کے پاس اس ادارے کو عطیہ دینے کیلئے درخواستیں روانہ کرنے والے ہیں ۔ مہاراجا نے اس مکتوب میں آصف سابع سے استدعا کی کہ وہ اس ملٹری اسکول کیلئے شایان شان عطیہ منظور فرمائیں ۔ عطئے کی درخواست کے ساتھ مہاراجا نے لکھا کہ ریاست حیدرآباد کی رعایا عنقریب اُن کی ( آصف سابع ) جوبلی منانے والی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جوبلی کا مبارک دن یور اگزیٹیڈ ہائنس کی جانب سے فیاضی کے مظاہرے کا نہایت موزوں دن ہوگا ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ آصف سابع کو یہ جان کر مسرت ہوگی کہ یہ ادارہ نہ تو فرقہ وارانہ ہے اور نہ ہی کسی فرقے یا جماعت سے اس کا تعلق ہے ۔ مسلمان ، برہمن ، عیسائی اور دیگر تمام فرقوں کے طلبہ اس ملٹری اسکول میں ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ۔

آصف سابع نے مہاراجا کولہاپور کے خط کے بارے میں حکم دیا کہ اس سلسلے میں کونسل (کابینہ ) کی رائے عرض کی جائے ۔ اس حکم کی تعمیل میں یہ کارروائی باب حکومت کے اجلاس منعقدہ 16 آبان 1345 ف م 21 ستمبر 1936 ء میں پیش کی گئی ۔ اس اجلاس میں بہ اختلاف راء صدر المہام ( وزیر ) عدالت یہ طئے پا بجائے دائمی امداد کے بقدر پانچ ہزار روپئے کلدار یکمشت عطیہ دئے جانے سے کونسل ( باب حکومت ) کو اتفاق ہے بشرطیکہ بمشورہ حکومت ہذا کوئی بازی گاہ یا پویلین وغیرہ تعمیر کیا جائے تاکہ عطیہ شاہانہ کی یادگار ہمیشہ قائم رہے ۔ صدر اعظم نے ایک عرض داشت مورخہ 12 رجب 1355 ھ م 18 اکٹوبر 1936 ء کے ذریعہ کونسل کی قرارداد آصف سابع کی مذمت میں روانہ کی جسے انہوں نے منظوری دی ۔ اس سلسلے میں اُن کا جو فرمان مورخہ 19 شعبان 1355 ھ م 5نومبر 1936 ء جاری ہوا تھا اُس کا متن حسب ذیل ہے
’’ کونسل کی رائے کے مطابق مدرسہ مذکور کو پانچ ہزار روپئے کلدار یکمشت دئے جائیں اس شرط سے کہ ہماری گورنمنٹ کے مشورے سے کوئی بازی گاہ یا پویلین وغیرہ تعمیر کیا جائے ‘‘۔

ریاست کے صدر اعظم ( وزیر اعظم ) سر ا کبرحیدری نے ایک عرضی داشت مورخہ 10 صفر 1357 ھ م یکم اپریل 1939 ء آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی جس میں یہ تفصیلات درج تھیں کہ کچھ عرصہ قبل برار سے ہندووں اور مسلمانوں کا ایک وفد انجمن ہائی اسکول کہام گاؤں اور شیواجی ہائی اسکول امراوتی کیلئے امداد حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد آیا تھا ۔ اس وفد کو جوبلی پویلین کے افتتاح کے موقع پر آصف سابع سے بازیاب ہونے اور اڈریس پیش کرنے کی عزت حاصل ہوئی تھی جس میں دونوں مدارس سے متعلق تفصیلات درج تھیں ۔ بعد ازاں ان مدارس کی امداد کے بارے میں علحدہ درخواستیں پیش ہوئی تھیں ۔ اس عرض داشت کے ذریعہ یہ اطلاع دی گئی کہ ان مدارس کے متعلق کمشنر برار سے معلومات حاصل کی جاچکی ہیں ۔ اس کے علاوہ عرض داشت میں یہ بھی لکھا گیا کہ برار کے صدر مقام امراوتی میں ڈفرن ہاسپٹل قائم ہے جس کو امداد جاری کرنے کے بارے میں قبل ازیں غور ہوچکاہے ۔ اس ہاسپٹل کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی گئی ہے ں۔ ان تینوں اداروں کو امداد دینے کی کارروائی باب حکومت کے اجلاس منعقدہ 25 اردی بہشت 1348 ف م 20 مارچ 1939 ء میں پیش ہوئی جس میں بااتفاق رائے طئے پایا کہ برارکے ان اداروں کو یکمشت بیس ہزار روپئے فی ادارہ عطا کرنے کی سفارش کی جائے ۔ باب حکومت نے اس سفارش کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ ان تینوں اداروں کا تعلق برار سے ہے اور برار کا ہماری ریاست سے قریبی تعلق ہے ۔ پہلے دو اداروں کی جانب سے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک متحدہ وفد حیدرآباد آچکا ہے اور اس وفد نے آصف سابع کی خدمت میں ایک کاسکٹ اور اڈریس پیش کرنے کی بھی عزت حاصل کی ہے ۔ نیز ڈفرن ہاسپٹل ایک غیر فرقہ واری اور رفاہ عام سے متعلق ادارہ ہے ۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ یہ عطیہ تینوں اداروں کو دئے جائیں جو آصف سابع ، شہزادہ برار یا شہزادی برار کے نام سے منسوب اور چند لازمی شرائط کے تابع ہوں تاکہ ان عطیوں کے صحیح مصرف کا تعین و تیقن ہوسکے ۔ ان شرائط کو باہمی مراسلت سے طئے کیا جاسکتا ہے اور ان شرائط کا خاطر خواہ تصفیہ ہونے کے بعد رقومات ادا کی جاسکتی ہیں ۔ صدر اعظم نے عرض داشت کے آخر میں لکھا کہ انہیں باب حکومت کی مذکورہ بالا رائے سے اتفاق ہے ۔ آصف سابع نے عرض داشت میں پیش کردہ سفارشات کو منظوری دی اور فرمان مورخہ 15 صفر 1358 ھ م 16 اپریل 1939 ء کے ذریعہ تینوں اداروں کو بیس ہزار روپئے کلدار یکمشت فی ادارہ مجوزہ شرائط کے ساتھ ایصال کرنے کے ا حکام دئے ۔
بنگال ایتھلیٹک اسوسی ایشن کے اعزازی جنرل سکریٹری این احمدنے ٹیگور میموریل فنڈ کمیٹی کی ہدایت پر کاظم یار جنگ صدر المہام پیشی کے نام اپنے مکتوب مورخہ 25 نومبر 1942 ء کے ساتھ ٹیگور میموریل فنڈ میں عطئے کیلئے ایک اپیل منسلک کرتے ہوئے درخواست کی کہ اسے آصف سابع کے ملاحظے میں پیش کیا جائے ۔ اس بارے میں آصف سابع نے کونسل کی رائے دریافت کرتے ہوئے لکھا کہ ان کے خیال میں اس فنڈ میں ایک ہزار روپئے کا عطیہ دینا مناسب ہوگا کیونکہ مہاراجا ٹیگور سے ان کی ذاتی جان پہچان تھی اور انہوں نے دو دفعہ کلکتہ میں ان کے مکان Emerald Bowers میں قیام کیا تھا ۔

محمد اعظم نے اس سلسلے میں عرض داشت مورخہ 7 ذی الحجہ 1361ھ م 26 ڈسمبر 1942 ء آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی جس میں لکھا گیا کہ بنگال ایتھلیٹک اسوسی ایشن کے اعزازی جنرل سکریٹری نے اپنے مکتوب کے ساتھ عطیہ کے اپیل روانہ کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ کمیٹی کی منشاء ہے کہ آنجہانی ٹیگور کیلئے شایان شان یادگار قائم کی جائے جس کیلئے چندہ جمع کیا جارہا ہے ۔ آصف سابع بھی اس فنڈ میں چندہ عطا فرمائیں تو مستحسن ہوگا ۔ اس عرض داشت میں یہ لکھا گیا ۔ اس کارروائی پر کونسل کے اجلاس منعقدہ 3 بہمن 1352 ف م 7 ڈسمبر 1942 ء میں غور کیا گیا جس میں سوائے عقیل جنگ صدر المہام ( وزیر ) صنعت و حرفت کے جو بوجہ علالت شریک نہ ہوسکے ۔ فدوی جان نثار ( نواب صاحب چھتاری ) اور بقیہ اراکین شریک تھے ۔ بالاتفاق طئے پایا کہ ’’ مبلغ ایک ہزار کلدار زائد از موازانہ ادا کئے جائیں اور منظوری خسروی حاصل کی جائے ‘‘ ۔ اس عرض داشت پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 29 ذی الحجہ 1361 ھ 7 جنوری 1943 ء کے ذریعہ احکام جاری کئے کہ مذکورہ فنڈ میں ایک ہزار روپئے کلدار چندہ دیا جائے ۔