آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر سید داؤد اشرف
آخری آصف جاہی حکمران میر عثمان علی خان آصف سابع کے عہد میں اہم سماجی اصلاحات کے علاوہ دیگر سماجی برائیوں کے انسداد اور اصلاح کے لئے اقدامات کئے گئے تھے ۔ اس مضمون میں آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر آصف سابع کے عہد میں چند سماجی لعنتوں اور برائیوں کی روک تھام کے لئے کئے گئے اقدامات کی تفصیلات پیش کی جارہی ہیں ۔کرپشن آج ملک کا سب سے بڑا اور انتہائی سنگین مسئلہ بن گیا ہے ۔ بددیانتی ،رشوت ستانی اور ناجائز طریقے سے مالی فوائد حاصل کرنا کرپشن کے مختلف اقسام ہیں ۔ کرپشن کو معمول ، کمیشن ، kick back ، اسکام ،گھپلے اور دوسرے نام دئے گئے ہیں ۔ وزراء ، سرکاری عہدیدار ، ملازمین اور سیاست دانوں کی خاصی بڑی تعداد بدعنوانیوں اور رشوت خوری کی لعنت میں ملوث ہے ۔
سابق ریاست حیدرآباد میں آج سے تقریباً نوے 90 سال قبل رشوت ستانی کے مسائل اور مضمرات کا احساس ہوگیا تھا ۔ چنانچہ میر عثمان علی خان آصف سابع نے سرکاری سطح کی کسی بھی تدریجی کارروائی کے بغیر ہی اپنے طور پر اس برائی اور اس کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے اس کے علاج اور اصلاح کی ٹھان لی تھی ۔ انھوں نے اس مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی تھی تاکہ رشوت خوری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تدابیر اختیار کی جائیں ۔ انھوں نے رشوت لینے والوں کے ساتھ ہی ساتھ رشوت دینے والوں کو بھی اس سلسلے میں پوری طرح ذمہ دار قرار دیا تھا ۔ رشوت کی لعنت کے انسداد کے سلسلے میں آصف سابع کے جو احکام حسب ذیل فرمان مورخہ 20 ربیع الثانی 1342ھ م 30 نومبر 1922ء کی شکل میں صادر ہوئے تھے ، بے حد مبسوط اور نہایت اہمیت کے حامل تھے ۔
’’چونکہ یہ باور کرنے کی وجہ ہے کہ رشوت و بددیانتی کا مرض سرکار عالی کے مختلف سررشتوں (محکموں) میں پھیل رہا ہے اور اس کا اثر اضلاع تک پہنچ گیا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر سررشتہ سے (خواہ وہ عدالتی ہو یا انتظامی) اس خرابی کو دور کروں جس سے ملازمت سرکاری پر ایک بدنما الزام عائد ہوتا ہے ۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اپنی عزیز رعایا کی فلاح و بہبود اور مقاصد انتظام کے مدنظر موجودہ حالات کی اصلاح نہایت ضروری ہے اور اس کو استحکام اور استقلال کے ساتھ عمل میں لانا چاہئے ۔ لہذا حکم دیتا ہوں کہ :۔
۱) اگر کسی شخص نے کسی ملازم سرکار کو رشوت دی ہو یا اس کو بہ تعلق ملازمت کوئی ناجائز فائدہ پہنچایا ہو یا ایسی کسی کارروائی میں شریک رہا ہو تو اس کو چاہئے کہ صدراعظم باب حکومت کے پاس بذریعہ تحریر اپنی شکایت پیش کرے ۔
۲) اگر دریافت سے یہ معلوم ہو کہ شکایت صحیح اور نیک نیتی پر مبنی ہے تو شاکی کو (جس نے خود رشوت دی ہو یا ناجائز فائدہ پہنچایا ہو یا ایسی کارروائی میں شریک رہا ہو) اس الزام سے معافی دی جائے گی جو اس پر عائد ہوتا ہو ۔
۳) برخلاف اس کے اگر اس کی نسبت یہ معلوم ہو کہ اس نے بلاوجہ ایک ایسی شکایت پیش کردی جو محض بے بنیاد تھی (چنانچہ وہ ملازم سرکار جس کی نسبت اس نے شکایت کی تھی بے جرم ثابت ہوا) تو ایسی صورت میں شاکی خود سزا کا مستوجب ہوگا ۔
۴) جب کوئی شکایت وصول ہو تو صدراعظم باب حکومت میری منظوری حاصل کرنے کے بعد اس کو دریافت اور رپورٹ کی غرض سے ایک خاص کمیٹی کے سپرد کریں گے جس میں کونسل (کابینہ) کے تین رکن شریک رہیں گے۔
۵) دریافت کا حکم صادر ہونے پر اس ملازم سرکار کو جس کی نسبت شکایت پیش ہوئی ہو جواب دہی اور صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا ۔
۶) جملہ ملازمین سرکار متنبہ کئے جاتے ہیں کہ ان اشخاص پر جو راست ان کے ماتحت ہوں سخت نگرانی رکھیں تاکہ کسی کو رشوت لینے یا بہ تعلق ملازمت کوئی ناجائز فائدہ حاصل کرنے کا موقع نہ ملے ۔ اگر ایسی نگرانی میں وہ تساہل کریں گے تو سخت تدارک کے مستوجب ہوں گے ۔
۷) جب کبھی کسی سرکاری ملازم کو کسی جرم مذکورہ صدر کے ارتکاب کی خبر ملے تو اس پر لازم ہوگا کہ فوراً بصیغۂ راز اس کی تحریری اطلاع صدراعظم باب حکومت کو دے ۔بالآخر میں نہ صرف ملازمین سرکار کو بلکہ عامتہ الناس کو حکم دیتا ہوں کہ ہرجائز طریقے سے تابحد امکان اس خرابی کو رفع کرنے میں سرکار کو مدد دیں اور صدراعظم باب حکومت کو بطور خاص یہ ہدایت کرتا ہوں کہ اس اہم اور ضروری اصلاح کی طرف بذات خود متوجہ ہو کر میرے منشا کو پورا کریں۔ یہ حکم پبلک کی اطلاع کی غرض سے جریدہ غیر معمولی میں طبع کردیا جائے‘‘
آصف سابع نے نہ صرف یہ کہ رشوت کو ختم کرنے کے لئے قانون کو حرکت میں لانے کی گنجائش پیدا کی بلکہ انھوں نے اعلی عہدہ داراں مجاز کو اس پر عمل آوری کا ذمہ دار اور جواب دہ بھی قرار دیا ۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اس سلسلے میں ایک ایسے طریقۂ کار کا تعین بھی کردیا جس میں تنقیح اور انصاف کا پورا پورا خیال رکھا گیا تھا ۔
بیگار ایک ایسی سماجی برائی ہے جس میں محنت کش طبقے سے نہ صرف جبری طور پر کام لیا جاتا ہے بلکہ اسے اس کی محنت کا صحیح معاوضہ بھی ادا نہیں کیا جاتا ۔ یہ سماجی لعنت زمین دارانہ نظام اور جاگیردارانہ نظام میں بہت عام تھی ۔ ملک میں حصول آزادی کے بعد سماجی اور سیاسی بیداری کے نتیجے میں رفتہ رفتہ یہ سماجی لعنت کم ہوتی گئی لیکن ابھی تک اس کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا ہے ۔ آصف سابع نے آج سے زائد از 90 سال قبل اس سماجی لعنت کو ریاست حیدرآباد میں ختم کرنے کے لئے فرمان مورخہ یکم شعبان 1341ھ م 10 مارچ 1922 ء جاری کیا تھا ۔ انھوں نے یہ فرمان باب حکومت (کابینہ) کی سفارش یا تجویز کی بنیاد پر صادر نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے ازخود اس بارے میں احکام جاری کئے تھے ۔ بیگار کی موقوفی کے سلسلے میں آصف سابع نے متذکرہ بالا فرمان کے ذریعے یہ احکام دئے تھے ۔ ’’ممالک محروسہ میں بیگار کا جو طریقہ اب تک جاری تھا اس کو میں اپنی سالگرہ کی تقریب میں یک لخت موقوف کرتا ہوں کیونکہ اس سے رعایا کو سخت تکلیف ہوتی ہے اور آئندہ سے حکم دیتا ہوں کہ جو کوئی اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ مستوجب سزا ہوگا‘‘ ۔
اس فرمان میں بیگار کی موقوفی کے بارے میں واضح ہدایتیں موجود نہیں تھیں ۔ جب تفصیلی ہدایات کے لئے آصف سابع سے درخواست کی گئی تو انھوں نے بذریعہ فرمان مورخہ 26 اپریل 1922 ء حکم جاری کیا کہ بیگار کی موقوفی کے لئے تمام ریاست میں یکساں عمل کے لئے بیگار کی موقوفی کے عام قواعد جاری کرنا ضروری ہے ۔ لہذا فوراً تمام دورے کرنے والے اعلی عہدیداروں کی ایک کمیٹی تفصیلی قواعد مرتب کرکے باب حکومت کی رائے کے ساتھ میری منظوری کے لئے پیش کرے ۔
اس حکم کی تعمیل میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے قواعد کا مشورہ تیار کیا ۔ اس مسودے کی تیاری اور ترتیب میں اس مسئلے سے متعلق حکومت برطانوی ہند کے تمام قواعد پیش نظر رکھے گئے ۔ تیار کردہ قواعد کے مسودے پر مشیر قانونی کی رائے حاصل کی گئی اور کمیٹی نے متعدد اجلاسوں میں اس پر غور کرکے ضروری ترمیمات کے بعد اسے منظور کیا ۔ باب حکومت نے اپنی سفارش کے ساتھ اس مسودے کو آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا جنھوں نے فرمان مورخہ 12 دسمبر 1926ء کے ذریعے قواعد کے نفاذ کی منظوری دی ۔ یہ قواعد ساری ریاست میں 27 فروری 1927ء سے نافذ کئے گئے ۔ منظورہ قواعد میں چند اہم قواعد یہ تھے ۔ وہ اشخاص جو مزدور پیشے سے ہوں اور فی الواقعی مزدوری کا کام انجام دیتے ہوں دورے کرنے والے عہدیداروں کی باربرداری کے کام کیلئے باادائی اجرت مقررہ حاصل کئے جاسکیں گے ۔ کوئی عورت اس کی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور نہیں کی جائے گی ۔ اگر کوئی شخص سرکاری ضرورت کے لحاظ سے کام کرنے کے لئے مامور کیا جائے تو اس کو اجرت پیشگی دی جائے گی ۔ کسی مزدور کو حسب ذیل شرح سے زیادہ بوجھ نہ دیا جائے گا ۔
مرد سے بارہ سیر وزن ، عورت سے آٹھ سیر ، بچہ جس کی عمر چودہ سال سے کم ہو چھ سیر ، دس سال سے کم عمر بچے کو کبھی بیگار پر نہ لیا جائے گا ۔
جب کسی عہدیدار دورہ کنندہ یا اسکے ہمراہی اشخاص کے متعلق یہ شکایت ہو کہ قواعد ہذا کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو اس کی تحقیقات تحصیلدار یا ڈویژن افسر کے روبرو ہوگی ۔ جب کسی شخص کو یہ شکایت ہو کہ اسے مقررہ اجرت ادا نہیں کی گئی ہے یا قواعد ہذا کے احکام کے خلاف کام کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے تو ایسی شکایت تحصیلدار ،ڈویژن افسر یا تعلقدار کے پاس ایک مہینے کے اندر پیش کی جاسکتی ہے ۔
یہ قواعد ساری ریاست میں 27 فروری 1927 ء سے نافذ کئے گئے اور اس تاریخ سے بیگار سے متعلق جملہ احکام منسوخ کردئے گئے ۔
آصف سابع شوہروں کی جاگیرات سے گزارا پانے والی بیواؤں کا نکاح ثانی کرنے پر گزارا بند کرنے کے احکام جاری کئے تھے ۔ اس سلسلے میں جو فرمان مورخہ 15 صفر 1341ھ م 7 اکتوبر 1922 ء کو جاری ہوا تھا اس کا متن حسب ذیل ہے ۔
’’شوہری جاگیرات سے گزارا پانے والی بیواؤں کے متعلق آئندہ سے یہ قاعدہ مقرر کردیا جائے کہ جب بیوہ نکاح ثانی کرے گی تو اس کا گزارا مسدود کردیا جائے گا ۔ البتہ خاص خاص حالات میں گزارا بحال رہے گا جو خاص وجوہ پر مبنی ہوگا اور اس کا تصفیہ خود سرکار کرے گی‘‘ ۔
کچھ عرصے بعد شوہر کی جاگیر سے گزارا پانے والی بیوہ کی ایک کارروائی جب آصف سابع کے پاس پیش ہوئی تو اس پر احکام جاری کرنے سے قبل انھوں نے یہ لکھتے ہوئے باب حکومت (کابینہ) کی رائے طلب کی کہ اگر آئندہ یہ طریقہ جاری رکھا جائے تو بہت ممکن ہے کہ گزارا مسدود ہونے کے خوف سے بیوائیں عقد ثانی نہ کریں اور اس سے ان کی اخلاقی حالت پر برا اثر پڑے ۔ باب حکومت نے آصف سابع کی رائے سے اتفاق کیا اور اس بارے میں ایک عرض داشت ان کی خدمت میں روانہ کی جس پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 4 جمادی الاول 1351 ھ م 6 دسمبر 1932 ء کے ذریعے احکام جاری کئے کہ شوہر کی جاگیروں سے گزارا پانے والی بیواؤں کا گزارا عقد ثانی کرنے پر بھی مسدود نہ کیا جائے ۔
آصف سابع کے عہد میں کوتوال بلدہ کی جانب سے شہر اور ریاست کے دیگر مقامات سے وصول ہونے والی خفیہ رپورٹیں تقریباً ہر روز آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جاتی تھیں جس کے باعث وہ ریاست کے حالات سے ہمیشہ باخبر رہتے تھے ۔ اگر ان رپورٹوں سے نظم و نسق کی کمزوریوں ، سماجی برائیوں اور اخلاقی خرابیوں کا پتہ چلتا تو آصف سابع ان کی اصلاح اور سدھار کی جانب توجہ دیتے اور فرامین کے ذریعے احکام جاری کیا کرتے تھے ۔ جب سرکاری عہدیدار دوروں پر جایا کرتے تھے تو ان کی تفریح ،دلچسپی اور دل بہلائی کے لئے رقص و سرور کی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں اور طرح طرح کے تماشے ہوا کرتے تھے جن میں غیر شائستہ اور قابل اعتراض حرکتیں شامل ہوا کرتی تھیں ۔ اس کی وجہ سے نہ صرف پیسہ اور وقت ضائع ہوتا تھا بلکہ اخلاق پر بھی بُرے اثرات پڑتے تھے ۔ آصف سابع کو اس بارے میں اطلاعات ملنے پر انھوں نے بذریعہ فرمان مورخہ 16 جمادی الاول 1340ھ م 15 جنوری 1922ء حسب ذیل سخت احکام جاری کئے ۔
’’مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سرکاری عہدیدار جب کبھی دورہ کرتے ہیں تو اس موقع پر رقص و سرور کی محفلیں گرم رہا کرتی ہیں اور یہ افعال قبیحہ ان کے تزک و احتشام کا باعث اور دورہ کا جزلاینفک بن جاتے ہیں جن سے پبلک پر برا اثر پڑتا ہے اور اصلی غرض دورے کی مفقود ہوجاتی ہے ۔ لہذا ان امور کو مدنظر رکھ کر حکم دیتا ہوں کہ آئندہ سے اس قسم کی ناشائستہ حرکات یک لخت موقوف رہیں اور کوئی عہدیدار دیدہ و دانستہ خلاف ورزی کرے گا تو وہ قابل باز برس سمجھا جائے گا ۔ لہذا مناسب ہوگا کہ میرا یہ حکم جریدہ غیر معمولی میں عوام کی اطلاع کی غرض سے شائع کردیا جائے‘‘ ۔
شہر میں اکثر مقامات پر مینا بازار قائم تھے جن کی وجہ سے اکثر برائیاں پیدا ہورہی تھیں اس لئے آصف سابع نے فرمان مورخہ 5 ربیع الاول 1335 ھ م 31 دسمبر 1916ء کے ذریعے اخلاقی برائیوں کے سدباب کے لئے مینا بازار بند کردینے کے احکام دئے ۔
مرغ بازی ، بلبل بازی اور جانوروں کو آپس میں لڑانا جاگیردارانہ دورمیں ایک محبوب مشغلہ تھا اور لوگ اس تفریح و تماشے میں بڑا وقت ضائع کیا کرتے تھے ۔ لوگوں کے اس شوق میں بتدریج کمی آتی گئی لیکن ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران آصف سابع کے عہد میں یہ برائی باقی تھی چنانچہ انھوں نے فرمان مورخہ 7 صفر 1343ھ م 7 ستمبر 1924 ء کے ذریعے ان تماشوں کو ممنوع قرار دیتے ہوئے ان میں ملوث اشخاص کو ایک سو روپے جرمانہ و ایک ماہ قید سادہ کی سزا دینے کے لئے احکام جاری کئے ۔
ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ کے ساتویں یا آخری حکمران میر عثمان علی خان کے عہد میں سماجی اصلاحات سے متعلق جن اقدامات اور کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ریاست میں حکومت اور اس کے حکمران کو عوام کی فلاح و بہبود اور معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے ، اخلاقی اقدار کی پاسداری ، شائستگی اور تہذیبی ترقی کا کتنا خیال تھا ۔